عوامی نیشنل پارٹی کے سنیئر نائب
صدر سینیٹر حاجی عدیل اپنی بزرگی و طویل سیا سی کردار کی وجہ سے کافی
سنجیدہ تصورکئے جاتے ہیں ،اے این پی کے اندرونی حلقوں کی نجی محافل میں بھی
حاجی عدیل کی زائد العمری کے باوجود ، باعزم حوصلوں پر کم ہی مخالفت کا
اظہار کیا جاتا ہے،بزرگ رہنماﺅں کو اے این پی کے موثر حلقے، بیگم نسیم ولی
خان کی طرح گھر بیٹھا دیا کرتے ہیں ، تاہم ان پر" نظر کرم "کی وجہ ان کی
بردباری ہے ۔،گزشتہ دنوں نجی نیوز چینل کو دئےے گئے خصوصی انٹرویو
میںعسکریت پسندوں کیجانب سے مولانا فضل الرحمن ، نواز شریف اور منور حسن کو
ثالث مقرر کرنے کی تجویزپر اعتراض کیاکہ ،تو پھر طالبان کا ضمانتی کون بنے
گا ۔؟۔ محترم نہ جانے کیوںصرف دس دن میں ہی بھول گئے کہ انکی جماعت عسکرےت
پسندوں سے مذاکرات کےلئے بے کل ہوئی جارہی ہے ، اگر عسکریت پسند اے این پی
کی امریکہ نواز پالیسوں کی بنا ءپر ، ان پر اعتماد کے بجائے اپوزیشن پر
اعتماد کررہے ہیں تو انھیں اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اچھی رائے کا اظہار
کرنا چاہیے ، لیکن سینیٹر صاحب کی جانب سے اپنی ہی پارٹی کی اے پی سی کے
اعلامیہ کو نظر انداز کرنا خود اے این پی کے حلقوں میں باعث حیرت بنا ہوا
ہے ۔ حاجی عدیل خاموش رہتے رہتے اچانک سیاست میں گرما گرمی کا ماحول پیدا
کردیتے ہیں ، جیسے ، محترم یہ بھی بھول گئے کہ طویل عرصہ کے بعد ایم کیو
ایم اور اے این پی میں تلخ جملوں ، بیانات کا سلسلہ موقوف ہوا اور انکے
قائد اسفندیار ولی خان اور ایم کیو ایم کے قائد الظاف حسین کے درمیان ٹیلی
فونک رابطے کے بعد ، کراچی کی سیاسی حرارت میں کمی واقع ہوئی ہے اور عوام
نے سکون کا سانس لینا شروع کیا کہ کم از کم انھیں اے این پی یا ایم کیو ایم
کی وجہ سے اپنے ،یا دیگر علاقوں میں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ،
اس سلسلے میں اے این پی سندھ کی قیادت نے نائن زیرو میں ایم کیو ایم کے
مقتول رہنما ءمنظرامام کے جنازے اور سوئم میں شرکت کی ، ویسے بھی اے این پی
کے مرکزی رہنماﺅں کے ایم کیو ایم کے رہنماﺅں کےساتھ شروع سے اچھے دوستانہ
تعلقات ہیں۔ لیکن شائد یہاں بھی محترم مشر جذبات میں بہہ گئے اور ان کا یہ
بیان بھی موجودہ حالات کے تناظر میں حیران کن ہوا کہ حاجی عدیل جیسی سنجیدہ
شخصیت سے فی الوقت ایسے بیان کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ، انھوں نے نجی
نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ، سیاسی ماحول میں گرمی پیدا کرنے کی کوشش
کرتے ہوئے کہا کہ "بہاول پور جنوبی پنجاب سے متعلق پیش کئے گئے بل کے
1پیراگراف سے اختلاف ہے ،بل کے پیراگراف کے تحت کسی بھی صوبے کی حدود کوکم
یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔یہ بہت خطرناک بات ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ ، وہ
اس پیراگراف کو نہیں مانتے ،اگر پیراگراف کو مان لیا جائے تو سندھ میں ایم
کیو ایم کراچی ، حیدرآباد کو الگ کردےگی۔"حاجی عدیل کا مذکورہ بیان نہاےت
حیران کن اس تناظر میں ہے کہ جنوبی پنجاب، بہاولپور ، میانوالی کا ایشو ،
پنجاب میں ہے ، دوئم ، خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبہ کی تحریک چل رہی ہے ،
تو بھلا ایم کیو ایم اور اے این پی میں جو سیز فائر ہوا ہے ایسے متاثر کرنے
کی کیا ضرورت پیش آئی جبکہ موجودہ صورتحال میں جب اے این پی کی قیادت اپنے
اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام سیاسی جماعتوں سے دوستی کی کوشش کر رہی ہے
، ایک بل کے مندرجات پر متنازع بیان ، خود اے این پی کے حلقوں میں پسند
نہیں کیا گیا ، کیونکہ خود حاجی عدیل اور فاروق ستار کے درمیان مذاکرات کے
بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں طے کیا گیا تھا کہ باہمی اختلافات مستقبل
میںکم ہونگے، اس سے قبل بھی اگست 2012میں پشاور یونیورسٹی کے اسکوائش
کمپلیکس میں ایک تقریب میں خطاب کے دوران انھوں نے سندھ کے" راجہ داہر" کو
ہیرو اور "محمد بن قاسم" اور محمود غزنوی کو " دشمن" قرار دےتے ہوئے کہا
تھا کہ وہ سرکاری فنڈ سے جی ٹی روڈ پرراجہ داہر کی شاندار یادگار تعمیر
کروائیں گے اور نئی نسل کو راجہ داہر جیسے اصل قومی ہیرو سے روشناس کرانے
کی جدوجہد جاری رکھیں گے اور محمد بن قاسم اور محمود غزنوی جیسے حملہ آوروں
کو قومی دشمن قرار دلوئیں گے۔ ، اسی طرح جب آئینی ترمیم کے وقت مارچ 2012
میںانھوں نے پاکستان کے نام سے" اسلامی "اور صدر و وزیر اعظم کے مسلمان
ہونے کی شرط ختم کرنے کامطالبہ کیا ، کچھ ایسی طرح ، جمعیت علما اسلام ف سے
ان کے شدید نظریاتی اختلافات ہیں ، لیکن خیبر پختونخوا میں اپنی گرتی ساکھ
کو بچانے کےلئے ، انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی بھی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ مولانا
فضل الرحمن خیبر پختونخوا، کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے بیان کی سختی سے
تردید کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے نظریاتی اختلافات اس انتخابی اتحاد کی
اجازت نہیں دیتے ، تاہم سیاست میں حروف آخر نہیں ہوتا، جب جے یو آئی ،
دوبارہ مسلم لیگ کے قریب آسکتی تو اے این پی کے قریب آنے میں بھی دیر نہیں
لگے گی تاہم ،اے این پی کے سنجیدہ حلقوں کو (اگر ہیں) کوشش کرنی چاہیے کہ
وقت و ماحول کے مطابق اپنے عہدےداروں کو بیانات ، خاص طورکراچی جیسے حساس
معاملات میں انتہائی بردباری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔کیونکہ آج
تک ایسا نہیں ہوا کہ کراچی کے معاملات پر ، خاص طور حاجی عدیل نے کبھی
پختون علاقوں کا دورہ کیا ہو ، یا پھر انکے مرکزی رہنماﺅں نے 2007کے بعد
کسی بھی کارکن ، عہدےدار کی جنازے میں شرکت کرنا تو دور کی بات ، کبھی غلطی
سے بھی سوگوران کے گھر تعزیت کےلئے آئے ہوں ۔ کراچی کے مقامی شہیدپختونوں
کے نام پر پر اے این پی اپنی، لسانی سیاست کو ہمیشہ زندہ کرنے کی کوشش کرتی
رہی ہے لیکن کبھی بھی کسی بھی اے این پی کی سینیٹر ، قومی اسمبلی کے رکن ،
یا اے این پی کے کسی بھی قومی وزیر نے پختون آبادیوں کا دورہ تک کرنے کی
ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ اب تو یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ کراچی کے اے این پی
اسمبلی ممبران کو تلاش کرنےکی تگ ودو کیجاتی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی
میں رہنے والے ، اے این پی کے ان پڑھ صوبائی عہدےدار کو جب خیبر پختونخوا
سے سینیٹر منتخب کیا گیا تو کراچی میں اے این پی کے کارکنوں نے بڑا جشن
منایا تھا ، لیکن ایک سال مکمل ہوچکا ہے کہ سینیٹر موصوف ، کراچی میں پائے
ہی نہیں جاتے ، یا تو دوبئی میں اپنے کباڑی کے کاروبار کو چمکا رہے ہیں یا
پھر زیادہ تر اسلام آباد میںہوتے ہیں ، جہاں ایک پختون کالم نویس کے مطابق
، اسلام آباد میں مردان ہاوس بنا کر ، وہیں کراچی آباد کرلیا ہے۔صرف اتنی
گذارش کرنا ہے کہ سیاست میں ریٹائرڈ ہونے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، اس لئے
جب تک زندگی وفا کرے ، اُس وقت تک انسانیت کی فلاح و بہبود کےلئے ، شام کو
بھی"ہوش"میں ہونا ضروری ہے ، کیونکہ خدا کی عدالت میں بھی جواب دینا ہے ،۔متنازع
بیانات دینے کے بعد ، اسکے مضمرات کا ادرک بھی کرلینا چاہیے۔کم از کم سینئر
سیاستدانوں سے سنجیدگی کی توقع رکھی جاتی ہے- |