چند دن پہلے تھکا ہارا سونے کی تیاری کر رہا تھا، رات کا تقریباً ایک بج
چکا تھا کہ موبائل فون پر ایک بہت ہی پیارے دوست حاجی محمد اشرف کا میسج
ملا، اس نے لکھا تھا کہ ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور صبح 9 بجے تھانہ
نولکھا جانا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ اشرف بہت ہی شریف آدمی ہے اور
لڑائی، جھگڑے، تھانے و کچہری سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے
انجینئر ہے، کھانے پینے کا شوقین ہے لیکن بنیادی طور پر شریف آدمی ہے تو
اسے تھانے کیوں جانا پڑ رہا ہے۔ میں نے اسی وقت اشرف کو فون کیا اور پوچھا
کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے بتایا کہ اس کا برادر نسبتی محمد الیاس، لاہور
ریلوے سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں مینجر ہے اسے آج صبح سے پولیس نے گرفتار
کیا ہوا ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے پولیس والے اپنی گاڑی پر اس کے گھر لائے
تھے اور پھر مارتے ہوئے واپس تھانے لے گئے ہیں۔ وجہ پوچھی تو اس کے علم میں
بھی نہیں تھی۔ صبح اشرف نے دوبارہ فون کرکے بتایا کہ اس کی الیاس سے تھانے
میں ملاقات ہوگئی ہے، پولیس والوں نے اس پر بہت تشدد کیا اور ساری رات مار
پیٹ کرتے رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس کے ہوٹل میں ایک جاپانی شہری آکر ٹھہرا
ہوا تھا جس نے شکایت کی کہ اس کا لیپ ٹاپ کمپیوٹر اس کے کمرے سے غائب ہوگیا
تھا اور اس نے پرچہ درج کروا دیا ہے جس میں الیاس کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
دوسرے یہ کہ پولیس نے الیاس کی باقاعدہ گرفتاری نہیں ڈالی بلکہ روائتی
انداز میں اس کو غیر قانونی طور پر پکڑ کر زیر حراست رکھا گیا ہے اور پولیس
والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم مزید ایک ہفتہ اس کی گرفتاری نہیں ڈالیں گے۔
اشرف بہت پریشانی میں میرے پاس آیا اور سارے حالات بتائے، میں نے کہا کہ
ہمارے پاس قانونی طریقہ موجود ہے، عدالتیں آزاد ہوچکی ہیں اس لئے تم فکر مت
کرو ہم بیلف کے ذریعے الیاس کو برآمد کروا لیتے ہیں۔ اشرف کے ادھیڑ عمر سسر
بھی اس اثناء میں میرے دفتر پہنچ چکے تھے اور اپنے 28 سالہ نوجوان بیٹے کی
یوں غیر قانونی گرفتاری و حراست سے بہت پریشان تھے۔ میں نے ان کو بھی تسلی
دی اور اپنے ایک انتہائی مہربان دوست اور لاہور بار کے سابق جنرل سیکرٹری
لطیف سراء صاحب کو بھی اپنے دفتر میں بلا لیا اور ان کے توسط سے الیاس کی
غیر قانونی حراست کے خلاف رٹ پیٹیشن تیار کروالی۔ ابھی ہم اسے دائر کرنے
جانے والے تھے کہ اشرف کا اس کے ایک قریبی سسرالی عزیز سے لندن میں رابطہ
ہوا۔اس نے کہا کہ ابھی آپ کیس دائر نہ کریں، میرے کچھ تعلقات ہیں، میں کوشش
کرتا ہوں کہ پولیس والے الیاس کو چھوڑ دیں۔ چنانچہ وہ سارا دن ہم نے انتظار
میں گزار دیا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔ اگلے دن صبح سیشن کورٹ میں رٹ
دائر کی گئی، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب نے بیلف مقرر کیا اور بیلف نے الیاس
کو تھانہ نولکھا سے برآمد کرلیا جہاں اس کو غیر قانونی حراست میں بغیر
گرفتاری ڈالے رکھا گیا تھا۔ اس سے اگلے دن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب کی
عدالت میں الیاس بھی حاضر ہوا اور متعلقہ پولیس اہلکاران بھی SHO سمیت حاضر
تھے۔ وہاں الیاس کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی عدالت سے منظور کرائی گئی۔ جب
الیاس اور اس کے بوڑھے والد کو کچھ اطمینان ہوا تو الیاس نے اپنی کہانی
سنائی جس کو سن کر ایسا لگا کہ پاکستانی پولیس کے نزدیک انسانیت کی کتنی
اہمیت ہے۔ وہ اپنی ”دیہاڑی“ کے چکر میں کسی بھی شریف شہری کے ساتھ کیا
کرسکتے ہیں! الیاس نے بتایا کہ اس پر بے انتہا تشدد کے ساتھ ساتھ اس کے منہ
میں پیشاب ڈالا گیا۔ اس کا موبائل فون، پرس جس میں 11000 روپے موجود تھے
اور گھڑی پولیس نے چھین لی۔ اس کے بعد الیاس نے ہم سے سوال کیا کہ سر! کیا
اس ملک میں کسی غریب کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟ میں نے جواب دیا کہ اگر
آپ اور آپ کے گھر والے سٹینڈ لیں تو ہم آپ پر انسانیت سوز تشدد کرنے والے
پولیس اہلکاران کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہیں، پہلے تو الیاس مان گیا
لیکن جب اس نے یہ بات اپنے گھر والوں کو بتائی تو انہوں نے ہاتھ جوڑ دیے
اور کہا کہ ہم پولیس والوں سے ٹکر نہیں لے سکتے، ہم ”شریف“ لوگ ہیں۔ الیاس
نے اس موقع پر کہا کہ سر میں تو سٹینڈ لینے اور پولیس کے خلاف کارروائی
کرنے کو تیار ہوں لیکن میرے والدین اور باقی گھر والے نہیں مانتے، وہ کہتے
ہیں کہ تم ابھی ”بچے“ ہو اور تمہیں نہیں پتہ کہ پولیس والے کیا کچھ کرسکتے
ہیں۔ الیاس نے کہا کہ میں مجبور ہوں اور پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی
نہیں کروں گا۔ اس کے بعد پولیس نے الیاس سمیت دیگر دو ملزمان سے پچاس ہزار
روپے مزید وصول کئے اور مدعی (جاپانی شہری) نے کیس واپس لے لیا۔ الیاس نے
اس میں پچیس ہزار روپے ادا کئے تھے۔ یعنی ظلم بھی اس معصوم پر ہوا اور سزا
بھی اسے ہی ملی۔ الیاس نے روتے ہوئے مجھ سے معذرت کی اور دوبارہ کہا کہ سر
میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ ہم شریف لوگ ہیں اس لئے پولیس سے ”متھا“ نہیں
لگا سکتے، لیکن سر میں کہتا ہوں کہ جیسا سلوک میرے ساتھ ہوا ہے ایسا سلوک
کسی اور کے ساتھ ہو تو شاید وہ تھانے میں جا کر خودکش دھماکہ کردے، سر!
شرافت اور بزدلی میں کچھ فرق تو ہونا چاہئے نا |