آندھیاں غم کی یُوں چلیں باغ اُجڑ کے رہ گیا

غم کی جن آندھیوں کا ذکرہم آج کر رہے ہیں یہ 5مارچ کو بہاولپور شہر میں چلی تھیں۔ اگرچہ اب ان آندھیوں کا زور کافی حد تک ٹوٹ چکا ہے لیکن باغ کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔ باغ کے تمام چھوٹے بڑے پودے اوردرخت وغیرہ جڑوں سے اُکھڑ کر یوں راہِ فرار اختیار کر گئے ہیں کہ اب ڈھونڈے سے بھی اُن کا نشان نہیں ملتا۔ ۲۵ دسمبر تک جس باغ میں اُمیدوں کی کلیاں اور آرزو کے پھول کھِلنے کو پَر تول رہے تھے آج وہاں بادِ سموم چل رہی ہے اور آسمان سے حسرت و یاس کی بارش ہو رہی ہے۔

اِس باغ کا مالک ایک ستّر سالہ دولہا ہے جسے اُس وقت مایوس اور دِل شکستہ واپس جانا پڑا جب اِس کی سولہ سالہ دُلہن اپنے معمّر دُولہا کو دیکھ کر روتی چلاّتی اور’’جَلّ تُو جلال توُ، آئی بَلا ٹال تُو‘‘ کا وِرد کرتے ہوئے راہِ فرار اختیار کر گئی۔ اس موقع پر وہاں ہنگامہ برپا ہو گیا اور شادی میں شریک ہر شخص بڑے میاں کو کوسنے لگے ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنھیں چائے اور کوکا کولا وغیرہ کھلا پلا کر اُس نے برات میں شامل ہونے پر آمادہ کیا تھا۔وہ بھی حالات کا بدلا ہوا رُخ دیکھ کر اس مرد نحیف و نزار کے مخالفین میں شامل ہو کر لعن طعن کرنے لگے۔
ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

معاشرے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ظالم ہوتا ہے اور جوں ہی اسے موقع ملتا ہے ظلم کرنے سے بازنہیں رہتا۔ چنانچہ جب مذکورہ بالا دُولہا کی برات دُلہن کے گھر پہنچی، محلے کے چند لوگوں نے ’’لڑکے‘‘ کو دیکھ کر شور مچادیا اور کہا کہ یہ ظلم ہے۔ اس کے جواب میں ’لڑکا‘ عصا کا سہارا لیتے ہوئے اُٹھا اور اپنارعشہ زدہ ہاتھ بلند کرکے لرزتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’ظالمو! ظلم کیوں کرتے ہو۔۔۔؟ میں لڑکی کو اغوا۔۔۔ ہونہہ ہونہہ۔۔۔ اغوا کرنے تو نہیں۔۔۔ ہونہہ ہونہہ۔۔۔ نہیں آیا۔ میں تو ۔۔۔ کھوں کھوں۔۔۔ میں تو شریعت کے عین مطابق ۔۔۔ کھوں کھوں۔۔۔ نکاح۔۔۔ ہونہہ ہونہہ۔۔۔ نکاح کرنے آیا ہوں‘‘۔

لیکن افسوس ظالم معاشرے پر اس وزنی دلیل کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے اُلٹا ہنگامہ برپا کر دیا۔ شور و غُل سُن کر کئی اور تماشبین بھی وہاں جمع ہوگئے اور پھر تو وہ طوفانِ بدتمیزی دیکھنے میں آیا کہ شادیوں کی تاریخ میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔حتیٰ کہ اس کے سامنے ہماری پنجابی فلموں کا وہ مشہور و معروف سین بھی ماند پڑ گیا جس میں عین نکاح خوانی کے وقت وِلن اور اُس کے چند ساتھی گھوڑوں پر سوار آدھمکتے ہیں اور وِلن پُوری طاقت سے نعرہ زن ہوتا ہے‘‘۔ ایہہ شادی نئیں ہو سکدی۔

اِس سین میں تو بالعموم ایک بڑا وِلن اور چار چھ چھوٹے ولن ہوتے ہیں لیکن اس بزرگوار کی شادی کو خانہ بربادی میں تبدیل کرنے کیلئے محلے میں موجود ہر شخص نے سراپا وِلن بن کرہیرو کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور وہ غریب زیرِ لب یہ گانا گاتے ہوئے واپس چل دیا۔
ع کہیں دو دِل جو مِل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا

یوں تو کئی اور فلمی گانے بھی موقع محل کی مناسبت سے گائے جا سکتے تھے لیکن بڑے میاں کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ اُنہیں یہی گانا پسند ہے۔ اگر اُن کی جگہ میں ہوتا تو اِس گانے کو ترجیح دیتا ؂
بے درد زمانے والوں نے کب دردکسی کا جانا ہے
اِس جگ سے کوئی اُمید نہ کر، یہ جھوٹا ہے بیگانہ ہے

اور اگر میں اُن تماش بینوں میں شامل ہوتا تو بڑے میاں کو واپس جاتے ہوئے دیکھ کر یہ شعر ضرور پڑھتا ؂
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

لیکن ٹھہرئیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ شعر مناسب نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اُس بزرگوار کو تو شبِ غم گزارنے کا موقع ہی نہ ملا اور اہلِ محلہ نے انہیں شام سے پیشترہی چلتا کر دیا۔ افسوس! کسی کو اُس غریب کے بڑھاپے پر بھی ترس نہ آیا۔ اس کا بڑھاپا بُرا لگا تھا تو اُس کے بچپنے پر ہی رحم کھا لیا ہوتا۔
Prof. Muzaffar Bokhari
About the Author: Prof. Muzaffar Bokhari Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.