ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ کانگریس کے راج میں مسلمان محفوظ و مامون
ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا دعویٰ محض ایک خوش فہمی ہے اسی لئے بعض
حلقوں میں یہاں تک کہا جارہا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے
دورخ ہیں۔ آج جو حالات درپیش ہیں وہ کانگریس کے اصل چہرے کو ظاہر کررہے ہیں۔
مسلمانان ہند کے لئے حالات خاصے پریشان کن نظر آتے ہیں۔ ہندوتوا کی
علمبردار بی جے پی کا زور کانگریس کی نااہلی، کرپشن اور بد انتظامی کی وجہ
سے بڑھ رہا ہے۔ آنے والے انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ
روشن نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی کانگریس سے بڑھتی ہوئی دوریاں بھی کانگریس کے
لئے تشویشناک ہیں۔ کانگریس کو مسلمانوں کے مفادات فلاح و بہبود سے کوئی
دلچسپی نہیں ہے۔ مسلمانوں سے بیشتر معاملات میں امتیاز برتا جاتا ہے ۔
مسلمان دو عملی، دوہرے معیا ر کا کس طرح شکار ہورہے ہیں اس کی بے شمار
مثالیں ہیں۔ اس پر تو کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن ہم صڑف چند اہم پر اکتفا
کریں گے۔
بعض دیگر سیکولر پارٹیاں بھی کانگریس کی حکمت عملی پر چل رہی ہیں۔ نتیش
کمار اور جے دی یو کا سیکولرازم تو ہمیشہ سے ہی نہ صرف مشکوک رہا بلکہ
ناقابل بھروسہ رہا ہے۔ حادثہ گودھرا کے وقت (2002ء ) نتیش کمار کا ریلوے
منسٹر کی حیثیت سے جو رول رہا ہے جس طرح مودی نے قتل عام کروایا تھا اس کے
حوالے سے مودی کو قاتل اور نتیش کمار کو ’’آلہ ٔ قتل‘‘ کہا جاتا ہے۔
ملائم سنگھ یادو کے ہم اس وقت سے مداح رہے ہیں جب ان کو یو پی میں مولوی یا
مولانا ملائم کہا جاتا تھا لیکن اب ملائم سنگھ یادو کے بھی تیور بدل رہے
ہیں۔ مایا دیوی کی وجہ سے انہوں نے جب بی جے پی کی حمایت قبول کی تو بابری
مسجد کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق وہ آرڈیننس جاری نہیں کیا جو
وہ اگر جاری ردیتے تو بابری مسجد کے مقدمات کی سماعت آسان ہوتی۔ اس معاملے
میں انہوں نے راج ناتھ سنگھ اور مایا دیوی کی تقلید کرکے ان کی صف میں شامل
ہوگئے۔ اس کے بعد کلیان سنگھ سے امرسنگھ کی زیر ترغیب اتحاد کرکے مسلمانوں
سے دوری اختیار کرنے کا اندوہناک قدم اٹھایا اور مسلمانوں کے ووٹس سے محروم
ہوکر پھر مسلمانوں کے آگے کاسہ بڑھایا کہ وہ ملائم کو ووٹ دیں۔ مسلمانوں نے
یو پی میں ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے
بعد سلسلہ وار فسادات کی وجہ سے سماج وادی پارٹی نئے وزیر اعلیٰ اکھلیش اور
خو د ملائم سنگھ کی ساکھ یو پی کے مسلمانوں میں خاصی حدتک متاثر ہوئی لیکن
پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت ملائم سے برگشتہ نہیں ہوئی گوکہ اکھلیش کی
کابینہ میں راجو بھیا جیسے مسلم دشمن اور ہندوتوادی کی موجودگی سے مسلمان
خوش نہیں تھے لیکن جب ملائم نے شرائط کے تحت سہی بی جے پی سے مفاہمت کی بات
کی تو ان سے بی جے پی کے روابط یا ان کے دل میں بی جے پی کے لئے نرم گوشوں
کی موجودگی کے شبہات زیادہ مضبوط ہورہے ہیں۔ ملائم سنگھ کو ضرور یہ خیال
آتا ہے کہ جب نتیش کمار وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوسکتے تو وہ بھی ہوسکتے
ہیں۔ لیکن نتیش کمار کے ماتھے پر بی جے پی کے حلیف ہونے کا کلنک شائد ہی مٹ
سکے ۔ کیا اسی غلاظت کا کلنک ملائم اپنے ماتھے پر پسند کریں گے؟
ورون گاندھی کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے مسلمانوں کو دھمکیاں دینے
اور ڈرانے والی تقریر کے الزامات سے پیلی بھیت (یو پی) کی عدالت نے بری
کردیا۔ اس سلسلے میں استغاثہ کی کمزوری، عدالت کی جانبداری گواہوں کے
انحراف، تقریر کے ویڈیو اور آواز کے تصدیقی ٹسٹ کی پیش کشی سے گریز مجلس کے
قائد اکبر الدین اویسی کی ایک تقریر کے خلاف آندھراپردیش کی پولیس کی جگہ
جگہ تفتیش ویڈیو اور یوٹیوبس کی بھرمار، ہر جگہ آواز کا ٹسٹ اور دفعہ 153A
کے ساتھ ملک سے غداری اور مملکت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات عائد کرکے
ایم آئی ایم کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے کو دیکھتے ہوئے ورون گاندھی
کے خلاف کمزور مقدمہ تیار کرنا بھی بی جے پی سے قریب ہونے کی سماج وادی
پارٹی خواہش کا اظہار ہوتا نظر آتا ہے(اﷲ کرے ہمارا خیال انشاء اﷲ تعالیٰ
غلط ثابت ہو (آمین)۔ ملائم سنگھ یاد رکھیں کہ اگر وہ بی جے پی سے عملاً
قریب ہونے یا اتحاد کرنے، این ڈی اے میں شامل ہونے کی سوچیں بھی تو وہ مسلم
ووٹ بینک کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گے!
دو عملی اور دوہرے معیار اور مسلمانوں سے امتیاز کی مثالیں تو کانگریس کا
طرۂ امتیاز رہا ہے اور ہے۔ ہم ماضی بعید اور ماضی قریب کو نظر انداز کرکے
حال حال کی باتیں کریں گے۔ مہاراشٹرا میں بال ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کی
مذہبی ہی نہیں بلکہ لسانی و علاقائی تعصب و نفرت پھیلانے والی باتیں،
تقاریر اور اقدامات کا تفصیلی نہ سہی سرسری جائزہ لیں اور یاد کریں کہ
ممبئی اور مہاراشٹرا میں ٹھاکرے خاندان کے افراد، ان کی سیناؤں کی نچلی
قیادت اور کارکنوں کی غنڈہ گردی، پرتشدد دھاندلیوں کے خلاف کبھی کوئی سخت
اقدام مہاراشٹرا کی کانگریسی حکومتیں نے لیا ہو۔ جواب بلاشبہ نفی میں ہے۔
کیا کوئی مسلمان (اردو نہیں) مرہٹی زبان(مسلمانوں نہیں) ممبئی کروں کے حقوق
کی حفاظت کے لئے بھلے ہی غنڈہ گردی اور پرتشدد دھاندلیاں نہ کرتا ہو صرف
ٹھاکرے انداز میں نفرت انگیز جوشیلی تقاریر بہاریوں، شمالی ہندوالوں کے
خلاف کرتا تو اس کا کیا حشر ہوتا؟
اگر کوئی ہندو آئی جی کرکرے کے قتل کے بارے میں اور اسلامی دہشت گردی کے
بارے میں کوئی ایسی کتاب لکھا جو ہندو دہشت گردی بلکہ ہندوتوا کے
علمبرداروں کی دہشت گردی کے بارے میں سابق آئی جی مہاراشٹرا ایس ایم مشرف
نے Who Killed Karkareکے نام سے لکھی ہے تو سنگھ پریوار کے زیر اثر میڈیا
اس کو بھی مشرف کی کتاب کی طرح نظر انداز کرتا؟
صدر جمہوریہ کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد کئے جانے کے بعد بھی مجرم کو
سپریم کورٹ میں آخری اپیل کا حق ملتا ہے۔ پاکستانی دہشت گرد قصاب کو یہ حق
نہیں دیا گیا گوکہ یہ ہمارے نظاام عدل و انصاف کے مغائر ہے لیکن حکومت کی
یہ غلطی درگذر کردی گئی نہ ہی کسی نے یہ مسئلہ اٹھایا(نہ ہی ضرورت تھی) کسی
کو قصاب سے ملک میں ہمدردی نہیں ہے۔
لیکن افضل گرو کی پھانسی جہاں اور وجوہات سے متنازع خیال کی جاتی ہے اس میں
یہ وجہ شامل ہے۔ کسی اور مجرم کے ساتھ اس قسم کی زیادتی نہیں کی گئی۔
پھانسی دئے جانے والے بندے کو اس کے تمام عزیز و اقارب سے ملنے کا موقع
دینا یا آخری ملاقات کروانا حکومت کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ افضل گرو مرحوم
کے افراد خاندان کو ڈٓک سے اطلاع دے کر اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ افضل
گرو کسی سے نہ مل سکیں۔ کسی مجرم کے ساتھ یہ غیر انسانی حرکت آزاد ہندوستان
میں نہیں ہوئی تو یہی حکومت کا دہورا معیار ہے۔ مرنے والے کی لاش پر اس کے
وارثوں کا قانونی حق ہے کہ وہ جہاں چاہیں اس کی تدفین کریں ۔ ہاں نقص امن
سے بچنے کے لئے عام لوگوں کو جلوس جنازہ یا تدفین میں شرکت سے روکا جاسکتا
ہے لیکن حکومت کو وہ بھی جیل میں کسی کی تدفین کا حق نہیں ہے۔ یہاں بھی
افضل گرو کے ساتھ جو زیادتی ہوئی وہ دوہرے معیار و عمل کی بدترین مثال ہے۔
جو افسوسناک ہی نہیں باعث شرم ہے۔ ایک مسلم تنظیم سیمی پر دہشت گردی کا
الزام لگاکر اسے غیر قانونی قرار دیا گیا گوکہ سیمی کے خلاف یہ کارروائی
شفاف یا واجبی نہیں ہے۔ کئی ہندو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ثبوت ملنے پر
بھی وہ آزاد ہیں۔ یہی دوہرا معیار ہے۔
کسی بھی ملازم سرکار کو اگر وہ باقاعدہ زیرحراست لیا جائے تو اس کو ملازمت
سے فوراً معطل کیا جاتا ہے۔ لیکن دل تھام کر سن لیں کہ ’’دہشت گردی کی کئی
بڑی کارروائیوں کا کلیدی ملزم کرنل پرساد شری کانت پروہت کو گزشتہ پانچ سال
سے زیادہ جیل میں قید رہنے کے باوجود اس کو پوری تنخواہ الاؤنس کے ساتھ ادا
کی جارہی ہے۔ یہ بات دہشت گردی کے الزام میں جیل میں قید کئے گئے ایک اور
ملزم میجر رمیش پانڈے نے آر ٹی آئی RTI(قانو ن حق معلومات)کے حوالے سے رکن
راجیہ سبھا محمد ادیب کو ایک خط میں لکھی ہے‘‘۔ (اس سلسلے میں افروز عالم
ساحل Beyond Headlinesکے حوالے سے تفصیلی خبر روزنامہ اردو ٹائمز (28فروری)
میں دیکھی جاسکتی ہے۔
دوسری طرف پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں سینکڑوں مسلمان نوجوان طالب علموں،
ڈاکٹروں، انجینئروں، این آر آئیز خوشحال اور ابھرتے ہوئے افراد اور ان کے
خاندانوں کی زندگی ہر لحاظ سے تباہ کررہی ہیں۔
اس دو عملی کی کوئی داد فریاد نہیں ہے۔ مسلمان ارکان پارلیمان (بجز چند)
مصلحتوں، مرعوبیت اور ملت و ضمیر فروشی کا شکار ہیں ان کو اس بات کا پتہ
ہوگا کہ دہشت گردی کا مجرم نہیں بلکہ ملزم بھی نہیں صرف ملوث ہونے کا شبہ
ہوتے ملازموں کو ملازمت سے، طالب علموں کو کالج سے افراد معاشرہ سے بلکہ
بعض صورتوں میں خاندان سے بھی باہر کردے جاتے ہیں بلکہ جعلی انکاؤنٹر میں
زندگی سے تک محروم کردئیے جاتے ہیں۔ خوش حال افراد ہی نہیں بلکہ شہر،
علاقوں ، اضلاع کے اتنے زیادہ افراد کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے کہ وہ
شہریا علاقہ ہی بدنام ہوجاتا ہے۔ مثلاً حیدرآباد دکن، مالیگاؤں، بھٹکل،
اعظم گڑھ اور اب دربھنگہ اس کی مثالیں ہیں۔
کون ہے جو اس دو عملی کا جواب دے؟
مرکزی وزیر داخلہ شنڈے نے محض مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے آر ایس ایس و بی
جے پی پر دہشت گردی میں ملوث ہونے اور اس کا ثبوت رکھنے کا اعلان تو کردیا
تھا لیکن اس سوال کا ان کے پاس شائد ہی کوئی جواب ہوک کہ ثبوت رکھنے کے
باوجود آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کی وجہ کیا
ہے؟ جبکہ انڈین مجاہدین کا وجود ثابت کئے بغیر انڈین مجاہدین کے نام پر
گرفتاریاں ہورہی ہیں ۔ ذہنی و جسمانی اذیت دے کر، بربریت اور درندگی سے بھر
پور تشدد کے ذریعہ اعتراف نامے حاصل کئے جارہے ہیں۔
ایک اور تلخ مثال ،دو عملی کی یہ ہے کہ چند سال قبل حیدرآباد میں تاریخی
مکہ مسجد کے بم دھماکوں میں پولیس کی طرف سے تعصب و بدنیتی کی وجہ سے ملوث
کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا لیکن عدالت نے سب کو بری کردیا تھا۔ نئی
تحقیقات کے مطابق ہندو دہشت گردی سے متعلق افراد اب قید میں ہیں لیکن دلسکھ
نگر دھماکوں کے بعد تحقیقات کرنے والوں پر اسلامی دہشت گردی کا بھوت ایسا
سوار ہے کہ حیدرآباد میں زعفرانی دہشت گردوں کے جرائم کو بھلاکر وہ زعفرانی
دہشت گرد (جوجیل میں ہیں) کو بھلاکر عدالت سے بری شدہ مسلمان نوجوانوں کو
پریشان کیا جارہا ہے۔ یہ ایسی دو عملی ہے جو پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے
ذہنی دیوالیہ پن تعصب، بدنیتی اور شائد مسخرے پن کی انتہاء ہے!
ایم آئی ایم کے قائد اکبر الدین اویسی کی ایک دو تقاریر پر تو حکومت
آندھراپردیش اس قدر ظالمانہ انداز میں سختی کررہی ہے کہ اتنی سختی انگریزوں
کی حکومت نے مجاہدین آزادی کے ساتھ نہ کی ہوگی جبکہ یو پی میں ورون گاندھی
نے ایسی بے ہودہ تقریر کی تھی جو ملک و قوم کے لئے باعث شرم ہے۔ لیکن وہ
عدالت سے بری کردئیے جاتے ہیں! انتہا پسند بلکہ فرقہ پرست و مسلمانوں کے
دشمن توگڑیا کی ناندیڑ میں کئی حالیہ تقریر پر حکومت مہاراشٹرا نے توگڑیا
کو گرفتار تک نہیں کیا۔ سوامی کملانند بھارتی نے حیدرآباد میں مسلمانوں کو
قتل کی دھمکی دی تھی۔ گرفتار تو وہ ہوئے مگر فوراً ضمانت پر رہا بھی ہوئے۔
اسی طرح توگڑیا ، اشوک سنگھ، گری راج کشور کی نفرت سے بھر پور بے شمار
تقاریر سنی ان سنی کی نذر ہوگئیں!
کرنل پروہت، توگڑیا کے ساتھ یہ حسن سلوک سادھوی پرگیہ سنگھ کے تعلق سے
اڈوانی کو اتنی تشویش تھی کہ بیانات دئیے اوروزیر اعظم و وزیر داخلہ سے
ملے۔ بال ٹھاکرے کو حکومت نے کبھی آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا۔ ان کے اخبار میں
جو شائع ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے تو اگر ایسا کچھ کوئی مسلمان اخبار میں
شائع ہوتا تو اس کو بند کردیا جاتا ہے۔ آج بھی ادوھے ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے
کو کچھ بھی کہنے بلکہ کرنے کی آزادی ہے۔ دوسری طرف مجلس اتحادالمسلمین کے
رکن پارلیمان کو حکومت مہاراشٹرا اورنگ آباد آنے سے روک دیتی ہے۔ انتخابی
جلسہ کرنے پر حکومت کرناٹک ہمناآباد میں گرفتار کرتی ہے (مختصر مدت کے لئے
سہی) اس دو عملی کا کیا جواز ہے؟
ٹی وی کے میزبان اور مباحثہ میں حصہ لینے والے بعض نام نہاد دانشور سوال
کرتے ہیں کہ کیا افضل گرو جیسے دہشت گرد کو پھانسی سے قبل بیوی بچوں سے
ملاقات یا اپنے وارثوں کے ہاتھوں دفن ہونے کا حق دیا جاسکتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ سیکولرازم کے نام پر بدترین فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرنے
والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ملک کی بدنامی کے ساتھ مسلمانوں کے مستقبل کے
آگے پریشان کن سوالات اور تاریک سایوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے!۔ |