آج کی یہ تحریر اصل میں ایک
خوبصورت کتاب کے حوالے سے ہے مگر اس سے پہلے کہ میں اس کتاب اور کتاب کے
مصنف کے بارے میں بات کروں ایک اور بات کرنا بہت ضروری ہے ۔بات یہ ہے کہ
پاگلوں کے اندر بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اسے درست
اور جائز سمجھتے ہیں اور ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر پاگل کو
یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجائے کہ مریض پاگل ہے تو پاگل کا آدھا پاگل پن
ٹھیک ہوجاتاہے لیکن لوگ یک دم پاگل نہیں ہوجاتے ہیں نہ ہی پاگلوں کا فوری
علاج ممکن ہے ان دونوں کاموں میں بہت وقت لگتاہے شروع شروع میں انسان کے
اندر معمولی نوعیت کی ابنارمل سوچیں اور رویے پیدا ہوتے ہیں پھر یہ منفی
سوچیں اور رویے اس کے دل ودماغ پر قبضہ جما لیتے ہیں اور آدمی انکا قیدی
ہوجاتاہے ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے بہت سے لوگوں نے پاگل پن کی چادر
اُوڑھ رکھی ہے مگر انہیں اپنے پاگل پن کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس
حقیقت کو ماننے کیلئے تیار ہیں کہ وہ پاگل پن کا شکار ہوچکے ہیں ۔۔۔پہلے
پہل مجھے بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ پاگل پن دل کے راستے میرے اندر
بھی ڈھیرے ڈال چکاہے تب میں اپنے دل میں نفرت بغض ،حسد ،کینہ ،خود غرضی ،لالچ
اور بے دردی پال لیتاتھا اور اس کے نتیجے میں مایوسیاں میرے گرد گھیر اڈالے
رکھتی تھیں تب بہت سے لوگ مجھے اپنے دشمن لگتے تھے لیکن پھر رب کے کرم سے
یوں ہواکہ میں نے اپنے دشمن اپنے اندر سے تلاش کرلیے تب سے میں پورا پاگل
نہیں نیم پاگل ہوں اور اپنا کالم بعنوان ”پاگل خانہ “لکھتاہوں اس پاگل خانے
میں پاگلوں کا پاگل پن بیان کیاجاتاہے اور یہی اصل پھڈا ہے کہ پاگل یہ
ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ پاگل پن کا شکار ہوچکے ہیں عجیب بات یہ ہے کہ
یہ ابنارمل لوگ اپنے دلوں میں نفرت کینہ بغض حسد لالچ اور بے دردی پال لینے
کے باوجود بھی خود کو پاگل نہیں سمجھتے پاگلوں کے اندر یہ بڑی خرابی ہوتی
ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو جائز اور درست سمجھتے ہیں اب ان کو یہ بات سمجھانی
ہے کہ تم نارمل نہیں رہے اگر یہ بات پلے پڑ جائے تو آدھی شفا مل جائے گی
اور اس شفایابی کیلئے بہت سے لوگ کوشاں ہیں کئی اللہ والے دعا گو ہیں اور
کئی درویش اپنی بساط کے مطابق ان بیمار لوگوںکا درد اور بوجھ بانٹ رہے ہیں
انہی میں سے ایک قلمکار کا نام راجہ شبیر خان ایڈووکیٹ ہے جن کی چوتھی
تصنیف ”خوبصورت باتیں “ایک مرہم کی طرح ہے اس کتاب میں مختلف موضوعات پر
چھوٹی چھوٹی تحریریں بڑی کارآمد اور مفید ہیں خوبصورت باتوں میں قرآنی آیات
،احادیث ،اقوال زریں ،شاعری ،حکایات ،پیغامات ،نصیحتیں اور موبائل فون پر
آنے والے خوبصورت میسجز کو راجہ شبیر خان ایڈووکیٹ نے شاندار انداز میں ایک
گلدستے کی شکل دی ہے اس گلدستے سے مہک بھی آتی ہے اور ہدایت کا سامان بھی
ملتاہے اور یہ کتاب پڑھ کر یوں لگتاہے کہ یہ معاشرتی پاگل پن کیلئے ایک
مرہم کا کام کرے گی معاشرے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے پاگل پن کی روک تھام
کیلئے اس قسم کی کتب بڑا اہم کردار اداکرتی ہیں ۔راجہ شبیر خان کالم نگاروں
کی انٹرنیشنل تنظیم قلب قلم کے سینئر نائب صدر ہیں قبل ازیں ان کی چار دیگر
تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں مگر خوبصورت باتیں ان سب سے زیادہ منفرد
ہے اس کتاب میں شامل اکثر تحریریں ان کا انتخاب ہیں مگر یہ انتخاب اتنی
خوبصورتی سے کیاگیاہے کہ بے اختیار انہیں داد دینے کو جی چاہتاہے کتاب کا
سرورق بہت ہی دیدہ زیب ہے اور اندر کے صفحات کو بھی خوبصورتی سے ڈیزائن کیا
گیاہے ۔تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کم وبیش ایک سوپچاس موضوعات پر
مختصر مگر پراثر بات کی گئی ہے میں سمجھتاہوں کہ کتاب کی اس تاثیر سے کئی
لوگوں کے باطن کا زنگ اترے گا اور خلل دماغی میں افاقہ ہوگا اس حوالے سے
کتاب کو سراہا جانا بہت ضروری ہے ۔راجہ شبیر خان کی ایک خاصیت بطور خاص ان
کی شخصیت میں نگار پید اکرتی ہے کہ وہ خود نما نہیں ہیں اور نہ ہی قلم
فروشوں اور ضمیر فروشوں کی طرح جعلی دانشوری کا دعوی کرتے ہیں ان کی شخصیت
میں عاجزی اور مذہبی رجحان کی وجہ سے وہ مجھے میرے ہم مزاج لگتے ہیں مگر وہ
پاگل خانے کے لکھاری نہیں ہیں بلکہ ان کی آواز دانش کدے سے ابھرتی ہے اور
اپنی قلمی کاوشوں کو کتابی شکل دے کر وہ اپنے کتابوں کو قارئین تک
بلامعاوضہ صدقہ جاریہ کے طور پر پہنچاتے ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ راجہ شبیر
خان ایڈووکیٹ کے قلم سے ابھی ایسی ہی بہت سی کتب تحریر ہوں گی اور جب تک
ہمارے ابنارمل معاشرے میں جا بجا پایا جانے والا پاگل پن ختم نہیں ہو جاتا
ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ راجہ شبیر خان
معاشرتی پاگل پنے کا مکمل احساس اور ادراک رکھتے ہیں اور انہوں نے ابنارمل
رویوں اور منفی سوچوں کی نبض پر ایک ماہر نباض کی طرح ہاتھ رکھ کر خوبصورت
باتیں بطور ایک نسخہ تحریر کی ہیں اب دیکھتے ہیں کہ اس نسخے سے کس کس کو
شفا نصیب ہوتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاگلوں کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ
وہ پاگل پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ |