مزاج انسانی کے معاشرے پر اثرات

لفظ مزاج جسے انگریزی میں temperamentیاtemperکہتے ہیں ۔چار حروف پر مشتمل یہ لفظ ایک وسیع معانی و مفہوم کا حامل ہے ۔میں دیکھ رہاہوں کہ معاشرے میں بدلتے رویے اور مزاج معاشرے کے لیے ناسور بنتے چلے جارہے ہیں ۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ مزاج بدلنے کے محرک کیا ہے ۔یوں تو کئی محرکات ہیں لیکن مختصر سی تحریر میں سب کا احاطہ ممکن نہیں ۔وہ اہم چیزیں جو مزاج کی ساکھ کو گزند یا مزاج بدلتی ہیں ۔ان پر قلم دوست رویے کے پیش ِ نظر رائے عامہ ہموار عام کرنے اور بیدارء امّت کے جذبہ سے کچھ قلمبند کرنا اپنا فرض جانتے ہوئے حاضر خدمت ہوں ۔

محترم قارئین :آج معاشرے میں پنپنے والے سینکڑوں مسائل کا محرک مزاج بنتاہے ۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ہم بس میں سفر کرتے ہیں ۔ہمارے ساتھ کھڑا شخص ہمیں کہتاہے کہ بھائی جان ساتھ ہوجائیے ۔تو ہم اس کی مجبوری سمجھے بغیر اسے انا کا مسئلہ بناکر اس زہر میں بجھے الفاظوں سے حملہ کردیتے ہیں نوبت ہاتھا پائی تک آجاتی ہے ۔یعنی مزاج میں ترشی ،خشکی نہ ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی ۔اب غور طلب یہ امر ہے کہ مزاج کی تبدیلی میں کیا عناصر کارفرماہوتے ہیں ۔

معاشرے میں جب مقصود پر ضرورتوں کو ترجیح جاتی ہے تو ان معاشروں میں مزاج میں بگاڑ پیدا ہوتاہے ۔کیونکہ ہر چیز اپنے مقام پر رکھتی اچھی لگتی ہے ۔ضرورت ،ضرورت رہے اور اہداف و مقصود ،اہداف و مقصود رہیں ۔اسی طرح مزاج کی تبدیلی میں موسمی تبدیلی بھی ہے۔سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ۔اگر والدین اولاد کی تربیت میں کاہلی سے کام لیں گئے ۔گھر کے ماحول میں تلخیاں ہوں گی تو بچہ ان معاملات کو سمجھ تو نہیں رہاہوتا لیکن اس کے مضراثرات غیر محسوس انداز میں قبول ضرور کرتاہے ۔جو کہ بتدریج اس کی شخصیت کا حصّہ بنتے چلے جاتے ہیں ۔باالاخریہی بچہ بڑا ہوکر اپنے ترش لہجے ،تنگ مزاج کی وجہ سے اپنا مقام کھوجاتاہے اور دوسروں کے لیے درد سر بن جاتاہے ۔

مادیت کی دوڑمیں جب مقابلہ کی سمت شان و شوکت اور اعلی منصب مال و ثروت کا حصول بن جاتاہے یعنی اعصاب پر زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول اودوسروں کو نیچا دکھانے کی فکر عام ہونے لگے تو مزاج میں بہت تلخی آجاتی ہے ۔یعنی معلوم ہوا کہ مزاج کو بدلنے میں اعصاب کا قلیدی کردار ہے ۔جتنی نفیس فکر ہوگی مزاج بھی ویساہی ہوگا۔ہمارے ہاں ایک بہت بڑا سانحہ ہے کہ ہماری ترجیحات کچھ ایسی بنتی چلی جارہی ہیں کہ خطاء فکر کی وجہ سے رویہ مزاج اپنی حقیقی اقدار سے گرتاچلاجارہاہے ۔ایک درسگاہ کی مثال لے لیجے ۔کہ ہماری ترجیحات میں ہے کہ میں پڑھوں ،اچھے نمبر آئیں ۔اعلیٰ تعلیم کے بعد اعلی منصب مل جائے ۔اس فکر کی ابتداسے انتہاتک ایک بنیادی اور اہم آلہ استاد اسے ہم خاطر میں نہیں لاتے ۔ادب و تعظیم ،لب و لہجے کی نرمی ،خوشی مزاج ماند پڑتی چلی جارہی ہے کہ استاد کی تذلیل عام ہوتی چلی جارہی ہے ۔مزاج میں یہ لاابالی پن اس لیے آیا کہ ہماری ترجیحات و اہداف ایسے تھے کہ جس کے بدلے میں ایساتو ہوناتھا۔استاد کی ثانی اہمیت ہوگئی ۔اس آلہ علم کے معمار تراشے تو مضبوط عمارات کی بجائے مٹی کا مجسمہ تعبیرپایا۔

رویہ ،مزاج انسانیت شخصیت کا آئینہ ہے جس میں اصل چہرہ نظر آتاہے ۔شخصیت کا ادراک ہوتاہے ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر گردنیں سرتن سے جدا ہوجاتی ہیں ۔عام سی اختلاف رائے پر موت کے گھاٹ اتار دیاجاتاہے ۔ذراسے تکلیف پر عبرتناک سبق سیکھا دیاجاتاہے ۔یہ سب کیا ہے یہ مزاج ہے لوگوں کا ،یہ رویہ ہے لوگوں کا۔گالم گلوچ اور حد ادب سے گری ہوئی گفتگو،فحاشی و عریانی کی نحوست سے بھرپور جملے ،طعن و تشنیع میں لتھڑے قول ،یہ سب رویوں کی مختلف کیفیتیں ہیں ۔اسی وجہ سے آج ہر شخص پریشان ہے ۔باپ کی بیٹے سے اور بیٹے کی باپ سے توقعات ختم ہوگئی ہیں ۔ہمدردی ،رواداری کی کلیاں سوکھ گئی ہیں ۔عجیب حالات ہیں
اسی فکر میں غنچے زرد ہوئے
اسی سوچ میں کلیاں سوکھ گئیں
آئین گلستاں کیا ہوگی
دستورِ بہاراں کی ہوگا

محترم قارئین:
انسانی شخصیت کی تعمیر میں یقیناً رویے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔اگر آپ کے رویے مثبت ہیں تو بقول شخصے آپ ایک ہر دلعزیز شخصیت کی مالک کہلائیں گی اور اگر آپ کے رویے منفی ہیں تو بقول شخصے جسمانی، جذباتی اور عقلی اعتبار سے آپ ایک کمزور شخصیت سمجھی جائیں گی۔ اپنی شخصیت کو ایسے سجائیے جیسے پرفیوم کی بھینی بھینی خوشبو لوگوں کو آپ کے معطر وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ اسی طرح آپ کا مثبت رویہ بھی انھیں آپ کے ہونے کا احساس دلاتا رہے گا۔ باعث زحمت بننے سے کہیں اچھا ہے کہ باعث رحمت بنا جائے اور اپنے حصے کی نیکیاں حاصل کی جائیں۔اک اہم اور قابل غور بات وہ یہ کہ دوسروں کو بدلنے اور اپنی امیدوں پر پورا اتروانے کی بجائے خود معاشرے میں اپنے اچھے اور مثبت رویے کا کردار واضح کیجئے کیونکہ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کا رویہ ہمیشہ ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔

منفی ذہنیت کے لوگ دوسروں سے صرف اور صرف منفی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ (وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہر شخص انہیں دھوکہ دینے کے لئے کمربستہ ہے۔) یہ منفی ذہنیت بسا اوقات اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ ایک اچھا خاصا مثبت طرز فکر رکھنے والا شخص بھی ان کا شکار ہو جاتا ہے۔ منفی ذہنیت والے افراد نہ تو خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ منفی ذہنیت کے پیچھے جسمانی، جذباتی اور عقلی اعتبار سے ایک کمزور شخصیت ہوتی ہے۔اسی اعتبار سے اس کے الفاظ ،اس کی گفتگو ،اس کا ریہ ہوتاچلاجاتاہے نتیجۃ اسے ندامت و پشیمانی ہی ہوتی ہے۔وہ دوسروں سے کٹنے لگتاہے حالانکہ وہ معاشرتی حیوان ہے ۔ہر حیوان سے اس کا باالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے ۔

محترم قارئین: مثبت طرز عمل ہی زندگی کی ضمانت ہے!اگر طائرانہ نظر دوڑائیں تو آپ دیکھیں گئے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت منفی رویوں کے محدود خول میں بند رہ کر زندگی گزارتی ہے۔ ایسے لوگ ان بند پنجروں سے باہر جھانکنے اور نکلنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے۔ وہ مثبت رویوں کی نشاط انگیز اور فرحت بخش قوت سے لطف اندوز ہونے سے زندگی بھر محروم رہتے ہیں۔ جو لوگ ہمیشہ مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ مثبت سوچ اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بار بار ملنا چاہتے ہیں، ان سے ہمیشہ مثبت توقعات رکھی جاتی ہیں اور اس کے برعکس جولوگ ہمیشہ منفی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ منفی سوچ اور شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں اچھی شہرت کے حامل نہیں رہتے۔اپنے مزاج ،رویے ،کردار و گفتار سے دلوں کو مسخر کرنے کا ہنر سیکھیے ۔سب دنیا آپ کی تابع ہوجائے گی۔جی ہاں !آج اور ابھی سے یہ عہد کرلیجیے کہ اپنے مزاج ورویے میں تلخی نہیں لائیں گئے ۔مثبت فکر اور مثبت رویہ کو اپناتے ہوئے ملک و ملّت کے لیے سرمائیہ افتخار بنیں گئے۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544487 views i am scholar.serve the humainbeing... View More