مسلم لیگ (ن) کی تدبیر کا ایک پہلو

مسلم لیگ (ن) کو داد دینی پڑے گی کہ یہ سیاسی جماعت ہر قدم اُٹھانے سے پہلے اپنا راستہ حِفظِ ماتقدَّم کے طور پرصاف کرتی ہے پھر قدم اُٹھاتی ہے۔ آج کے ماڈرن دور میں یہ لوگ اصولوں اور نظریات جیسی "دَقیانُوسی خرافات " میں ہرگز نہیں پڑتے۔ اس جماعت کے مالک ہر نئے چڑھتے سورج کےلیے پوری دانشمندی سے سورج مکھی بنے اور وقتی لہر میں فوراً شامل ہوئے۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ انھوں نے "مردِمومن" ضیاءالحق کے مشن اور جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کو عملی طور پر پورا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

ویسے تو مسلم لیگ (ن) کے "تدبیری پہلو" ان گنت ہیں مگر آج ہم صرف ایک پہلو پر مختصر سی روشنی ڈالیں گے۔

اگر اِس جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ پر یہ حقیقت پوری طرح وا ہو گی کہ اس سیاسی جماعت کا "صادق و امین" ججوں کے ساتھ "اصولی اتفاق" ایک کھلا سچ ہے ۔ہمارے انصاف کے مینار بھی اس جماعت کی رَمز کو خوب جانتے ہیں کہ" کرسیوا کھامیوہ"۔۔۔۔۔

آج جب نون لیگ نےنگراں وزیرِاعظم کے لیے دو ریٹائرڈ ججوں یعنی ناصر اسلم زاہد اور میاں شاکراللہ جان کے نام دئیے ہیں تو ہمیں نون لیگ کی اس باکمال تدبیرکاری میں شامل چند اور نام بھی یا د آگئے۔ جو آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔

1۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ (ریٹائرڈ )نسیم حسن شاہ: ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بینچ ممبر اور نوازشریف کی حکومت کو بحال کرنےوالے اس " عظیمُ القدر" جج کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا پریزیڈنٹ بنایا گیا۔ بعد میں اپریل 1999ء میں ان کے داماد جواد ایس خواجہ کو لاہور ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا جو کہ آج کل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے ساتھ مل کرپاکستانی قوم کو "انصاف" کی فراہمی میں اہم کردارادا کر رہے ہیں۔

جسٹس نسیم حسن شاہ پر نوازشات کا سیِل رواں جاری رہتا مگر وہ ایک بار ٹی وی پر اِقرار کر بیٹھے کہ مسلم لیگ (ن) کے معنوی باپ ضیاءالحق اور اُس وقت کے ججوں میں بھٹو شہید کے عدالتی قتل میں ملی بھگت تھی۔

2۔ جسٹس سپریم کورٹ ریٹائرڈ رفیق تارڑ: میاں برادران نے اپنے خلاف مقدمات کی سماعت رکوانے اور سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے جان چھڑانے کے لیےجسٹس رفیق تارڑ کے ذریعے ایسی چمک دکھائی کہ عدالتِ اعظمیٰ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور بریف کیس ججز کی اصطلاح قائم ہوئی۔ پھر میاں برادران نے ابا جی (میاں محمد شریف) کے حکم پر ان کو گراں قدر کارکردگی پر صدر ِپاکستان بنا دیا۔
3۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی: یہ وہی جج محترم ہیں جنھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کا عظیمُ الشّان کارنامہ انجام دیا ۔اور سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف دس ججوں کے ایک دھڑے کے سربراہ بنے۔ آصف علی زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جسٹس سعید الزمان صدیقی صدارتی امیدوار تھے۔ حالانکہ اس پارٹی کے سنئیر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کی خواہش تھی کہ وہ صدارتی امیدوار بنیں لیکن نواز شریف نے ان کی خواہش رد کردی ۔یہ بات ان میں رنجش کا باعث بنی اور جاوید ہاشمی تحریکِ انصاف میں چلے گئے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیئےکہ جاوید ہاشمی جیسے آدمی، جس نے پرویز مشرف کے دور میں نون لیگ کے لیے ساری صعوبتیں سہہ کر جھک ماری تھی، کوسبق سکھانا اور آئینہ دکھایا گیا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اس بزرگ سیاست دان کو ساری سیاسی زندگی شریف برادران کے ساتھ گذارنے پر بھی پتہ نہ چلا کہ کہاں"آئین و قانون " میں ساتھ دینے والا عالی مرتبت جج اور کہاں یہ نوازشریف کی نظر میں معمولی گنگوتیلی ۔

4۔ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ ریٹائرڈ خواجہ محمد شریف: اِس جج کی محبت شریف فیملی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اور وہ اس کا اعتراف اپنی کتاب میں بھی کرچکے ہیں۔ جب وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے تو کنڈکٹ آف کوڈ جیسی "فضول" چیز کی دھجیاں بکھیرتے ہوئےشریف برادران کے حق میں اور وفاقی حکومت کے خلاف کھلم کھلا "کھرے کھرے" سیاسی بیان دیا کرتے تھے۔

جج بننے سے پہلے خواجہ شریف، شریف فیملی کے وکیل رہ چکے ہیں۔1998ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بننے سے پہلے یہ شہباز شریف کےدورِحکومت میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تھے۔

جسٹس خواجہ شریف کا یہ کارنامہ بھی پُر شکوہ ہے کہ انھوں نے 110 مقدمات میں ملوث لشکرِ جھنگوی کے ملک اسحاق کو بری کیا جس نے بھر ی عدالت میں اہل تشیع کو خون میں نہلاکر 100 جنت کے ٹکٹ کنفرم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ ملک اسحاق وہ ہستی ہے ۔ جس نے میاں شہباز شریف کو بھکر سے بِلامقابلہ منتخب ہونے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔جس کے بعد وہ وزیرِاعلٰی پنجاب بنے تھے۔ سلمان تاثیرمرحوم کو قتل کرنے والے "غازی" ممتاز قادری کے وکیل کی سعادت بھی جسٹس خواجہ شریف کے پاس ہے۔
آج کل خواجہ شریف، جسٹس رفیق تارڑ (سابق صدرِ پاکستان) اورجسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کی طرح قانون جیسی فضول چیز کوقدموں تلے روندتے ہوئے جی او آر-1میں سرکاری رہاہش پر مقیم ہیں اور اپنی اعلٰی خدمات کے عوض انعام پا رہے ہیں۔

5۔ جسٹس سپریم کورٹ ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم: مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر چیف الیکشن کمیشنرآف پاکستان بننے سے پہلے فخرو بھائی نوازشریف کے مختلف مقدمات میں وکیل رہ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں فخروبھائی کی خدمات ابھی تک تو پوشیدہ ہی چل رہی ہیں۔ مگر چوہدری نثار کی دھمکی نما جھاڑکے سامنے فخرو بھائی کابھیگی بِلی بننا کافی کچھ سمجھا گیا ہے۔

6۔ جسٹس سپریم کورٹ ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد:مسلم لیگ (ن) کی طرف سے نگران حکومت کے لیے وزیرِاعظم کی پہلی چوائس ہیں۔ آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے کیسز (نواز شریف خود اقرار کر چکے ہیں کہ یہ کیسزآئی-ایس-آئی اور آرمی کے پریشر پر بنائے گئےتھے) کی جج کے طور پر سماعت کرتے رہے ہیں۔ اور ان کی صدرزرداری سے خاندانی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مزید براں وہ نوازشریف کے وکیل بھی رہے ہیں۔

7۔ جسٹس سپریم کورٹ ریٹائرڈمیاں شاکراللہ جان: نگران وزیراعظم کے لیے دوسرا نام نون لیگ کی طرف سے شاکراللہ جان کا آیاہے ۔ جسٹس شاکراللہ جان کے رنگ تو پوری قوم نے دیکھے جب جولائی 2012ءمیں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خالی ہونے والی نشست پر بطور سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج اور نگران چیف الیکشن کمیشنرآف پاکستان نے دکھائے۔ انتخابی مہم کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہورڈنگ بورڈز آویزں تھے ۔ شاکر اللہ جان الیکشن کو یقینی طور پر "منصفانہ" بنانے کے لیے "مفیدِ مطلب" نئے انتخابی ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے ساتھ ساتھ بذات خود ملتان تشریف لے جاتے رہےتھے۔ تا کہ کسی بھی "غلطی" کا احتمال نہ رہے۔ اِس حلقے میں انھو ں نے "مثبت" نتائج کے لیے 27000 ہزار ووٹ الیکشن سے پہلے ختم کرکے اور یہی ووٹ الیکشن کے بعد فہرست میں شامل کرکے عظیم کارنامہ انجام فرمایا۔

یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا کہ میاں شاکر اللہ جان فخرالدین جی ابراہیم سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کی پوسٹ کے لیےمسلم لیگ (ن) کی پہلی چوائس تھے اورانصاف کے مینار چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے دل کے چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن میں ان کی تشریف آوری کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو تند خوئی کے ساتھ تگنی کا ناچ نچانا فوری طور پر بند کردیاتھا۔
قارئین گرامی! آپ حیران ہوں گے کہ ہم نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدی کا نام نہیں لکھا۔ تو اس بارے میں عرض ہے کہ ان کا نام اور کردار تو الم نشرح ہے۔ اس لیے ان کا نام لکھنے یا نہ لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اکیلے پوری پارلیمنٹ پر بھاری ہیں اور چلتے پھرتے خود آئین ہیں۔ سمجھ لیں کہ ان کا دل آئین ہے۔ ان کی زبان آئین ہے۔ کیونکہ جو انھوں چاہا اور بولا، وہی آئین ٹھہرا۔

مُنصف مزاج ججوں نے ان چار سالوں میں میاں برادران کو ہوا کا ایک بھی گرم جھونکا تک نہیں لگنے دیا۔ چاہے اصغر خان کیس کے فیصلہ میں عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے کی ثابت شُدہ نیکی ہو ، شہباز شریف کی حکومت کو چار سال تک صرف حکم امتناعی پر چلانا ہو، شہباز شریف کی رنگیلا ٹائپ حکومت کے فلمی اقدامات ہوں،آٹھ قومی بنکوں کے قرضوں کی وصولی کے 24 سال سے زیرِ التواء مقدمے ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز، اتفاق فونڈریز اور رائے ونڈ میں غیرقانونی اثاثہ جات بنانے کے مقدمات ہوں یا چاہے حسین نواز شریف اورحسن نواز شریف کی بزنس ایمپائرز کھڑی کرنے کے لیے "حلال کمائی" کی منی لانڈرنگ جیسے "قانونی کام "کے خلاف کیسز۔ آزاد عدلہی میاں برادران کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یا ان کے تدبیری نیٹ ورک کے ذریعے دوسروں سے دائر کرائی گئی پٹیشنز پر فوری سماعت شروع کی گئی۔ مگر آزادعدلیہ نے دوسروں کی نیت جاننے کی اپنی مُنفرد صلاحیت کے بل بوتے پر نون لیگ کے خلاف جائز اور قانونی پٹیشنز کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا۔ بعض اوقات آزاد عدلیہ نے تدبیری اصولوں کی خاطر اپنے شرم و حیا کی قربانی دینے سے بھی انکار نہیں کیا۔ یعنی ہر صورت میں نون لیگ کو دکھ یا رنج پہنچانے سے سختی سے پرہیز کیا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت صادق و امین ججوں کا شریف برادران کے ساتھ" اصولی گٹھ جوڑ" پاکستان میں "انصاف" کی اصل بنیادہے۔ اِس لیے ان پی سی او یافتہ اور صاحِبِ ادراک ججوں نے شریف برادران کے احسان کا بدلہ خوب خوب چکایا ہے۔ انھوں نے اپنے دامادوں، بیٹوں سمیت اپنے اپنے لاء چیمبرز خالی کرکے ہم خیال اور صادق و امین جج بھرتی کر دیئے ہیں کہ اگر آج بھی صادق و امین ججوں کی بھرتی بند کر دی جائے تو مسلم لیگ (نون) کو 20-25 سال تک مزید "انصاف" ملتا رہے گا۔

جاتے جاتے ایک مثال سےآزاد عدلیہ کا شریف برادران سے رویہ سمجھتے جائیں ۔ ایک بار لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اعجاز چوہدری (اب سپریم کورٹ میں ہیں)نے بھری عدالت میں ڈائینگی وائرس کی نقلی سپرے کے فراڈ کے سلسلے میں سیکریٹری ہیلتھ سے کہا کہ جاکر میاں صاحب (شہباز شریف)سے پوچھ لیں کہ اگر ہم انکوائری کا آرڈر کردیں تو وہ ناراض تو نہیں ہو جائیں گے۔

قارئین گرامی! یہ تدبیری نیٹ ورک کے ایک چھوٹے سے پہلو کا ایک حصہ ہے۔ ہو سکتا ہے اس حصے کے لاتعد اد کردار ہمارے علم میں نہ ہوں۔ اور ویسے بھی اس پہلو کے تدبیری ہیروز کی تعداد ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہے جن کا گننا اتنا آسان بھی نہیں رہا۔ کیونکہ لگتا ہے کہ صادق و امین ججوں نے طے کر لیا ہے کہ انھوں نے وطنِ عزیز کے"اصل محافظوں" کے ہیروز کا ریکارڈ توڑنا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہیروز کے نام جسٹس محمد منیر، جسٹس یعقوب علی، جسٹس انوار الحق اور جسٹس مولوی مشتاق تک محدود نہ رہیں۔
Imam Buksh
About the Author: Imam Buksh Read More Articles by Imam Buksh: 8 Articles with 6280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.