اکھلیش یا دو نااہل وزیر اعلیٰ؟

ہندو ستان کی عظیم ترآبادی والی ریاست اتر پردیش میں جب سے ایس پی کی حکومت بنی ہے ‘کو ئی دن ایسا نہیں جاتا جب وہاں کو ئی دنگا‘جھگڑا ‘بدامنی ‘کرپشن ‘ناجائزگر فتاری ‘رنگ داری ‘لوٹ مار‘فرقہ وارنہ فساداورریاستی عدم استحکام کی کوششیں نہ ہوتی ہوں ۔سب سے پہلے اکھلیش یا دو حکومت نے اپنی حکومت کے 100دن پورے ہو نے کا تحفہ یوپی کے عوام کو پر تاپ گڑھ اور کو سی کلاں کے مسلم کش فسادات کی صورت میں دیا اس کے بعد توجیسے یوپی کے سورج کو گہن لگ گیا ہو‘ پے درپے مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ریپ ‘قتل و خون‘ڈکیتی اور پولیس کی زور زبردستیوں کی جیسے باڑھ آگئی ہو جس میں بے بس عوام بہتے چلے گئے۔ فیض آباد‘غازی آباد ‘لکھنؤ‘بنا ر س اور مراد آباد میں کشیدگی ‘متھرا میں پولیس ایکشن۔ان حالات نے یوپی کی جیسے کمر ہی توڑ دی ہو۔ذرا فیض آباد فسادات کی ایک ہلکی سی جھلک ملاحظہ کیجیے ۔مسلمانوں کی املاک اور جا نیں تباہ ہو رہی تھیں‘فسطائیوں گھروں میں گھس کر عصمتوں پر ڈاکے ڈال رہے تھے بے بسو ں کو برچھیوں پر لٹکارہے تھے ایسی قیامت میں بجائے مظلوموں کی حمایت کر نے کے پولیس انتظامیہ بلوائیوں کی ہی حو صلہ افزائی کر رہی تھی۔

یہ تصویر یا جھلک وہ ہے جو ہندوستان کی آزدای ‘سیکولر زم اور جمہوریت پر داغ لگاتی ہے۔ حالیہ دنوں تو یوپی میں ایک عجیب ہی طوفان نے سر اٹھایا جس سے نے صرف اسمبلی کارروائی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے بلکہ حکمراں ایس پی کی نیندیں بھی حرام کر دیں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ فساد متاثرہ ضلع پر تاپ گڑھ سے75کلومیٹر دور کنڈا نامی گاؤں میں ایک آپسی رنجش میں مارے گئے پر دھا ن اور اس کے بھا ئی کے قتل کی تفتیش کے لیے سرکل سی او ضیاء الحق نے جیسے ہی رخت سفر باندھا انھیں آدھے راستے میں ہی راجہ بھیا نامی غنڈے اور دہشت گر د کے اشارے پر ختم کر دیاگیا ۔واضح ہو کہ راجہ بھیا خاندانی راج پاٹ سے تعلق رکھتا ہے اور ایس پی کابینہ میں ایک اعلا عہدے پر فائز تھا جہاں سے اسے معزول کر دیا گیا ہے اور اس کی گر فتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں ۔ان خون خون حالات نے اتم پر دیش بنتے جارہے یوپی کو ملک کی سب سے بدترین ریاست بنا دیا ہے ۔ان حالات نے چیخ چیخ کر ثابت کر دیا کہ اکھلیش یا دوایک بدترین نااہل وزیر اعلا ہیں۔ وہ کسی بھی طرح چیف منسٹری کے لائق نہیں ہیں ‘نہ کل تھے اور نہ آج۔آج بھی اس کی ریاست میں بے قصو رمسلم نوجوانوں کا گر فتار کیا جاتاہے۔آج بھی اس کی ریاست کے اہم علمی ادبی شہر کا نام آتنک گڑھ ہے ۔آج بھی وہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہے اور سب سے زیادہ بر ق مسلمانوں پر ہی گر رہی ہے۔یہ کیسی حکمرانی ہے ؟یہ کیسی قیادت ہے؟

انتہا ئی افسوس ناک منظر تو اس وقت دیکھنے میں آیا جب اکھلیش یادو نے اپنی لولی لنگڑی حکومت کا ایک سال پوراکیا اور اس کے ارکان نے اسے شاندار کامیابی سے تعبیر کر تے ہوئے اکھلیش کی پذیر ائی کی تھی اس سے بھی افسوس ناک نظارہ وہ تھا جب پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو نے اپنے بیٹے کی سرزنش کر نے کے بجائے ان کی ناقص کار کردگی پر بھی پیٹھ تھپتھپا ئی تھی۔ گویا دبے لفظوں میں ملک کے عوام سے کہہ رہے تھے: ’’میرا بچہ حکومت کر نا سیکھ رہا ہے ۔یہ اس کا پہلا ٹرم ہے بعد میں سب صحیح ہو جا ئے گا۔ابتدا میں غلطیاں ہوتی ہی ہیں ان پر گر فت نہیں کر نی چا ہیے۔‘‘واہ کیا انداز ہیں‘انسانوں کو مشق ستم بنا کر اکھلیش کو آداب شہنشاہی سکھا ئے جا رہے ہیں ‘ریاست کو لہو لہو کر کے حکومت کے گُر سکھا ئے جارہے ہیں ‘ماضی کی تاریخوں میں حکمران اپنے بچوں کو شیروں ‘چیتاؤں اور باگھوں سے مقابلہ آرائی کر اکے حکومت کر نا سکھاتے تھے ۔نرم و نازک حالات میں ثابت قدمی کے انداز سکھاتے تھے مگر آج انسانوں کا خون بہا کر‘ریاست میں بد امنی اور انارکی پھیلا کر حکومت کے آداب سکھا ئے جارہے ہیں ۔ کیا انداز ہیں نئے دَورکے واہ ‘ایسا لگتا ہے جیسے آج کے دور میں لاشو ں پر سیاست کر نے کا طریقہ چل پڑا ہے ۔ملک کے طول عرض میں کہیں بھی دیکھ لیجیے اسی طرح کی سیاست جاری ہے ۔بلکہ اسے سیاست کہنا سیاست کی توہین ہے ‘یہ تو تجارت‘بزنس ہے جس میں سامنے والے کا نفع نقصان دیکھے بنا بزنس مین اپنا ہی فایدہ دیکھتا ہے ۔ملک میں حکمرانی کر نے والے بھی اسی طرح کا رویہ اپنا رہے ہیں ‘انھیں ملک کے شہریوں کی جان ‘مال‘عزت ‘آبر و عزیز نہیں ہے بلکہ ہر حال میں اپنا سیاسی مفاد عزیز ہے ۔اکھلیش یادو حکومت نے وہی کیا اور مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ان کے نوجوانوں کا جیلوں میں بھردیا اور جب ان کی بے قصوری کی دستاویز بن کر نمیش کمیشن آئی تو اسے منظر عام پر لانے سے کھلے لفظوں میں انکار کردیااور بے چارے مسلم نوجوان رہا ئی کا خواب دیکھتے رہ گئے ۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ملائم سنگھ یا دوکے ہونہار بر وان کو یہ سیاسی گر ‘ہیرا پھیری ‘مسلمانوں کے ساتھ دو غلا رویہ کہاں سے آگیا؟ہو نہ یہ ا ن کے والد ملائم سنگھ یادو کی تعلیم ہے جو اُن کی فسطائی ذہنیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔اگر ملائم سنگھ یادو بھی فرقہ پر ست اور فسطائی ذہنیت کے مالک ہیں تو پھروہ تیسرا محاذ کس کے لیے بنا نے چلے ہیں ‘کیا بی جے پی اور کانگریس نے جو کام نہیں کیا وہ ملائم کی قیادت میں تیسرا محاذ کر ے گا ؟؟یعنی پورے ملک کو قتل‘ خون‘ فساد سے بھرے گا۔پتا نہیں کیا ہوگا اﷲ خیر کر ے؟ ملائم سنگھ خود کو سیکولر رہنما کہتے ہیں پھرسیکولر زم کہاں ہے؟ایسے لوگوں سے کس طرح اچھا ئی ‘جمہوریہ ہند کی سا لمیت اور ترقی کی امید یں کی جاسکتی ہیں۔افسوس اب مسلمان کس پر بھروسہ کر یں ‘کس کو اپنی ڈوبتی کشتی کاناخدا بنا ئیں ‘کسے جمہوریہ ہند کی فلاح کے لیے چنیں ۔سمجھ میں ہی نہیں آتا ۔جتنا سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اتنا ہی ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔ اچھا ہوا کہ وقت آنے سے پہلے ملائم سنگھ کی اصلیت سامنے آگئی ‘اس کا فسطائی چہرہ نظر آگیا ورنہ مسلمان بے موت مارے جاتے ۔

اتر پردیش پوری طرح سے فرقہ پرست طاقتوں کے نرغے میں ہے ‘وہ جہا ں چاہیں زہر افشانی کر تے رہیں‘ان سے کو ئی کچھ کہنے والا نہیں ہے ۔ایودھیا میں مسلمانوں کا جینا اتنا مشکل کر دیا گیا ہے انھیں ان کی عبادت گاہوں کی جدیدکاری پر پابندی ہے ‘مرمت کر نے پر پولیس کے ذریعے ایکشن لیا جاتا ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اتر پردیش میں سیکولرزم کی کو ئی حکومت نہیں ہے فرقہ پرست ہی وہاں کے سیاہ سفید کے مالک ہیں۔

احساس
’’میرا بچہ حکومت کر نا سیکھ رہا ہے ۔یہ اس کا پہلا ٹرم ہے بعد میں سب صحیح ہو جا ئے گا۔ابتدا میں غلطیاں ہوتی ہی ہیں ان پر گر فت نہیں کر نی چا ہیے۔‘‘واہ کیا انداز ہیں‘انسانوں کو مشق ستم بنا کر اکھلیش کو آداب شہنشاہی سکھا ئے جا رہے ہیں ‘ریاست کو لہو لہو کر کے حکومت کے گُر سکھا ئے جارہے ہیں ‘واہ کیا انداز ہیں‘انسانوں کو مشق ستم بنا کر اکھلیش کو آداب شہنشاہی سکھا ئے جا رہے ہیں ‘ریاست کو لہو لہو کر کے حکومت کے گُر سکھا ئے جارہے ہیں ‘ماضی کی تاریخوں میں حکمران اپنے بچوں کو شیروں ‘ چیتاؤں اور باگھوں سے مقابلہ آرائی کر اکے حکومت کر نا سکھاتے تھے ۔نرم و نازک حالات میں ثابت قدمی کے انداز سکھاتے تھے مگر آج انسانوں کا خون بہا کر‘ریاست میں بد امنی اور انارکی پھیلا کر حکومت کے آداب سکھا ئے جارہے ہیں ۔ کیا انداز ہیں نئے دَورکے واہ‘
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56376 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More