ایک طرف روزبروز بگڑتے حالات،
لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مصائب ،مشکلات کے شکار عوام ،پہلے
ہی سخت پریشان نیم جاںہیں تودوسری طرف ڈرون حملے، دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ کے
ذریعہءجیدعلماءکرام، ہزارہ برادری کے قتل عام اور ہرجگہ خودکُش حملوں سے
پورا ملک ظُلمت کے اندھیروں میں ڈوب کر قتل گاہ بن چُکا ہے۔ہلاکو نے۶۵۶
ہجری میں علماءکو جمع کرکے پوچھاتھا __ کافرمگرعادل حکمران بہتر ہے یا
مُسلمان غیرعادل حکمران؟رضی الدین بن طاﺅس نے جواب دیا __ کافرمگرعادل
حکمران، غیرعادل مسلم حکمران سے بہترہے۔
وطن عزیز کے کونے کونے میں روز اپنے پیاروں اور جان سے زیادہ عزیر رشتوں کو
خود سے جدا ہوتے اور مرتے دیکھ کر ان سے جڑے بے بس رشتے دار جو اس لمحہ خود
کو بھی مٹتا ہوا،محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ماں جس کا لخت ِ جگر، باپ کی آنکھوں
کی بینائی،لاڈلی بہن کا بھائی ، گھر کوجنت بنانے کا سپنا دیکھنے والی عورت
کی زندگی اورلُٹا سہاگ،سرشام ہر آہٹ پراپنے بابا کے سینہ سے لپٹنے کی خواہش
لئے ، لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ دروازہ کی جانب بڑہنے والے معصوم بچوں کے بے
آسرا ہوجانے پرہر خواہش اور احساس مٹی میںمل جانے سے اس لمحہ ان رشتہ داروں
کا بس چلے تو سامنے پڑے بے جان جسم کے ساتھ ان کا لاشہ بھی قبر میں اُتار
دیا جائے کہ ان پیاروں کے بغیر اب وہ اس جیتی جاگتی دُنیا کے ساتھ کیسے جی
پائیں گے۔
اقتدار کا نشہءخودغرضی ،لالچ انسان کوتکبر اور ظلم میں مبتلا کر دیتا
ہے۔اُس کے دل،دماغ مقفل ہوجاتے ہیں پھرچیختے چلاتے معصوم بچے ،بھائیوں کے
لاشوں پرتڑپتی بہنیں،بڑھاپے کا سہارا چھن جانے والے باپ کے آنسواور عرشِ
معلی کو ہلِاکر رکھ دینے والی آہیں، روتی تڑپتی ممتا کی سدائیں ،خودغرضی
میں جکڑے، من مانی اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کرنے والے فرعون، شداد ،ہلاکو
اور چنگیزپر کچھ بھی اثرنہیںکرتیں۔سابقہ ڈِکٹیڑکے دورے حکومت میںنامور
سیاسی و مذہبی راہنماﺅںکے بہیمانہ قتل،فارسفورس بموں سے لال مسجدکی طالبات
جیسے انسانیت سوزواقعات ،جبرو تشدد اور بربریت کے باوجود کم و بیش یہی لوگ
برسرِاقتدار رہے ۔پھرگزشتہ پانچ سال سے ملکی سلامتی ،عوامی فلاح وبہبود ،
جان مال ،عزت آبرو کے تحفظ کا حلف اُٹھانے والی "مکمل جمہوری" حکومت اور
اُس کی "سدا بہار اقتداری"، اتحادی جماعتوںکی ناک کے نیچے نہتے شہریوں
کاقتل ِعام ہورہا ہے۔ گزشتہ سال ایک موقع پرپورے ملک اورتما م مکتب فکرکی
نگاہ میں یکسر قدرومنزلت کے حامل پاکستان کے جید علماءمشترکہ پریس کانفرنس
سے خطاب کے دوران کراچی میں مسلسل قتل ِعام کی شدیدمذمت کرتے ہوئے یہاں تک
کہہ دیا تھا کہ" لگتا ہے کہ قتل ِ عام حکومت کے ایماءپر ہورہاہے"۔
ابرہہ ہردورمیں ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابرہہ کا انجام بھی ہمیشہ ایک
ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اللہ کے قانون سے ٹکراتے ہیں اُن کا حشربُرا
ہوتا ہے۔ اقتدار ایک کسوٹی ہے۔ کھوٹ اِس پر فوراً ظاہرہوجاتا ہے۔ حکومت اور
اس میں شامل تمام سیاسی جماعتیں آپس میں نظریاتی ، سیاسی اختلافات کے
باوجود ،ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر پانچ سال تک مشترکہ طور پر شریک ِ
اقتدارہیں۔لیکن اس تما م عرصہ کے دوران فرقہ پرستی، سیاسی ،لسانی ،جماعتی
ترجیحات سے بالا ترہوکرکبھی کسی کی جانب سے سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی
بلکہ کوئٹہ ، کراچی سمیت ملک بھر میں طاقتور گروہوں کامجبور بے بس ،غریب
عوام کے حقوق سلب کرنے، املاک پر ناجائز قبضہ کی خاطرجلاﺅ گھیراﺅ،شورش اور
افراتفری پیدا کرکے قتل ِ عام کا بازار گرم کرنے کے باوجودانتظامیہ سے لے
کر پولیس اور رینجرز تک بے بس تماشائی بنے رہے اور دہشت گردوں کو کھلی چھٹی
ملی رہی۔ اس سارے عرصہ کے دوران حکومت کابدترین حالات کے باوجود اپنے
اقتدار کو بچانے کے لئے پُراسرارطورپر خاموش رہنا اور بگڑتے حالات کے سد
ِباب کے لئے کوئی واضح اور ٹھوس اقدامات نہ کرنا۔ یہ کیسی جمہوریت اور
انسانی حقوق کی پاسداری کاکونسا طریقہ ہے؟
حکومتی زعماءاور اتحادی جماعتوں کے سربراہان جنہوں نے عوام کی جان ،مال،
عزت آبرو اور حقوق کے تحفظ کی خاطر تقریریں فرما کر اپنے گلے بیٹھادئیے اور
اب پورے ملک اور قوم کا بھٹہ بیٹھا کربھی اس بات پر بضد ہیں کہ ان حالات
میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ان سادہ لوح راہنماﺅںاورحکمرانوں سے کوئی کہے
...... کہ
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ِ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے
عالمِ اسلام میںامن سکون عطاءفرما ۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔
اللَّھُمَّ الرحَم اُمَّةَ مُحمَّدِِرَحمَةََعَامَة ً ۔ اللَّھُمَّ اَصلِح
اُمَّةَ محمدِِ |