جمہوری دور میں مذا کرات کی
اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا کیونکہ مذاکرات
جمہوریت کا حسن بھی ہیں اور جمہوری روایات کو بچانے اور زندہ رکھنے کا ایک
شاندار راستہ بھی ۔جمہوری معاشروں میں اختلافِ رائے ایک عام سی بات
ہے۔اپوزیشن اور ھکومت میں اختلافِ رائے ہی دونوں کے وجود کی ضمانت ہوتا ہے
۔اگر اپوزیشن حکومتی موقف کی حامی ہوجائے یا ذاتی مفادات کی خاطر اس سے
سمجھوتہ کرکے فرینڈ لی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے لگ جائے تو پھر اس کا
وجود،وقار اوراحترام خطرے میں پڑ جاتے ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کایک جا ہو
جانا عوام کی بد قسمتی تصور کی جا تی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن
ہمیشہ حکومت کے اقدامات کو چیلنج کرتی رہتی ہے اور اس کے عزائم کو بے نقاب
کر کے عوام کو حقا ئق سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ بعض اوقات کچھ اچھے کام بھی
اپوزیشن کی تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں کیونکہ اس کے پیچھے حکومتی بدنیتی
کار فرما ہو تی ہے۔حکومت کی ایسی ہی بد نیتی کو بے نقاب کرنا اپوزیشن کا فر
ضِ اولین ہو تا ہے اور اسے یہ فرض ہر حال میں ادا کرنا ہو تا ہے۔جمہوری
روایات کو جاری و ساری رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومتی اقدامات، فیصلوں
اور ترجیحات کو تلوار کی دھار پر رکھا جائے تاکہ حکومت عوام دشمن فیصلے
کرنے سے اجتناب کرتی رہے۔دنیا کے سارے جمہوریت نواز حلقے اس طر یقہ کار پر
متفق ہیں اور اپنے اپنے ممالک میں اس کا اظہار کرتے ہیں ۔اب اگر کوئی لمحہ
ایسا آجائے کہ حکومت اور اپوزیشن میں کسی مسئلے پر کوئی ڈیڈ لاک یا تنازعہ
کھڑا ہو جائے تو مذاکرات سے ہی اس مسئلے کے حل کی راہ نکالنے کی کوشش کی
جاتی ہے۔اگراس وقت حکومت اور اپو زیشن اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹ جائیں
تو پھر کوئی تیسری قوت میدان میں کود پڑتی ہے اور یوں جمہوریت کی بساط لپیٹ
دی جاتی ہے۔مذاکرات میں دونوں فریق اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں اور جس کا
موقف زیادہ مضبوط ،مدلل اور با وزن ہوتا ہے اسے مان کر ہنگامہ آرائی سے
اجتناب کیا جا تا ہے ۔عالمی سیاست میں مذا کرات کی اہمیت سے ہر شخص بخوبی
آگاہ ہے لہذا میں اس پر اظہارِ خیال نہیں کروں گا۔میں پاکستان میں پیش آنے
والے چند اہم واقعات کی روشنی میں مذا کرات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی
جسارت کروں گاکیونکہ سیاستدانوں کے پاس مذا کرات کی قوت ہی ان کا سب سے
مضبوط ہتھیار ہو تی ہے ۔۔۔
اگرہم 1977 کی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا جائزہ لیں تو اس میں شک وشبہ
کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عوام کی ایک اغلب اکثریت اس تحریک میں شامل
تھی۔اس تحریک کو فوج اور امریکہ کی اشیر واد حاصل تھی اس پر کوئی دو رائے
نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام نے اس تحریک میں بھر پور حصہ لیا
تھا۔انتخابی دھاندلی ایک بہانہ تھا جس کی آڑ میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت
کے خاتمے کا منصوبنایا گیا تھا۔ذولفقار علی بھٹو نے 1977 کے انتخابات بڑی
واضح برتری کے ساتھ جیتے تھے لیکن اپوزیشن نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار
کر دیا تھا کیونکہ مقصدذولفقار علی بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنا تھا اور اس
کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ان انتخابات کو متنازع بنا دیا جاتا ۔ پاکستان قومی
اتحاد نے دھاندلی کے نام پر تحریک کا آغا ز کردیا جو دن بدن متشدد ہو تی
چلی گئی۔اپوزیشن راہنماﺅں نے ذولفقار علی بھٹو کوہالہ کے پل پر پھا نسی
دینے کا اعلان کر دیا۔آج کا نوجوان اس وقت کے شدت انگیز جذبوں کو سمجھنے سے
قاصر ہے کیونکہ ان جذبات کو بیان کرنے سے بھی اس تحریک کی شدت کوسمجھایا
نہیں جا سکتا ۔قومی اتحاد کسی بھی صورت میں ذولفقار علی بھٹو کی جان بخشی
کرنے کےلئے تیار نہیں تھا۔اپوزیشن نے بھٹو مخالف جذبات کو اس حد تک بھڑکایا
تھا کہ وہ تحریک گھراﺅ جلاﺅ کی تحریک میں بدل گئی ۔ذولفقار علی بھٹو کی ذات
پر ایسے رکیک حملے کئے گئے جو کسی بھی لحاظ سے سیاسی دائرے میں نہیں آتے
تھے۔ایک جنگ تھی جو دو طبقوں کے درمیان تھی اور اس میں ایک طبقے کی ہار
یقینی تھی ۔ذولفقار علی بھٹو اب بھی پا کستان کے مقبول ترین راہنما تھے
لیکن یہ کریڈٹ اپوزیشن کو دیا جانا ضروری ہے کہ اس نے اتنے طلسماتی اور سحر
انگیز راہنما کے خلاف عوام کو بر انگیختہ کر دیا۔دونوں جماعتیں ایسی انتہاﺅں
پر کھڑی تھیں جہاں پر ان کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کے سارے امکانات
معدوم ہو چکے تھے۔پاکستان قومی اتحاد کے جنرل سیکرٹری اور تحریک کے انتہائی
موثر راہنما رفیق باجوہ نے اس پر تشدد ماحول میں امن کی ممکنہ راہ کی تلاش
کی خاطر حکومت سے ربطہ کرنے کی کوشش کی تو اسے قومی اتحادسے اٹھا کر باہر
پھینک دیا گیااور اس کے بعد انھیں انتہائی رسوا کن طریقے سے سےاست سے ہمیشہ
ہمیشہ کےلئے بے دخل کر دیا گیاجو یہ ثابت کرنے کےلئے کافی تھا کہ اپوزیشن
صرف حکومت کی برخاستگی چاہتی ہے۔۔۔
ذولفقار علی بھٹو اپوزیشن کے عزائم اور عالمی سازشوں سے بخوبی آگاہ تھے
لہذا انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ا پنانے کا فیصلہ کیا ۔ذولفقار
علی بھٹو کے بہت سے قریبی دوست مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے مخالف تھے کیونکہ
سیاست پر ان کی نظر ذولفقار علی بھٹو جتنی گہری اور وسیع نہیں تھی۔پاکستا ن
قومی اتحاد نے اپنی حکومت مخالف تحریک میں صرف ذولفقار علی بھٹو کی ذات کو
نشانہ بنایا تھا کیونکہ انھیں علم تھا کہ پی پی پی صرف ذولفقار علی بھٹو کی
ذات کا ہی نام ہے لہذا ذولفقار علی بھٹو کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد پی پی
پی دفا عی پوزیشن میں چلی جائےگی اور پھر ہماری جیت کو کوئی روک نہیں سکے
گا ۔ پاکستان قومی اتحاد میں بھی مذاکرات کے نام پر سخت اختلافات پائے جاتے
تھے کیونکہ ایک گروہ کو جس کی قیادت ائر مارشل اصغر خان کر رہے تھے کو سخت
خد شہ تھا کہ مذاکرات سے ذولفقار علی بھٹو زندہ بچ کر نکل جائےگا لہذا وہ
مذاکرات کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے ۔وہ اسی تحریک کے زور سے
اقتدار پر قابض ہونا چاہتے تھے کیونکہ اس سے بہتر موقع انھیں شائد دوبارہ
نہ ملتا ۔لیکن دوسرے گروہ نے ان کی رائے کو غیر اہم سمجھ کر مذاکرات کی میز
پر بیٹھنے کا فیصلہ کیاکیونکہ جمہوری معاشروں کی پہچان مذاکرات ہی ہوا کرتے
ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ پاکستان کے عوام ان
سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لہذا انھیں انتخابات میں شکست دینا اپوزیشن کے بس
میں نہیں ہو گا ۔ذولفقار علی بھٹو نے اپوزیشن کے سارے مطالبات مان کر
دوبارہ انتخابات کی راہ ہموار کر دی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ انتخا بی
دھاندلی کے الزامات انھیں بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں حالانکہ سچ یہی ہے
کہ اپوزیشن انتخات ہار چکی تھی لیکن اسے تسلیم کرنے سے عاری تھی ۔انانیت کی
ضد تھی جو اپوزیشن کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی تھی اور جسے پاٹنا
اس کے لئے ممکن نہیں تھا ۔چار جولائی 1977 کو پی پی پی اور اپوزیشن کے
درمیان معاہدہ طے پا گیا لیکن اسی شب جنرل ضیالحق نے شب خون مار کر اقتدار
پر قبضہ کر لیا کیونکہ عالمی طاقتیں یہ سمجھ چکی تھیں کہ مذاکرات کی میز پر
انتخابات کے انعقاد کےلئے راضی ہونا اپوزیشن کی ہار ہے کیونکہ انتخابات میں
ذولفقار علی بھٹو کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ادھر جنرل ضیاا لحق نے اقتدار
پر قبضہ کیا اور ادھر وہ ساری جماعتیں جو ذولفقار علی بھٹو سے مذاکرات کر
رہی تھیں جنرل ضیا ا لحق کی مارشل لائی حکومت کا حصہ بن گئیں جو یہ ثا بت
کرنے کےلئے کافی ہے کہ اپوزیشن ،فوج اور عالمی طاقتیں ذولفقار علی بھٹو کو
ہٹانے کے لئے متحد تھیں۔۔
ابھی تو کل کی بات ہے کہ پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی ۔اس نے
اپنی طاقت اور رعب و دبدبے سے اپوزیشن کو کچل کر رکھ دیا ہوا تھا ۔ اپوزیشن
کی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز
شریف کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ جنرل پرویز مشرف کو
علم تھا کے ان کی آمد سے اس کی بنائی گئی لنکا جل کر راکھ ہو جائےگی۔میاں
محمد نواز شریف کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ وہ ایک دس سالہ معاہدے
کے تحت ملک سے جلا وطن ہوئے تھے لہذا ان کو ملک میں داخلے سے روکنا اس
معاہدے کی رو سے ضروری تھا لیکن اس کا پی پی پی کی چیر پرسن محترمہ بے نظیر
بھٹورپر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔یہ بات بالکل واضح اور صاف تھی کہ جنرل پرویز
مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد سے اپنا اقتدار ہوا میں تحلیل ہوتا ہوا
محسوس ہو رہا تھا لہذا انھیں بھی واپسی کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔2008
کے انتخابات سر پر تھے اور پی پی پی ان انتخابا ت میں بھر پور حصہ لینا
چاہتی تھی جس کےلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اشد ضروری تھی لیکن
جنرل پرویز مشرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا خطرہ مول لینے کےلئے
تیار نہیں تھا یہی وہ مقام تھا جہاں جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر
بھٹو کے درمیان مذا کرات کا ڈول ڈالا گیا۔ان مذاکرات کے دو دور ابوظبی میں
ہوئے جن میں سارے امور طے پائے گئے۔اسی معاہدے کی رو سے جنرل پرویز مشرف نے
این آر او جاری کیا اور یوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کو ممکن
بنایا گیا۔ یہ وہی این آر او ہے جس پر سپریم کورٹ اور پی پی پی کی حکومت کے
درمیان چار سال تک عدالتی جنگ جاری رہی اور جس کی وجہ سے سید یوسف رضا
گیلانی کو وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے ۔اس معاہدے میں سب سے بڑی رکاوٹ
یہ پیدا ہو گئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات سے قبل پاکستان آنا چاہتی
تھیں جو جنرل پرویز مشرف کو قبول نہیں تھا۔اس کی خواہش تھی کہ محترمہ بے
نظیر بھٹو انتخابات کے بعد پاکستان آئیں تا کہ جنرل پرویز مشرف کو انتخابات
جیتنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز
مشرف کی یہ بات ماننے سے صا ف انکار کر دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے طے
شدہ معاہدے کو پسِ پشت ڈال کر وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا اور پھر وہ کچھ
ہوا جو تاریخِ عا لم کا سیاہ ترین باب بن گیا ۔ایک نہتی لڑکی کو اقتدار کی
خاطر سرِ عام قتل کر دیا گیا لیکن جس اقتدار کو بچانے کی خاطر یہ انتہائی
قدم اٹھا یا گیا تھا وہ اقتدار پھر بھی بچ نہ پایا۔۔۔ |