خیرآبادی سلسلۂ علم وفضل کے
احوال وآثارپرمشتمل ایک اہم ترین اورمعرکہ آراکتاب
اسے بدقسمتی کہیے یاعصری ماحول کاجبرکہ اب دین کے نام پرنام و نمو
داورریاونمائش کی وہ گرم بازاری ہوچکی ہے کہ لگتاہے کہ مؤ خرالذکرکی حیثیت
اولی ہے اوراول الذکرکی حیثیت ثانوی۔دین کے نام پر دنیا کما نے والے ہرمکتب
فکرمیں پائے جاتے ہیں انہیں ا ن کی دنیاتومل جاتی ہے مگردین کواس کاجائز
اورصحیح حق نہیں مل پاتا۔ایک وقت وہ تھا کہ جب علما و قائدین محض رضائے
الٰہی کی خاطرقوم وملت کی خدمات انجام دیتے تھے شہرت کے حصول کووہ بے معنی
سمجھتے تھے ۔جنگ آزادی میں بھی یہی ہوا ہمارے علمانے بے لوث ہوکروطن
عزیزکوانگریزوں سے پاک کرایا او ر اپنے تن من دھن سے وطن عزیز کے لیے
قربانیاں پیش کیں۔ان کی قربا نیو ں اور جاں فشانیوں کی کوئی تاریخ مرتب نہ
کی گئی۔ نتیجہ یہ ہواکہ ان کی بے لوث خدمات اورغیرمعمولی قربانیوں کوحرف
غلط کی طرح مٹادیاگیااوران کی جگہ ایسے لوگوں کومجاہدجنگ آزادی بناکرپیش
کیاگیاجوانگریزوں کے نہ صرف یہ کہ دوست تھے بلکہ اس کے لیے ان سے وظیفے بھی
حاصل کرتے تھے۔علامہ فضل حق خیرآبادی اسی تاریخ سازی کے شکارہوئے ۔ جنگ
آزادی کے اس سرخیل کواگرمجاہدین آزادی کی صف سے خارج کیا جاتا تب بھی
صبرآجاتا۔تاریخ سازوں نے ان کی خدمات اورقربانیو ں کو ہی مشکوک قراردے
دیا۔اس پوری تحریک کے مطالعے سے یہ اہم ترین سبق ملتاہے کہ جنگ آزادی کے
علماومشائخ اگراپنی قربانیوں کی تاریخ مرتب کراتے تویقیناجنگ آزادی میں
تاریخ میں کتربیونت نہ کی جاتی۔
تاریخ کے اس سیاہ جرم کے خلاف ،حقائق کوواشگاف کرنے اور علامہ فضل حق
خیرآبادی کی خدمات کواجاگرکرنے کے لیے معروف عالم دین مولاناےٰسین
اخترمصباحی نے ایک سال قبل ایک جامع منصوبہ تیارکیا اور اس منصوبے کوعمل سے
مربوط کرنے کے لیے پورے ملک میں کانفرنس ، سیمیناراورسمپیوزیم کاانعقادعمل
میں آیااورآج بھی اس کوشش کی توسیع کا سلسلہ جاری ہے۔اس موضوع پرمقالات
ومضامین لکھے اورلکھوائے گئے اورتحقیقی کتابوں کی اشاعت عمل میں آئی۔ اسی
سلسلۂ خیرکی اہم ترین اورمعرکہ آراکتاب ’’خیرآبادیات‘‘ ہے جوبرصغیرکے معروف
عالم ومحقق اورخوش اسلوب قلم کارمولانااسیدالحق قادری ازہری کے خامۂ زرنگار
کا نتیجہ ہے۔مولانانے ا س کتاب میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے حوالے سے
متعددپہلوؤں پرعلمی اورتحقیقی بحث کی ہے اورانہیں حقائق کے اجا لے میں
لاکھڑاکیاہے۔گوکہ اس کتاب میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے جنگ آزادی میں شمول
کوضمناًہی چھیڑاگیاہے لیکن ان کے حیات کے دیگر بہت سارے پہلوؤں پرسیرحاصل
گفتگوکرکے روشن سے روشن تر کرد یا ہے۔ان کی پوری گفتگومضبوط دلائل سے
آراستہ ہے۔۲۶۴صفحات کی یہ کتاب علم وفکراورتحقیق وتفتیش کاحسین مرقع ہے
اورخیرآبادیات کے طالب علموں کے لیے ایک اہم ترین اورغیرمعمولی تحفہ۔کتاب
کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ مصنف نے ’’شیریں ‘‘کے حصول کی خاطر بہت محنت
سے ’’کوہ کنی ‘‘کی ہے اور’’شیریں ‘‘کوگلے لگانے میں کامیا ب ہوئے ہیں۔کتاب
کے ابواب پرایک نظرڈالیں اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔
خیرالبلا۔خیرآباد،خانوادۂ خیرآبادکی اہم علم خواتین،مدرسۂ خیرآ با د ،
خیرآبادی طریقۂ درس اوراس کی خصوصیات ،خیرآبادی اساتذہ کی شفقت ، خیرآبادی
تلامذہ کی عقیدت،استاذبھائی کارشتہ،بدایوں میں سلسلۂ خیر آ با د ، کتب خانۂ
قادریہ میں خیرآبادی نوادر،فضل حق ،فضل رسول اور آزرد ہ ، علامہ فضل حق
خیرآبادی اورحافظ محمدعلی خیرآبادی،علامہ فضل حق خیرآبادی اور شاہ اسماعیل
دہلوی،علامہ فضل حق خیرآبادی کے بارے میں بعض بے بنیادروایتیں،علامہ فضل حق
خیرآبادی اورسیدحیدرعلی ٹونکی،علامہ فضل حق خیرآبادی اورمفتی سعداﷲ
مرادآبادی،علامہ فضل حق خیرآبادی کے علمی معر کے،مولاناعبدالحق خیرآبادی
اوران کے تلامذہ کے علمی معرکے،لطائف خیرآباد،انڈمان کاسفر،خیرآبادیات
پرتحقیقی ،تصنیفی اوراشاعتی کام۔
علامہ فضل حق خیرآبادی اوران کے سلسلۂ خیرآبادکے تعارف میں یہ کتاب ایک سنگ
میل کادرجہ رکھتی ہے۔کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جوباتیں پہلے لکھی جاچکی
ہیں ان کو چھیڑانہیں گیاہے بلکہ تکرار و اعادے سے الک ہٹ کرکچھ نئے مباحث
سامنے لائے گئے ہیں۔بعض چیزیں توایسی ہیں جو پہلی مرتبہ منظرعام پرآرہی
ہیں۔بقول مصنف:
’’میں نے اس کتاب کوشش کی ہے کہ خیرآبادیات کے سلسلے میں اب تک دستیاب شدہ
معلومات میں کچھ اضافہ کرسکوں۔اس کتاب میں آپ کچھ ایسے مباحث ،واقعات ،شخصیات
اورکتب ورسائل کاذکرپائیں گے جوشایداس سے پہلے روشنی میں نہ آسکے۔مثال کے
طورپرعلامہ کی مفتی سعداﷲ مرادآبادی،مولاناشاہ فضل رسول بدایونی اورمفتی
صدر الدین آزردہ کے ساتھ قلمی معرکہ آرائی کی تفصیلات غالباً پہلی مرتبہ
منظر عام پرآرہی ہیں۔شاہ اسماعیل دہلوی اورسیدحیدرعلی ٹونکی سے علامہ کے
اختلاف اورمناقشات کاتذکرہ توبہت ہوامگرتاریخی ترتیب کے ساتھ تحقیقی
اندازمیں ا س پرکم لکھاگیاہے۔میں نے اس اختلاف کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی
کوشش کی ہے جس سے بہت سے نئے پہلوسامنے آئے ہیں۔اگرکچھ مشہورومعروف مباحث
اورواقعات کاذکرکتاب میں کیاگیاہے تویاتوانہیں کسی نئے زاویے سے پیش
کیاگیاہے یاپھران پر بعض شکوک وشبہات ہوں گے جن کاازالہ کرنے کی کوشش کی
گئی ہے۔‘‘
علامہ فضل حق خیرآبادی کاجس طرح تعارف کرایاجاناچاہیے تھا ، نہیں
کرایاجاسکا۔قابل مبارک بادہیں وہ حضرات جویہ تحریک لے کر اٹھے ہیں اوران کی
ایماپرپورے ملک میں علامہ کی یادمنائی جارہی ہے اور نئی نسلوں کوان کی
خدمات سے آشناکرایاجارہاہے مگربدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بعض اپنوں کویہ تحریک
ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔وہ اس تحریک کوبھی شک کی نظرسے دیکھ رہے ہیں
اورحاملان تحریک کوبھی طعن وتشنیع سے گھائل کررہے ہیں۔ہماری جماعت کاالمیہ
یہ ہے کہ اس کی اکثریت اب تک بالغ نظرنہیں ہوسکی حالانکہ یہ اپنی بلوغیت کے
دعوے توبہت کرتی ہے اورمعاصرحالات سے اچھی طرح باخبربھی ہے مگرپھربھی پتہ
نہیں کیو ں وہ اپنی عدم بلوغیت کے اشارے دے دیتی ہے۔مخصوص شخصیتوں کو بار
بار دہرایاجارہاہے ہمیں افسو س اس کانہیں ہے کہ انہیں مخصوص شخصیتوں
کابارباردہرایاجارہاہے مگرافسوس اس بات کاہے کہ ان شخصیتوں کے تعلق سے کوئی
نئی بات نہیں کہی جارہی ہے بلکہ اعادہ وتکرارکی اتنی بھرمارہے کہ سنجیدہ
اورباشعورلوگ ایسی کتابوں اورتقریروں سے بدظن ہو چکے ہیں۔اگرکچھ نئے گوشے
سامنے لائے جاتے توواقعی یہ بڑاقابل قدر کام ہوتامگرمعلوم نہیں یہ ہٹ دھرمی
ہے کہ نافہمی کہ اسی کواصل دین سمجھا جا ر ہاہے اوربقیہ دوسرے کاموں
کوانحراف سے تعبیرکیاجارہاہے۔بہرحال ہمیں ان سب منفی باتوں پرکان نہیں
رکھناچاہیے اوراپنے تعمیری ،ملی اور مسلکی کاموں کی رفتارتیزسے
تیزترکردیناچاہیے۔
علامہ فضل حق خیرآبادی کے جنگ آزادی میں شمولیت اوران کی قربانیوں کے تعلق
سے بعض محققین نے تاریخ سے چھیڑچھاڑکی ہے اوران کی جگہ مولانافضل حق
خیرآبادی کوجنگ آزادی کاہیروبناکرپیش کیا ہے۔اس سلسلے میں بعض غلط روایتوں
کوجوڑکرایک تصویربنائی جاتی ہے اوراسی تحقیق کونام دیاجاتاہے حالانکہ علامہ
فضل حق خیرآبادی کے فتوی جہادکی تائیداس وقت کے برصغیرکے ممتازمشائخ ، علما
، ادبا اور شعر انے کی تھی ۔
مولانااسیدالحق قادری نے ’’خیرآبادیات‘‘کے تعلق سے اپنی کتا ب میں جس عنوان
کوبھی مس کیاہے اس پرسیرحاصل اورتحقیقی اندازمیں گفتگو کی ہے اورالجھے ہوئے
قارئین کومطمئن کرنے اورنئی نسل کی علامہ کی غیر معمولی اورحیرت انگیزعلمی
قدرومنزلت سے روشناس کرانے کی حتیٰ الا مکا ن کوشش کی ہے۔مولاناکی خصوصیت
یہ ہے کہ وہ جس موضـوع کوبھی منتخب کرتے ہیں توا س کے مالہ وماعلیہ کااحاطہ
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی علمی استعداد،فکری ا
ٹھان،تحقیقی شعور،قلمی پختگی نیزفنی کمال نے انہیں برصغیرکے
ممتازعلما،محققین اورقلم کاروں میں کی صف میں لاکھڑاکیاہے۔ہاں یہ بات صحیح
ہے کہ ان کی شہرت وعظمت کے پیچھے ان کی اس خانقاہ کابھی ہاتھ ہے جس کے وہ
علمی وارث ہیں مگرہماری نظرمیں صرف وابستگی ہی کافی نہیں ہوتی اوراس طرح کی
وابستگی باپ داداکے مریدین اورعقیدت مندوں میں تو عزت کاسبب بن سکتی ہے
پڑھے لکھے حلقوں میں نہیں۔انہوں نے جوعظمت حاصل کرکے اپنی کلاہ افتخارمیں
چارچاندلگائے ہیں وہ ان کی علمی صلا حیتو ں کی مرہون منت ہے ۔ اگروہ کسی
خانقاہ سے وابستہ نہ بھی ہوتے توعلم وفضل نے ان کواتنامستحکم کردیاہے کہ وہ
خوداپنامقام بنالیتے ۔اب دھیر ے دھیرے مولاناکی شخصیت خودمستندحوالہ بنتی
جارہی ہے۔
مولاناموصوف نے یہ اہم اورمعرکہ آراکتاب تحریرکرکے ایک اہم ضرورت
کوپوراکیاہے۔اس کامطالعہ نہ صرف یہ کہ ذہن وفکرکوروشن کر ے گابلکہ بہت سارے
چھپے ہوئے حقائق سے بھی پردہ اٹھائے گا۔ اتنی اہم ترین کتاب لکھنے
پرمولاناموصوف پوری جماعت کی جانب سے مبارک بادکے مستحق ہیں۔ہم دعاگوہیں کہ
مولاناموصوف اسی طرح کی علمی و تحقیقی کتابیں منظرعام پرلاتے رہیں ۔کتاب کے
حصول کے لیے تاج الفحو ل اکیڈمی مدرسہ عالیہ قادریہ بدایوں یوپی اورمکتبہ
جام نور ۴۲۲مٹیامحل جامع مسجددہلی سے رابطہ کیاجاسکتاہے۔ |