حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ
فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میرے پڑوسی کا کیا حق ہے ؟
حضور ﷺ نے فرمایا اگر وہ بیمار ہوجائے تو تم اُس کی عیادت کرو اوراس کا
انتقال ہوجائے تو تم اس کے جنازے میں جاﺅ اور اگر وہ تم سے قرض مانگے تو تم
اسے قرضہ دے دو اور اگر وہ فقیر اور بدحال ہوجائے تو تم اس کی پردہ پوشی
کرو (کہ ایسے چپکے سے اس کی مدد کرو کہ کسی کو اس کا پتہ نہ چلے ) اور اگر
اسے کوئی اچھی چیز حاصل ہوجائے تو تم اسے مبارکباد دو اور اگر اس پر کوئی
مصیبت آئے تو تم اس کو تسلی دو اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے اونچی نہ بناﺅ
اس سے اس کی ہوا بند ہوجائے گی اور جب بھی تم ہنڈیا میں کوئی سالن پکاﺅ تو
چمچہ بھر اس میں سے اسے بھی دے دو ورنہ تمہارے سالن کی خوشبو سے اسے بے
چینی اورتکلیف ہوگی (کیونکہ اس کے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے اور تمہارے ہاں
ہے )-
محمد بن عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر
عرض کیا کہ میرے پڑوسی نے مجھے پریشان کیا ہوا ہے حضور ﷺ نے فرمایا صبر کرو
کچھ عرصہ بعد میں نے دوبارہ جاکر عرض کیا کہ میرے پڑوسی نے مجھے بڑی تکلیف
پہنچائی ہے حضور ﷺ نے فرمایا صبر کرو میں نے تیسری مرتبہ عرض کیا کہ میرے
پڑوسی نے تو مجھے تنگ کردیا ۔حضورﷺ نے فرمایا اپنے گھر کا سارا سامان اٹھا
کر گلی میں ڈال دو اور تمہارے پاس جو آئے اسے یہ بتاتے رہنا کہ میرے پڑوسی
نے مجھے بہت پریشان کیا ہوا ہے ۔اس طرح سب اس پر لعنت بھیجنے لگ جائیں گے
۔(پھر آپﷺنے فرمایا )جو کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے
پڑوسی کا اکرام کرنا چاہیے اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے
اسے چاہیے کہ یا تو وہ خیر کی بات کہے یا چپ رہے۔
قارئین آج کا کالم کچھ عجیب سا کالم ہے اگرچہ ہمارے بہت دوستوں کا یہ خیال
ہے کہ ہمارے تقریباً تمام ہی کالم عجیب و غریب قسم کے کالم ہوتے ہیں ۔کچھ
دانش مند لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں کالم کے آغاز میں کسی قسم کی روایت یا
مذہبی بات نقل نہیں کرنی چاہیے اور کچھ دوست چچا غالب کی شاعر ی پر معترض
ہوتے ہیں اور اسی طرح بعض خیر خواہوں کو سنجیدہ کالموں کے آخر پر ”حسب
روایت “ لطیفے کی روایت پر بہت بڑا اعتراض ہے۔ابن صفی نام کے برصغیر پاک
وہند کے اردو زبان کے سب سے بڑے فکشن رائٹر گزرے ہیں جنہوں نے ”عمران سیریز
“ اور ”کرنل فریدی“ کے کرداروں پر ایسے خوبصورت کتابیں تحریر کی کہ آج
تیسری نسل بھی ان کے سحر سے نہیں نکل پائی۔ابن صفی اسرار ناروی کے نام سے
شاعری بھی کیا کرتے تھے اپنے تمام معترضین کو ہم اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں
اور انہیں اپنے سے زیادہ دانش مند گردانتے ہیں لیکن بقول ابن صفی یا اسرار
ناروی
کوئی سنے نہ سنے ،کوئی داد دے کہ نہ دے
یہی بہت ہے خیالات میرے اپنے ہیں
ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مذہبی روایات ،اشعار اور لطائف ہم مختلف جگہوں
سے نقل کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کریں کہ ہم اس با ت پر بھی یقین
رکھتے ہیں کہ
” علم مومن کی گم شدہ میراث ہے ،جہاں سے ملے لے لو“
ہم جہاں بھی اپنی ناقص عقل کے مطابق دیانتدارانہ رائے رکھتے ہوئے یہ سمجھتے
ہیں کہ یہ بات عوام الناس کی اصلاح سے پہلے ہماری اصلاح کرے گی اسے ہم اپنے
دوستوں سے شئیر کر لیتے ہیں ۔سعادت حسن منٹو اردو ادب کے سب بڑے افسانہ
نگار نہیں وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ ابتدائی دنوں میں میں خود
تحریر لکھنے کی بجائے تراجم کیا کرتا تھا ۔چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ
تراجم کرنے کی بجائے خو دلکھنے کی عادت ڈالو۔منٹو کہتے ہیں کہ میں نے ان
دوستوں کو یہی جواب دیا کہ پیمانہ ابھی بھر رہا ہے جب مکمل بھر گیا تو تبھی
چھلکے گا اور یقینا بعد ازاں سعادت حسن منٹو کا پیمانہ چھلکا اور ایسا
چھلکا کہ ایک دنیا ان کی اسیر ہے۔ ہمیں امید ہے اگر ہماری قسمت میں بھی
بھرنا اور چھلکنا ہے تو ایسا ہو کر رہے گا کوئی اسے روک نہیں سکتا۔اللہ
تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کا حکم ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے منافی
کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ہاں اگرہمارے نصیب میں تاریک راہوں میں آوازیں
بلند کرتے کرتے مارے جانا لکھا ہے تو اس نصیب کو بھی کوئی نہیں ٹال
سکتا۔اللہ تعالیٰ ہم سمیت ہر کسی کے حال پر رحم فرمائے۔آمین
قارئین ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی آپ کے سامنے رکھی تھی کہ احادیث مبارکہ
،امام جلال الدین رومیؒ ،شیخ شرف الدین سعدی ؒ ،امام غزالیؒ اور دیگر
اولیاءکرام کی جو روایات او ر حکایات ہم آ پ کے سامنے کالم کے ابتدائیے میں
پیش کرتے ہیں ان کا مقصد نہ تو داستان طرازی ہے اور نہ ہی مالی منفعت کے
لیے اپنا قد کاٹھ اونچا کرنے کے لیے کوئی مقصد ہمارے ذہن میں ہے ۔ہم
انتہائی عاجزی اور انکساری سے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل توبہ کرتے ہوئے
آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ان تمام مذہبی باتوں کے نقل کرنے کا مقصد سب سے پہلے
اپنی اور بعد ازاں تمام بھائیوں اور دوستوں کی اصلاح مقصود ہے ۔ہم انتہائی
دیانت داری سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھانے کے
لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور پھر صحابہ کرام ؓ اور بعد ازاں ہر دور
میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جنہیں اولیاءکرام کہا جاتا ہے وہ اللہ کے
بندوں کو اللہ کے ساتھ جوڑنے کا فریضہ سر انجام دیتے رہے ۔مذہبی روایات کو
نقل کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اخلاقیا ت کے تمام
سبق یہیں سے ملتے ہیں۔
قارئین آج کی تمہید کچھ طویل ہو گئی نکتہ چینیوں اور تنقید کو ہم انتہائی
گرم جوشی سے ہاتھ کھول کر خوش آمدید کہتے ہیں لیکن یہ بھی مناسب سمجھتے ہیں
کہ اپنا نظریہ یا نظریات آپ کے سامنے ضرور رکھ دیں ۔
قارئین اب چلتے ہیں آج کے عنوان کی جانب جو ایک ”کوزے“ کی شکل میں سمندر
سمیٹے بیٹھا ہے ۔پاﺅنڈ پالیٹکس کی اصطلاح ہمارے استاد محترم او ر
FM-93ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری “کے
ایکسپرٹ راجہ حبیب اللہ خان نے مختلف ٹاک شو ز کے دوران جب متعارف کروائی
اور اپنی تحریروں کے ذریعے بھی حالیہ دنوں میں قوم کو ایک انتہائی سنگین
حقیقت سے آگاہ کیا تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔آزاد کشمیر میں
جو لوگ اس وقت وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے حمایتی ہیں اور پاکستان
پیپلزپارٹی کے بقول خود نظریاتی کارکن ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بیرسٹر
سلطان محمود چوہدری کے ”اصول پرست ساتھی“چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی
کوششیں کر رہے ہیں دوسری جانب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جن کا مسئلہ کشمیر
کے حل کے حوالے سے اہم کردار اور بین الاقوامی دنیا میں ایک منفرد شناخت ہے
ان کے ساتھیوں کا موقف یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں موجودہ حکومت کی اہم ترین
اعلیٰ شخصیات کے کچھ فرنٹ مین کرپشن کہانیوں میں مرکزی سٹیک ہولڈرز ہیں
۔جناح ماڈل ٹاﺅن سکینڈل ،میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سکینڈل
،میرپور خالق آباد ڈیول کیرج وے سکینڈل ،انفارمیشن ٹیکنالوجی سکینڈل ،اسلام
گڑھ سٹیڈیم سکینڈل،مظفرآباد ملبہ سکینڈل ،نوادرات سکینڈل،میرپور ڈویلپمنٹ
اتھارٹی سکینڈل سے لے کر سکینڈلز کا ایک سونامی ہے کہ جو بقول بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری اینڈ کمپنی موجودہ حکومت کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے کافی ہے
۔یہاں پر چوہدری عبدالمجید وزیراعظم آزاد کشمیر کے حوالے سے ہم یہ بات
تحریر کرتے چلیں کہ یہ قسمت کی خوبی ہے یا ان کی انتھک مخلصانہ کوشش کہ
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے دور حکومت میں آزادکشمیر میں جتنے ترقیاتی
کام ہوئے اس کی مثال گزشتہ پچاس سالوں کے دوران کہیں بھی دکھائی نہیں
دیتی۔میڈیکل کالجز کا قیام ،ویمن یونیورسٹی ،آئی ٹی یونیورسٹی ،تباہ حال
مسٹ یونیورسٹی کی بحالی اور فنڈز کا اجراء،ہزاروں متاثرین منگلا ڈیم کی
آباد کاری کے لیے اربوں روپے کے اضافی پیکج کی منظوری ،ہزاروں نوجوانوں کو
نوکریوں کی فراہمی الغرض اتنے سارے ترقیاتی کام وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
کے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں ابھی تک ہو چکے ہیں اور دکھائی یہی دے رہا ہے
کہ چکسواری کے رہائشی میرپور میں آباد موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے
اپنے دوستوں اور ہمسایوں نے اگر انہیں کام کرنے کا موقع دے دیا اور انہیں
پانچ سال حکومت ملی تو وہ ایسے ایسے کام کر جائیں گے کہ آزادکشمیر کی تاریخ
میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔یہ ہماری دیانتدارانہ رائے ہے لیکن اس
دیانتدارانہ رائے کے ساتھ ساتھ ہماری ایک عاجزانہ رائے بھی ہے اور وہ یہ ہے
کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم آزادکشمیر نے موجودہ حکومت پر
کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے جن فرنٹ مینوں کو کرپشن میں ملوث ثابت کر دیا
ہے اگر موجودہ حکومت اور چوہدری عبدالمجید چاہتے ہیں کہ وہ اخلاقی جرات کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کریڈیبلٹی بحال کریں تو انہیں جناح ماڈل ٹاﺅن سکینڈل
میں اکرم سہیل کمیشن رپورٹ میں مجرم ثابت کیے جانے والے تمام لوگوں کو کیفر
کردار تک پہنچانا ہوگا ،تمام سکینڈلز اور مالیاتی کرپشن میں ملوث کوئی بھی
ساتھی چاہے کتنا بھی قریبی کیوں نہ ہو اسے فی الفور احتساب کے کٹہرے میں
کھڑا کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے رکھ دینا چاہیے۔ہم
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو عرصہ دراز سے دیکھتے چلے آرہے ہیں ،وہ جذباتی
ہیں ،وہ تھوڑے غصیلے ہیں لیکن کتنے بھی الزامات ان پر لگا دیں وہ پاکستان
پیپلزپارٹی سے غداری کا کبھی بھی نہیں سوچ سکتے اور ان کی ہسٹری گواہ ہے کہ
ان کے گھر میں غم اور خوشی کے موقعے ہوتے تھے اور چوہدری عبدالمجید صاحب
اپنی پارٹی اور اپنے قائدین کی خاطر جیلوں میں بیٹھ کر مچھروں سے نمٹ رہے
ہوتے تھے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کی خاطر چوہدری عبدالمجید نے بے شمار
قربانیاں دی اور شہید بی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کی انہیں قربانیوں کا
اعتراف کرتے ہوئے اپنی زندگی میں انہیں آزاد کشمیر پیپلزپارٹی کا صدر بنایا
۔یہ وہ تمغہ ہے جو چوہدری عبدالمجید سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا ۔ہمارے
استاد گرامی راجہ حبیب اللہ خان جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک غیر
جانبدار ترین نام ہے انہوںنے پاﺅنڈ پالیٹکس کے حوالے سے جو انکشافات کیے
ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں آباد ”کنگ میکرز اور
انوسٹرز “ ایک مرتبہ پھر آزادکشمیر میں قائد ایوان کی تبدیلی کے لیے کوئی
کاروائی ڈالنے والے ہیں ۔ہمیں اس بات پر شدید حیرانگی ہے کہ بقول چوہدری
عبدالمجید کے ساتھیوں کے بیرسڑسلطان محمود چوہدری کے ساتھی چائے کی پیالی
میں طوفان اٹھا رہے ہیں تو آخر چائے کی پیالی کا یہ طوفان سونامی کی لہروں
سے بھی بلند کیوں ہو گیا کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو تمام
صورتحال واضع طور پر نہیں دکھائی دے رہی کہ اس تمام صورتحال سے نقصان کس کا
ہو رہا ہے ۔مارنے والے بھی اسی جماعت کے اور مرنے والے بھی اسی جماعت کے
۔کیا ایک مرتبہ پھر ”فرشتے “پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی کوئی بڑی گیم
کھیل رہے ہیں ؟ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو چار ماہ تک بیل آﺅٹ پیکج کے
نام پر وفاقی حکومت نے ”لالی پاپ“کیوں دیے رکھا ؟یہ سب باتیں ظاہر کر رہی
ہیں کہ اندرون خانہ کوئی خاص قسم کی کھچڑی پک رہی ہے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کے اچھے کاموں پر کتنی ہی تنقید کیوںنہ کی جائے انہیں کوئی بھی
غلط قرار نہیں دے سکتا ۔زمین پر قائم میگا پراجیکٹس ،میڈیکل کالجز
،یونیورسٹیز اور دیگر منصوبہ جات کو اگر کوئی جھٹلائے گا تو یقینا خرد مند
لوگ اسی کی عقل پر ماتم کریں لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگر ان اربوں
روپے مالیت کے پراجیکٹس میں واقعی بارے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے تو اس کا
الزام کس کے سر جائے گا ۔پاﺅنڈ پالیٹکس کا میگا راﺅنڈ شروع ہو چکا ہے اور
بقول سیاسی ماہرین2013کے پاکستانی انتخابات میں ایک جماعت کی قیادت نے
مختلف کشمیری شخصیات سے بولیاں طلب کی ہیں اگر خدا نخواستہ یہ بات درست ہے
تو ہمارے اللہ ہی حافظ ہے ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید راقم سے انتہائی شفقت
بھی فرماتے ہیں اور بعض اوقات ہمارے اور ان کے بد خواہ بظاہر قریبی مشیروں
کی باتوں میں آکر پریس کانفرنسز اور دیگر میٹنگز میں راقم کی خاطر خواہ عزت
افزائی بھی کر دیتے ہیں لیکن راقم اب بھی اپنے آپ کو ان کا خیر خواہ تصور
کرتا ہے اور دوست وہی ہے کہ جو آپ کو آپ کی خامی سے آگاہ کرے ۔بقول چچا
غالب
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی؟
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
قارئین ہمیں امید ہے کہ نظریات کا سودا کرتے ہوئے پاﺅنڈز لے کر کوئی نئی
نوعیت کا ذلت آمیز کام آزادکشمیر میں نہیں ہو گا ۔وزیراعظم چوہدر ی
عبدالمجید کو چاہیے کہ وہ اپنے معترضین کے اعتراضات کا منطقی جواب دیں اور
اگر کوئی مشیر وزیر یا کوئی بھی با اثر شخصیت ان کا نام استعمال کر کے کسی
بھی قسم کی کرپشن میں ملوث ہے تو اسے دیہاتی زبان میں یو ں کہیے کہ ”ٹنگ کے
رکھ دیں“ رہی بات بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم کی تو ان کا
کشمیر کے حوالے سے عالمی سیاست میں اتنا بڑا مقام ہے کہ کشمیر کیس پر دنیا
میںکہیں بھی بات کی جائے تو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا موقف ایک ریفرنس
کی حیثیت رکھتا ہے ہمیں یقین ہے کہ وہ بھی کسی بد خواہ مشیر کی باتوں میں آ
کر کسی بھی گیم میں گرفتار نہیں ہونگے ان کی پرواز بھی ایک شاہین والی ہے
اور یقینا شاہین عزت و غیرت پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے مریض کے بولنے سے پہلے ہی کہا میں مریض کی آنکھ دیکھ کر اس
کی بیماری بتا دیتا ہوں تمہاری دائیں آنکھ سے مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تمہیں
ٹی بی ہے ۔
مریض نے رونے والی شکل بنا کر کہا
”لیکن ڈاکٹر صاحب میری یہ آنکھ تو مصنوعی ہے “
قارئین ہم نے بھی اگرچہ افواہوں اور حالات کی آنکھیں دیکھ کر تجزیہ کیا ہے
لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ بُری افواہوں کی دونوں آنکھیں نقلی ہوں اور کسی
بھی قسم کی پاﺅنڈ پالیٹکس آزاد کشمیر میں فروغ نہ پائے ۔آمین |