ملک میں کہیں بھی دہشت گردی کا
کوئی واقعہ ٔ ہو اس کے فوراً بعد ایک ہی قسم کی باتیں فوراً سننے میں آتی
ہیں۔ میڈیا (ذرائع ابلاغ) خاص طور پر ٹی وی چیانلز اپنے ذرائع کے مطابق شک
کی سوئی ’’انڈین مجاہدین‘‘ پر ٹھیرادیتے ہیں۔ ٹی وی چیانلز دہشت گردی کے
ملزموں کا تعلق پاکستانی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ دیتے تھے۔ لیکن اب انڈین
مجاہدین کا نام آتا ہے۔ جس شہر میں دہشت گردی ہوتی ہو اس شہر کے مسلمانوں
پر خوف و ہراس طاری ہوجاتا ہے کہ پولیس نہ جانے کب کسی کو بھی مبینہ دہشت
گرد قرار دے کر بغیر وارنٹ پوچھ کچھ اور تفتیش کے بہانے ملزم قرار دے ۔
نوجوان کو اس کے گھر، بازار، دفتر، کالج یا کسی اور بھی جگہ اٹھالے جائے
گھر والوں کو یا تو سرے سے خبر ہی نہیں دی اگر خبر دی بھی جائے تو یہ نہیں
بتایا جاتا ہے کہ نوجوان کہا ہے؟ مہینوں خاندان والوں کو اپنے بندے کی خبر
ہی نہیں ملتی ہے۔ دہشت گردی تو حیدرآباد میں ہوتی ہے لیکن چھاپے اور
گرفتاریاں مہاراشٹرا، یو پی (خاص طور پر اعظم گڑھ) بہار (خاص طور پر
دربھنگہ) اور کرناتک میں بھی ہورہی ہیں۔
انڈین مجاہدین دراصل ’’القاعدہ‘‘ کا فرضی و تصوراتی ہندوستانی ایڈیشن ہے۔
اس کو ہم فرضی اور تصوراتی اس وجہ سے کہہ رہے ہیں کہ دراصل اس کا کوئی وجود
نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’القاعدہ‘‘ کا برائے نام وجود ہے تو ضرور لیکن جس
قدر طاقتور اور فعال اس کو بتایا جاتا ہے ویسی کوئی بات اب نہیں ہے کسی
زمانے میں بلکہ جہاد افغانستان کے وقت القاعدہ بے شک طاقتور تھی اور اس کو
طاقتور اور وسیع ذرائع اور وسائل کا مالک بھی امریکہ نے ہی بنایا تھا لیکن
اب امریکہ ’’القاعدہ‘‘ کو اپنا فرضی دشمن اور بیشتر مسلم ممالک میں دہشت
گردی کا ذمہ دار بتاتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے
اسرائیل کے منصوبے کے مطابق بلکہ سازش کے تحت مسلمانوں کو دہشت گردی کا ذمہ
دار قرار دینے کے لیے ’’انڈین مجاہدین‘‘ کی تخلیق کی گئی ہے۔
یہ آج تک نہیں بتایا گیا کہ انڈین مجاہدین کے خفیہ دفاتر یا صدر مقام کہاں
ہے؟ اس کے عہدیدار کون ہیں؟ کہاں ہیں؟ خفیہ تنظیموں کے بارے میں کچھ نہ کچھ
پتہ چل ہی جاتا ہے پھر ہماری انٹلیجنس ایجنسیاں جو کسی بات کے واقع ہونے کے
فوراً بعد سازش کا سارا حال گھنٹوں میں معلوم کرلیتی ہیں سرغنہ یا ’’ماسٹر
مائنڈ‘‘ کا بھی پتہ چل جاتا ہے (لیکن عدالت میں ثابت کچھ نہیں کرپاتی ہیں)
اسی طرح ہمارے ٹی وی چیانلز تو ہماری خفیہ ایجنسیوں سے بھی تیز ہوتے ہیں ۔
جادو کی چھڑی ہلاکر وہ سب کچھ معلوم کرکے اپنے ناظرین کو بتادیتے ہیں لیکن
وہ بھی آج تک انڈین مجاہدین کے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں کچھ بتانے سے
قاصر ہیں حالانکہ دہشت گردی میں انڈین مجاہدین کے کردار اور اس کے کارکنوں
کے بارے میں ساری تفصیلات کا پتہ حیرت انگیز تیزی سے معلوم کرلیتے ہیں لیکن
انڈین مجاہدین کا وجود انہوں نے آج تک ثابت نہیں کیا۔
ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انڈین مجاہدین کی حقیقت یا وجود کے بارے میں
کوئی سوال حزب اقتدار یا حزب اختلاف سے وابستہ مسلمانوں کے منتخبہ نمائندوں
نے نہ وزیر داخلہ یا وزارت داخلہ کے عہدیداروں، پولیس اور انٹلیجنس کے
افسران سے کیا اور نہ ہی یہ سوال کبھی کسی اسمبلی یا پارلیمان میں اٹھایا۔
یوں بھی جب بھی دہشت گردی کی بات ہوتی ہے تو مسلم قائدین خود کو الگ ہی
رکھا کرتے تھے لیکن اب ہواؤں کے رخ بدل رہے ہیں لیکن انڈین مجاہدین پر کوئی
سوال شائد ہی کسی نے کیا ہو۔
بھلا ہو جسٹس کاٹجو کہ انہوں نے بہ کمال بے باکی و حق گئی وہ بات کہہ دی جس
کو ہندوتوا کے علمبردار سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔ سی سی این، آئی بی این
(CCN-IBN)ٹی چینل پر کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جسٹس مارکنڈے کاٹجو (جو
پریس کونسل آف انڈیا کے سربراہ بھی ہیں) نے انڈین مجاہدین کا ذکر کرتے ہوئے
کہا ہے کہ انڈین مجاہدین زرخرید اور شرپسند صحافیوں کی تخلیق ہے۔ انڈین
مجاہدین نامی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ان زرخرید اور شرپسند
صحافیوں کا اصل مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جائے اور
اسی بہانے ہندوستانی مسلمانوں کو بدنام کرکے ان کے خلاف ایک گھناؤنی مہم
چلائی جاسکے۔ جسٹس کاٹجو نے اس بات پر شدید تنقید کی کہ جب کہیں بم دھماکے
ہوتے ہیں ٹی وی چیانلز مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور مسلمانوں کو موردِ
الزام ٹھہرانے کے لیے فوراً ہی انڈین مجاہدین، حزب المجاہدین، جیش محمد،
لشکر طیبہ کا نام لیا جاتا ہے کہ حملے کے ذمہ دار مسلمان ہی ہیں اور
مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جائے تاکہ ان کو وطن دشمن غدار ثابت کیا
جائے۔ انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ 90فیصد مسلمان امن پسند ہیں اور ان کا
دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مذموم حرکت مسلمانوں کے لیے ہی نہیں
ملک قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ جسٹس کاٹجو نے بھی وہی سوال کیا جو آپ سب کرتے
رہے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیق شروع کرنے سے قبل ہی آخر کس طرح
اور کیوں کر ٹی وی چیانلز کہہ دیتے ہیں کہ دھماکوں کی ذمہ داری مسلمانوں پر
ہے؟ جسٹس کاٹجو نے کہا کہ زرخرید و بکے ہوئے صحافیوں کی شرانگیزی ہے جو
مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر ملک کے مفادات پر ضرب لگارہے ہیں۔
جو بات جسٹس کاٹجو نے نہیں کہی وہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ٹی وی چیانلز ہی نہیں
بلکہ اخبارات بھی یہی کام کررہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے
بہانے مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور اس شرمناک مہم میں میڈیا کا
بے دریغ استعمال بھی شامل ہے۔ یوں بھی آزادی کے بعد سے قومی میڈیا پر فرقہ
پرستوں کا غلبہ رہا ہے ۔ فرقہ پرستی پہلے صرف آر ایس ایس اور ہندومہاسبھا
کا شغل تھا اب سنگھ پریوار اور اس کی ہم خیال تنظیمیں (شیوسینا وغیرہ) ہیں۔
ہر دہشت گردی کے بعد ہی میڈیا مثل عدالت کے استغاثہ اور حاکم عدالت بن کر
فیصلہ کرتا ہے( اسے میڈیا ٹرائل بھی کہا جاتا ہے)۔ اس تعلق سے عدالت عظمیٰ
(سپریم کورٹ) کے چیف جسٹس التمش کبیر نے قانونی امور سے متعلق ایک کانفرنس
میں میڈیا کی جانب سے مقدمہ چلانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تنقید کرتے
ہوئے کہا کہ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے ملزم کے خلاف نہ صرف بدگمانی پھیلتی ہے
بلکہ عدالتی مقدمہ کے شروع ہونے سے قبل ہی ایک تاثر قائم ہوجاتا ہے حاکم
عدالت بھی اس سے متاثر ہوسکتا ہے ۔ میڈیا ٹرائل سے اور بدگمانی پر مبنی
تحفظ ذہنی کا شکار مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہی ہوجاتا ہے اس طرح انصاف کے
تقاضے پورے نہیں ہوسکتے ہیں۔
میڈیا اور پولیس اور انٹلیجنس اداروں کا رویہ دلسکھ نگر دھماکوں کے بعد بھی
حسب سابق برقرار رہا ہے۔ انڈین مجاہدین لشکر طیبہ کا نام فوراً لے لیا گیا
ہندی اور انگریزی کے قومی چیانلوں کے مقابلے میں تلگو زبان کے ٹی وی چیانلز
اور اخبارات کا رویہ زیادہ جارحانہ تعصب اور شرانگیز ی پر منحصر رہا۔
مسابقت کی دوڑ میں نقصان تو مسلمانوں کا ہوتا ہے۔
واقعہ کے بعد ہی مسلمان نوجوانوں کو صرف شہر میں ہی ہراساں نہیں کیا جارہا
ہے بلکہ حیدرآباد کے علاوہ مہاراشٹرا، بہار اور یوپی کے بعض شہروں میں
مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ۔ پوچھ گچھ کے نام پر ناجائز طور پر
ان کو زیرحراست رکھا جارہا ہے۔ مکہ مسجد اور دوسرے واقعات میں ملوث رہے ان
نوجوانوں کو جن کو عدالت نے بری کردیا ہے جن کو حکومت نے معاوضہ اور اچھے
کردار کا صداقت نامہ دیا ہے ان کو بھی پولیس ہراساں اور گرفتار کررہی ہے۔
تفتیش و تحقیق کا دائرہ کار صرف مسلمانوں تک محدود ہے بہت سارے کام بی جے
پی کی مرضی کے مطابق انجام دئیے جارہے ہیں۔ تفتیش کے لیے (15) ٹیمیں بنائی
تو گئی ہیں اب تک جو کچھ ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے یہ (15)
ٹیمیں صرف مسلمانوں سے تفتیش کریں گی۔
گزشتہ چند ماہ میں وزیر اعظم منموہن سنگھ، وزیر داخلہ اور دیگر قائدین سے
مسلمان قائدین اور جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ صرف مسلمانوں کو دہشت گرد
مان کر ہی تفتیش نہ کی جائے۔ بے گناہوں کو گرفتار کرکے بلکہ غیر قانونی طور
پر زیرحراست رکھ کر ان پر ذہنی و جسمانی اذیتوں کے پہاڑ توڑ کر دھمکیاں دے
کر اعتراف نامے حاصل کرکے جھوٹے مقدمے چلاکر مظالم ڈھانے کی روش ختم کی
جائے ۔ ہندوتوا کے علمبرداروں کو بلا تفتیش و تحقیق بری الذمہ نہیں قرار
دیا جائے۔ میڈیا ٹرائل بند کئے جائیں لیکن حکومت پولیس اور ایجنسیوں کے
روئیے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے گوکہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہر زاویہ
سے تحقیق کی جارہی ہے لیکن تحقیقات کے طریقے اور لیے جانے والے موقف سے
ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ صرف مسلمانوں کے ہی ملوث ہونے کا تاثر
نمایاں ہے کیونکہ مکہ مسجد دھماکوں کے ہندوتوادی ملزم جو جیل میں ہیں ان کو
نظر انداز کرکے مکہ مسجد دھماکوں کے الزام سے بری ہونے والے نوجوانوں کو
نشانہ بنایا جارہا ہے۔ میڈیا کی طرح پولیس کا موقف یہی ہے کہ دلسکھ نگر
دھماکوں کے ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔ نہ صرف حیدرآباد بلکہ سارے ملک میں
مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں
کا رویہ حسب سابق ظالمانہ، جارحانہ اور متعصبانہ ہے ہر تیر کا نشانہ مسلمان
ہے۔ |