لاہور کے رہنے والے مسٹر پرویز
ناصر بٹ نے ۲ ستمبر کی تاریخ شام کو ایک نجی کمپنی کا تیار کردہ بناسپتی
گھی کا پانچ کلو گرام وزنی ڈبہّ خریدا تو انہیں احساس تک نہ تھا کہ ڈبے میں
گھی کے علاوہ ایک ایسی نادر و نایاب شے بند ہے جو بالعموم گھی کے ڈبوں سے
برآمد نہیں ہوتی۔ یہ توکمپنی والوں کا کمال ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو
خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنے کیلئے اِس قدر اہتمام کرتے ہیں۔ ورنہ دیکھا
یہی گیا ہے کہ گھی کے ڈبّوں سے سوائے گھی کے اور کچھ برآمد نہیں ہوتا اور
ڈبہ کھولنے والا اپنا سا منہ لیکررہ جاتا ہے۔
ہوا یوں کہ بٹ صاحب ڈبہّ لے کر گھرپہنچے توپُرانے ڈبے میں ابھی کچھ گھی
باقی تھاجوسات ستمبر کوختم ہوا۔چنانچہ سات ستمبر کو جمعے کے مبارک دِن کی
مُناسبت سے اِس ڈبے کو کھولنے کا حتمی فیصلہ کر لیاگیا۔ وہ روزِ عید بھی
تھا۔ گھر والوں کاخیال تھا کہ عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے ضروری ہے
کہ یہ ڈبہّ عید کے روز کھولا جائے۔ چنانچہ نمازِ عید کے بعد تمام افرادِ
خانہ کی موجودگی میں اِس ڈبے کی رسم افتتاح ادا کرنے کے انتظامات کوآخری
شکل دینے کے بعد اللہ کا نام لے کر یہ ڈبہ کھول دیا گیا۔
یہ مبارک کام بٹ صاحب نے اپنے ہاتھوں سے چھینی اور ہتھوڑی کی مدد سے
سرانجام دیا۔ مبارک، سلامت کی آوازوں کے شورمیں بٹ صاحب نے گھی کی سطح پر
نظر ڈالی تواُنہیں رگوں میں خُون جمتا محسوس ہوا۔ اُنہوں نے دیکھا کہ سطح
پر ایک عجیب و غریب شے تیر رہی ہے۔
اُن کا رنگ زرد پڑتے دیکھ کر بٹ صاحب کی والدہ اور بہن آگے بڑھیں۔ ڈبے کے
اندر والے منظر کو دیکھ کر ابن معزز خواتین کی چیخ نکل گئی۔ ’’چھپکلی!
چھپکلی!‘‘ اِن کے منہ سے بے اختیارنکلا۔ خواتین کو دہشت زدہ دیکھ کر بٹ
صاحب نے ہوش و حواس مجتمع کیے اور ایک چمچ کی مدد سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے
وہ چیز نکال کر ایک پلیٹ میں رکھ دی۔
اِس پر نظر پڑتے ہی بچے خوف زدہ ہو کر کمرے سے باہر بھاگ گئے۔ بٹ صاحب بھی
بچوں کے پیچھے جانا چاہتے تھے لیکن اپنی مردانگی کا بھرم رکھنے کی خاطر
وہیں کھڑے رہے۔
’’یہ چیز چھپکلی نہیں ہو سکتی!‘‘ بٹ صاحب نے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر یہ کیا ہے؟‘‘ بٹ صاحب کی ہمشیرہ نے پوچھا۔
’’یہ تو فی الحال نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کیا ہے، لیکن اِس کی شکل چھپکلی
سے ہرگز نہیں ملتی۔‘‘ بٹ صاحب نے کہا۔
’’تو پھر اِس کی شکل کس سے ملتی ہے؟‘‘ اُن کی والدہ نے پوچھا۔
یہ باتیں جاری تھیں کہ بٹ صاحب کا چھوٹا بھائی جو پنجاب یونیورسٹی میں
حیوانیات میں ایم ایس سی کر رہا ہے، عید پڑھ کر واپس آگیا۔ اُسے صورتِ حال
کا پتہ چلا تو وہ الماری سے خوردبین نکال لایا۔ اُس شے کوچاروں طرف سے
بغوردیکھنے کے بعد وہ بولا۔‘‘ یہ سچ ہے کہ اِس جانور کی بے شمار ٹانگیں اور
کئی منہ ہیں لیکن اِس قسم کا جانورآج تک ایم ایس سی زوالوجی کے کورس میں
داخل نہیں ہوا۔ ممکن ہے اِس کا تعلق پی ایچ ڈی کی ڈگری سے ہو۔‘‘
’’بہانے مت بناؤ‘‘، بٹ صاحب نے بھائی کو ڈانٹا، ’’اگر تم نے اپنی کتابیں
غورسے پڑھی ہوتیں تو آج ہم اِس اُلجھن میں نہ پڑتے‘‘۔
یہ سن کر وہ برخوردار اپنا آلاتِ جراّحی کا بکس اُٹھا لایا۔ اُس نے نہایت
احتیاط سے اِس جانور کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا اور ربڑ کے دستانے پہن کر اِس
عجیب الخلقت جانور کی چیرپھاڑ میں لگ گیا۔ تمام گھر والے سانس روکے اُسے
دیکھ رہے تھے۔ جلد ہی اِس ہونہار طالب علم نے دُودھ کا دُودھ اور پانی کا
پانی الگ کر دکھایا۔
یہ جانور اپنی ذات میں مکمل اکائی نہیں تھا بلکہ ایک رنگ اور نسل کے دس
کیڑوں سے مل کر بنا تھا۔ بٹ صاحب کے بھائی نے دس پندرہ منٹ کی محنت کے بعد
دس کے دس کیڑے الگ کرکے رکھ دیئے۔ اِس کارنامے پر بٹ صاحب نے اپنے بھائی
کوشاباش دی۔
اب پرویز بٹ صاحب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کمپنی کے ماہرین خوراک کے ہاتھ یہ
کیڑے کیسے لگے انہوں نے کیسے انہیں یک جاکیا اور کیسے وہ انہیں گھی کے ڈبے
میں داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نیز وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کیڑوں
میں کون کون سے وٹامن پائے جاتے ہیں۔ |