انٹرا پارٹی الیکشن جمہوریت کی اصل روح

پاکستان میں جمہوری روایات کی مضبوطی کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاست کرنے والی سیاسی پارٹیوں میں بھی جمہوریت ہو ،تاکہ جو بھی لوگ محنتی ہوں اور پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہوں وہ اپنی ان صلاحیتوں کی وجہ سے آگے آ سکیں اور اگر صیحح معانوں میں پاکستان کو مضبوط بنانا ہے تو ان جماعتوں میں جمہوریت کو فروغ دینا ہو گا اور اس کے لئے پارٹیوں کے اندر صاف شفاف انتخابات کو فروغ دینا ہو گا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ پارٹی الیکشنوں کی نگرانی کا عمل الیکشن کمیشن کے ذریعے کی جائے تب ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ممکن ہے جو پارٹیوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق ) ایم کیو ایم اے این پی جمیعت علما ء اسلام(ف) ماسوائے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے تقریبا موروثی پارٹی ہی نظر آتی ہیں جن کی حالیہ مثال سیاسی پارٹیوں کے الیکشنوں میں دیکھنے کو بخوبی ملی ہے سیاسی جماعت چاہے حزبِ اقتدار کی ہو یا پھر حزبِ مخالف کی ، زیادہ تر جماعتوں میں ہونے والے انتخابات میں جماعت کے سربراہ کا چناؤ بلا مقابلہ ہی رہا ہے سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین بلامقابلہ مسلم لیگ ق کے دوبارہ صدر بن گئے جبکہ موجودہ نائب وزیر اعظم چودھری پرویز الٰہی مسلم لیگ ق کے بلامقابلہ صوبائی صدر منتخب ہوئے تھے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر دو ہزار دو کے تحت تمام سیاسی جماعتیں اپنی جماعت کے اندر یونین کونسل سے لے کر مرکزی عہدیداروں تک کے انتخابات کروانے کی پابند ہیں حکمران جماعت پیپلز پارٹی پارلیمنیٹرین کے چناؤ میں مخدوم امین فہیم چیئرمین جبکہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اس کے سیکرٹری جنرل چنے گئے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی بلا مقابلہ ہی اپنے جماعت مسلم لیگ نون کے مرکزی اور صوبائی سربراہ بنیں کیا کوئی مسلم لیگ (ن) میں ایسا رہنماء نہیں ہے جو میاں صاحبان کے خلاف پارٹی کی صدارت کا انتخاب لڑ سکتا ؟ کیا کوئی ایسا شخص پاکستان پیپلز پارٹی میں نہیں ہے جو ان کے بلا مقابلہ منتخب ہونے والے رہنماؤں کے خلاف الیکشن میں حصہ لیتا اسی طرح مسلم لیگ (ق ) ایم کیو ایم اور اے این پی کا بھی یہی المیہ ہے کہ ان پارٹیوں کے سربراہان کھبی بھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی پارٹی کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ جائے یہی وہ بڑا فیکٹ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ سے ہی کمزور رہی ہے کیونکہ اس کے برعکس امریکہ اور یورپی ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی کی سطح کے انتخابات اتنے منظم اور مضبوط ہوتے ہیں کہ اگر کوئی گراس روٹ لیول کا رہنماء جس میں قابلیت ہو تو وہ ملک کا اعلی ترین عہدیدار بن سکتا ہے یہ سب پارٹیوں کے اندر جمہوریت کی مضبوطی کی وجہ سے ہے جس کی بڑی مثال پاکستانی نژا د سعیدہ وارثی کی ہے کیا کھبی ہم اس بات کا تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی گراس روٹ لیول کا رہنماء پاکستان کا اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کر سکے؟ یقینا نہیں آج بھی اگر دیکھا جائے تو ہمارے سیاسی لیڈر ان مورثی سیاست کے قائل ہیں جس میں باپ کے بعد بیٹا اس کے بعد اس کا بیٹا یا کوئی اسی کا رشتہ دار ہی اسمبلی کا رکن ہوتا ہے ایسے میں ہم اس سسٹم کو تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی جمہوریت کو مضبوط کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمیں جمہوریت ملی اس کے اثرات ہم تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت کو عوام کے لئے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ بنا دیا جاتاہے اور جو بھی جمہوریت ہمیں دی جاتی وہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہی مورثی سیاسی پارٹیاں ہیں پاکستان کے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات کا عمل تیزی مکمل کررہی ہیں لیکن یہ سب کچھ صرف اور صرف الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سواء کچھ بھی نہیں ہے اور جس طرح کے پارٹی انتخابات پاکستان کی سیاسی پارٹیاں کروا رہی ہیں اور اپنے بیشتر عہدیداران کا چناؤ کر رہی ہیں ان سے جمہوری رویوں کی مضبوطی نہیں بلکہ جمہوری روایات کو کمزور کرنے کے مترادف ہے بیشتر سیاسی جماعتوں کے اندر جو انتخابات ہوئے ہیں وہ جمہوری روایات کے مطابق نہیں ہیں ان پارٹی انتخابات سے جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ حقیقت میں یہ انتخابات ڈمی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں ہر عہدے کے لیے کم از کم دو امیدوار ضرور سامنے آنے چاہیں کیونکہ جس عہدے کے لیے دو امیدوار نہ ہوں مثال کے طور پر مقابلہ نہ ہو اس کو جمہوری نہیں سمجھا جاتااور اور اہم بات یہ ہے کہ اگر ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں بڑے عہدوں پر دو امیدوار آمنے سامنے نہ ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ان سیاسی جماعت کے اندر متبادل قیادت نہیں ہے دوسرے لفظوں میں قیادت کا فقدان ہے یا پھر کچھ لوگ پارٹی کو اپنی وراثت سمجھتے ہیں اور جن سیاسی جماعتیں نے اندرونی انتخابات کروائے ان انتخابات میں قانون کی اصل روح پر عمل درآمد نہیں کیا گیا بلکہ ایک رسمی کارروائی یعنی خانہ پوری کی جاتی ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کروانے کے قانون میں سقم ہے جس کی وجہ سے جیسے بھی انتخابات ہوں الیکشن ان کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا اور اسے پارٹی انتخابات کے نتائج کو ہر حال میں تسلیم کرنا ہے۔تاہم پہلے کی نسبت آج سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی پابندی پر عمل کرایا جارہا ہے آئندہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات جمہوری روایات کے مطابق ہوں اور جس طرح کے انتخابات پاکستان تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کی جماعتوں میں منعقد ہوئے ہیں اس طرح کے انتخابات اگر مستقبل میں منعقد ہوتے رہے تو یقینا ایک نہ ایک دن پاکستان کی تمام جماعتوں کی بھاگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ آ جائے گی جو پاکستان کی مضبوطی کے لئے کردار ادا کر سکیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن جس طرح قومی انتخابات منعقد کرواتا ہے ایسے ہی ایک سسٹم ترتیب دیا جائے جو پاکستان کی تمام پارٹیوں میں انتخابات اپنی نگرانی میں کروانے کی ذمہ دار ہو اس کے لئے ایک وقت مقرر کیا جائے اور جو بھی پارٹیاں اپنے آپ میں جمہوریت اور جمہوری روایات کو پروان نہ چڑھا سکیں ان کے قومی انتخابات میں حصہ لینے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206922 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More