جناب کلدیپ نائر ایک محترم
دانشور، سفارتکار اورممتاز صحافی ہیں۔ ہند پاک رشتوں کی تلخی کو ختم کرانے
کے لئے انہوں نے عرصہ تک ہر سال 15 اگست کی شب ہند پاک سرحد پر موم بتیاں
روشن کرنے کی مہم چلائی۔دو پڑوسیوں کے رشتوں پر چھائی ہوئی تاریکی کومٹانے
کے لئے انہوں نے جس نئی صبح کاسپنا دیکھا تھا اس کے نمو دار ہونے کے کچھ
آثار نظربھی آنے لگے تھے ،مگر اب پھر تاریکی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں قدرتی
طور سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ نائر صاحب سابقہ جدو جہد کوکسی نہ کسی
عنوان سے جاری رکھیں گے۔چند سال قبل ایک عید ملن کی تقریب میں ان سے بات
کرنے کا موقع ملا تو میں نے پوچھا کہ آپ کو کیا امید ہے؟ کیا تعلقات نارمل
ہونگے ،تو ان کا جواب تھا کہ ہم جو کوشش کررہے ہیں اس کو سرحد کے دونوں طرف
پذیرائی مل رہی ہے۔ ایک نہ ایک دن حالات ضرور بدلیں گے۔ مگر کب؟ یہ نہیں
کہا جا سکتا۔‘ اسی ضمن میں وہ کشمیر کی گتھی سلجھانے کے لئے بھی کوشاں رہے
اور بارہا اس کرب کا اظہار بھی ان کی تحریروں میں ہوا جو کشمیر کے حالات سے
ہر حساس دل محسوس کرتا ہے۔
انہوں نے اپنے مستقل کالم Between the Lines یا ’بین السطور‘ سے شہرت بھی
پائی اور رہنمائی بھی فرمائی۔ اسی لئے انکا یہ کالم دوسری زبانوں کے
اخباروں میں بھی شائع ہوتا ہے اور دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ افضل گرو کی
پھانسی کے بعد۳۱ فروری کو انہوں نے اسی موضوع پر "The hanging and its
aftermath" عنوان سے کالم لکھا جس کاناقص ترجمہ”افضل گرو کی پھانسی اور اس
کے عواقب“ عنوان سے بعض اردو اخباروں میںچھپا۔
مجھے یہ محسوس کرکے تکلیف ہوئی کہ اس کالم میں موصوف کے بعض مشاہدات اس مشن
کی روح کے منافی ہیں جو وہ ہند -پاکستان رشتوں میں ہمواری کے لئے عرصہ سے
چلارہے ہیں۔ اس موضوع کے ساتھ انہوں نے وہ انصاف بھی نہیں کیا جو اکثر لبرل
اور روشن خیال دانشوروں اور صحافیوں کی تحریروں میں نظرآتا ہے۔ افسوس اس
پربھی ہوا کہ انہوں نے بے بس ، مظلوم کشمیری نوجوانوں کو "pigeonholed" کا
نام دیدیا جس میں ضم اور تحقیر کا پہلو شامل ہے۔ "pigeonhole" کبوتر کے
کابک کو کہتے ہیں، جس میں وہ دبک کر بیٹھ جاتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے
خبر ہوجاتا ہے۔یا الماری کے اس چھوٹے کے خانے کو کہتے ہیں جس میں کاغذ گھسا
کر رکھ دئے جاتے ہیں۔مراد اس لفظ سے’کسی غلط نظریہ کا یانادانی کا اسیر‘ہو
جانا ہے۔ نائر صاحب کی تحریر کا مفہوم یہ ہے ’کشمیری نوجوان دہائیاں گزر
جانے کے باوجود نادانی کے اسیر ہیں اور ہند میں کشمیر کے الحاق کو ابھی تک
تسلیم نہیں کرتے۔‘
اردو مترجم نے غضب یہ فرمایا کہ"accession" کا ترجمہ’انضمام ‘ لکھدیا جو
"merge"کا ترجمہ ہے۔دراصل کشمیر کے تعلق سے یہ بات ذہن سے نکل جاتی ہے
بالکہ نکال دی جاتی ہے کہ دیگر رجواڑوں اور دیسی ریاستوں کی طرح کشمیر کا
ہند میں ’انضمام‘ نہیں ، الحاق ہوا ہے۔ اسی لئے اس کو آئین کی دفعہ 370 کے
تحت خصوصی درجہ حاصل ہے۔ کشمیر کایہ الحاق بعض شرائط کے ساتھ ہوا۔ لیکن
الحاق کے فوراً بعد ہی مرکز نے ان شرائط کو پامال کرنا اور ریاست کی مسلم
آبادی کے ساتھ سوتیلا سلوک کرناشروع کردیا۔ سارا جھگڑا اسی سے شروع ہوا ہے۔
مرکز نے جوروش روز اول سے اختیار کی اس کی کچھ جھلک مولانا ابوالکلام آزاد
کے خطوط میں ملتی ہے جن کے چند اقتباس معروف صحافی سعید نقوی نے اپنے
کالم"The Post Afzal Guru..." میں نقل کئے ہیں۔ 1953ءمیں اس وقت کے وزیر
مواصلات جگجیون رام کے نام مولانالکھتے ہیں: (محکمہ ڈاک و تار میں ) کلرکوں
کے لئے جموں و کشمیر کے ۳۵ درخواست دہندگان میں سے صرف ایک کا تقرر ہوا ۔
باقی سب باہر کے ہیں۔ظاہر ہے بھرتی کرنے والوں کو یہ احساس نہیں کہ اس طرح
کے واقعات سے مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف میں پیچیدگی پید ہوتی ہے“۔” جیساکہ
آپ کو معلوم ہے محکمہ مواصلات اور دفاع ریاست سے مرکز کے اختیار میں منتقل
ہوئے ہیں۔ہم سے طنزاً سوال کیا جارہا ہے کہ اگر محکمہ مواصلات اور دفاع میں
کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے تو اس صورت میںیہ
لوگ کیا توقع رکھیں اگر دیگر محکمے بھی مرکز کو منتقل کردئے گئے؟اس الزام
کا آپ کیا جواب دیتے ہیں؟“
ایک دوسرے خط میںمولانا لکھتے ہےں:” ریاستی حکومت بار بار یہ شکایت کررہی
ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو محکمہ ڈاک و تار میں بھرتی نہیں کیا جارہا ، صرف
غیر مسلموںکو ملازمتیں دی جا رہی ہیں © ©“ ایک خط کے اختتام پر مولانا
تحریر فرماتے ہیں، ” اگر مرکز کو محکمہ منتقل کئے جانے کا یہ نتیجہ ہے تو
کشمیر ی کیا یقین کریں گے کہ ان کا مستقبل ہند کے ساتھ محفوظ ہے۔“
یہ صورت کشمیر کے الحاق کے فوراً بعد تھی اور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔ایسی
صورت میں اگر واقعی کشمیر کی نئی نسل خود کو ہندستان سے وابستہ محسوس نہیں
کرتی اور کسی ذہنی اسیری میں گرفتار ہے تو اس کے لئے ذمہ خودوہ ہے یا کوئی
اور؟ محترم کالم نویس نے اس سچائی سے صرف نظر فرمایا۔لیکن ہمارا مشاہدہ یہ
ہے اس تکلیف دہ صورتحال کے باوجود کشمیری نوجوان قومی زندگی میں شمولیت کے
خواہاں ہیں۔ان پرکسی خام خیالی کا اسیر ہونے اور کابک میں دبکے ہوئے کبوتر
کی پھبتی بڑی زیادتی ہے۔ہمارے موقف کی تائید میںڈاکٹر شاہ فیصل کی مثال پیش
کی جاسکتی ہے جنہوںنے 2009ءمیں آئی اے ایس ٹاپ کیاتھا اور اب پلوامہ میں
کلکٹر کے منصب پر فائز ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ دہشت گردی میں ان کے
والد کا عین اس وقت قتل ہوگیا تھا جب وہ مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھنے
والے تھے۔ایک تازہ مثال آل راﺅنڈرکرکٹرپرویز رسول کی ہے ۔ اس نوجوان کی غیر
معمولی صلاحیتوں کے اعتراف کے باوجود قومی ٹیم میں موقع نہیں دیا گیا۔ دیا
جاتا تو اس کا پیغام دو ر تک جاتا ۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ہونہار کشمیری
نوجوانوں کے ساتھ، جو خون خرابے سے دورباعزت اور پرامن زندگی گزارنا چاہتے
ہیں،بیرون کشمیر ہمارے حکام کا رویہ کیا ہے؟ اس کی مثال فضائیہ انجنیر
عمران کرمانی کی ہے، جس کو عین اس وقت دہلی پولیس نے دہشت گردی کے جھوٹے
کیس میںجیل پہنچا دیا تھا جب وہ ایک اچھی سروس جائن کرنے والا تھا۔ اسے
ساڑھے چار سال بعد عدالت نے بے قصور پایا اور بری کردیا مگر اس کا کیریر
برباد ہو گیا۔ ایسی مثالیں بھی ہیں جب کشمیری طلباءکو بیرون کشمیر کالجوں
میں داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا۔ اگر کہیں مل بھی گیا تو وہ جمہوری
ہندستان میں خود کو محفوظ نہیںپاتے ۔ان کے لئے روزگار پانا اور رہنے کے لئے
جگہ پانا تقریباً ناممکن ہے۔ جب ہمارا رویہ یہ ہے تو یہ نوجوان کیا سمجھیں؟
اگر وہ خود کو ہند سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں تو قصور وار کون ہے؟
ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد ایک فطری چیز ہے اور ہندستان جیسے جمہوری ملک
میں اس حق سے عوام کو محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیریوں کی صدائے احتجاج کا
جواب جس طرح دیا جاتا ہے اور جس طرح جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی
پامالی ہوتی ہے اس پر تو خود نائر صاحب بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ موجودہ
صورتحال کے لئے کشمیرکی نئی نسل کو مورد الزام ٹھہرایا جانا اور وہ بھی
کلدیپ نائرکی قلم سے بڑا ہی تکلیف دہ ہے۔ یہ بات اگرترن وجے، بلبیر پنج یا
پروین سوامی نے لکھی ہوتی تو ملال نہ ہوتا۔
نائر صاحب نے اپنے کالم میں دو اور باتیں تحریر فرمائیں جوہمارے علم کی حد
تک قطعی خلاف واقعہ ہیں۔ ان کے بقول افضل گرو حملہ کرنے والوں میں شامل
تھاحالانکہ اس پر سازش اور حملہ آوروںسے معاونت کا الزام تھا اور اسی کی اس
کو سزا دی گئی۔ دوسری بات یہ لکھی ہے:’ پہلا شک پاکستان کی طرف گیااور یہ
شک سچ ثابت ہوا، کیوںکی جو تین دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے وہ
پاکستانی تھے۔افضل گرو کشمیر ی تھا۔ جس سے ظاہر ہے کہ جب دہشت گردی کا
معاملہ ہو تو وہی ’پاکستان-کشمیر مرکب‘ ہوتا ہے۔“یہ بیان اس لئے صحیح نہیں
استغاثہ کے مطابق حملہ آور پانچ تھے اور پانچوں موقع پر مارے گئے۔ مقدمے
میں چار افراد، افضل گرو، ایس اے آر گیلانی ، شوکت حسین اور اس کی بیوی
نوجوت سندھو عرف افشاں کو ملزم بنایا گیا۔اگر تین حملہ آوراور ہوتے تو ان
کا نام بھی مفرور ملزمان کے طور پر ایف آئی آر میں شامل ہوتا ۔اگر وہ فرار
ہوکر پاکستان بھاگ گئے تھے تو پاکستان سے ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی
ہوتا۔جو نہیں ہوا۔ حملہ آور ایک سفید امبسڈر کار میں آئے تھے جس پر وزارت
داخلہ کا اسٹیکر لگا ہوا تھا۔ ایک کارمیں۸ یا۹ افراد نہیں آ سکتے ۔ اگر
کوئی دوسری گاڑی ہوتی تو اس کا کہیں تو ذکر آتا اور وہ برامد بھی کی
جاتی۔اس لئے یہ مفروضہ درست نہیںافضل گرو اور تین دیگر حملہ آور فرار ہوگئے
تھے۔ اس کے باوجود اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ اس گھناﺅنی سازش میں
پاکستانی سرکاری یا غیر سرکاری عناصر ملوّث تھے مگر ہماری ایجنسیاں اس کا
کوئی پختہ ثبوت ہنوز فراہم نہیں کرسکیں۔ عدالت عالیہ نے افضل گرو پر کسی
بیرونی دہشت گرد گروہ کا فرد ہونے کا الزام مسترد کردیا تھا۔ چنانچہ گنجائش
اس شک کی بھی نکل آئی کہ یہ حملہ بھی اسی طرح کی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے
جس طرح کی سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملے میں ہوئی۔ اس میں بھی ابتدا میں یہی
کہا گیا تھا کہ یہ بیرونی سازش ہے۔ مگر بعد میں حقیقت کچھ اور سامنے آئی۔
بیشک پاکستان نے ایک مکروہ پالیسی کے تحت ، جو جنرل ضیاءالحق کے دورمیں
بنی، کشمیر کی سیاسی تحریک کو خونی تحریک میں تبدیل کردیا، جس کی بدولت
کشمیریوں کی مصیبتیں اور بڑھےں۔ یہ سبق پاکستان نے امریکا سے سیکھا تھا جس
نے افغانستان میں ایسی ہی تحریک چلاکر روسیوںکو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔
مگرسوال یہ ہے کہ یہ وہی کشمیری توہیں جو سنہ1948ءمیں پاکستانی قبائلیوں کے
مقابلے میں ہندستانی افواج کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے اس قدر برگشتہ ہونے اور
پاکستان کے دام میں پھنس کر بقول نائر صاحب ’کشمیر-پاکستان دہشت گرد مرکب
‘ترتیب پانے کے اسباب کی پس پشت کون سے عوامل کارفرما رہے؟ مولانا آزاد کے
خطوط میں اس کا جواب موجودہے۔ اس کے لئے مرکزی سرکار کے کارپردازوں کی
کوتاہ نظری اور مسلم کش متعصبانہ پالیسیاں ذمہ دار ہیں اور یہ بات نائر
صاحب سے پوشیدہ نہیں۔
اس کے باوجود گاندھی جی کے دیش میں نہ تو کسی پرتشدد تحریک کے لئے کوئی جگہ
ہونی چاہئے نہ کسی تحریک کو کچلنے کے لئے گولی لاٹھی کا سہارا لیا جانا
چاہئے۔سرکاری یا غیر سرکاری تشدد مسئلہ کا حل نہیں۔ مسئلہ کا حل کشمیری
مسلمانوں کے تئیں مرکز کی پالیسی میں تبدیلی اورشکستہ اعتماد کی بحالی میں
پوشیدہ ہے۔ یہ بات نائر صاحب نے بھی زوردیکر کہی ہے کہ افضل گرو کو سزا
دینے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ درست نہیں تھا۔ متعدد دانشوروں کی
رائے ہے کہ سزائے موت کو موقوف رکھا جانا کشمیر میں جاری امن عمل میں معاون
ہوتا۔ را RAWکے سابق ڈائرکٹر اے ایس دولت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر
باجپئی جی کی سرکار ہوتی تویہ پھانسی نہ دی جاتی۔ افضل کو پھانسی دیدینے سے
چاہے کچھ لوگوں کو کلیجے ٹھنڈے ہوگئے ہوں،مگر امن اور اعتماد کی بحالی کے
عمل پر اس کا منفی اثر پڑا ہے جس کے ازالے کی کوئی تدبیر نظرنہیں آرہی ہے۔
الٹی خبر یہ ہے کہ کشمیر پویس ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے تاکہ پولیس کو وہ
تمام اختیارات حاصل ہوں جو AFSPAکے تحت مسلح افواج کو حاصل ہیں اور جن کو
ہٹانے کے خود وزیر اعلا بھی خواہاں بتائے جاتے ہیں۔اگر کلدیپ نائر جیسے
انسانیت دوست دیدہ ور بھی ایسے نازک موقع پر کشمیریوں کو ہی مورد الزام
ٹھہراتے ہیں تو یہ یقینا ایک تکلیف دہ صورت ہے۔ (ختم) |