پاکستان کی اصل بیماری سسٹم اور کرپٹ سیاستدان

آج پا کستان میں پھر سیاسی نورا کشتی شروع ہو چکی ہے ،سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں،سب سیاسی پارٹیاں کسی ناں کسی طرح اقتدارکے مزے لوٹ چکی ہیں وہ مسلم لیگ ن ہو، یا مسلم لیگ ق ، ایم کیوایم ہو یا اے این پی ، جے یو آئی سب پارٹیوں نے ذاتی مفاد میں حکومت کی لیکن عوام کے لیے کسی پارٹی نے کوئی کام نہیں کیا، عوام غربت مہنگائی لوڈشیڈنگ بے روزگاری سیلاب کے عذاب میں مبتلا رہی لیکن سیاستدان اپنی لڑائیوں اور عیاشیوں میں لگے رہے اور وقت گزرتا گیا ۔ اب سیاستدانوں کو پھر غریب عوام یاد آئے ہیں ۔ جلسے اور جلوسوں میں چو ر بھی کہے چور چور جبکہ اصل میں یہ سب ڈاکو ہیں جو دن رات ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کے اصل مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں بیمار کا علاج توکر لیا جاتا ہے لیکن بیماری کا علاج نہیں کیا جاتاپاکستان کی اصل بیماری یہی کرپٹ سیاستدان اور سسٹم ہے جس میں چند خاندان اور سیاست دان گھوم پھر کر پھر آجاتے ہیں ،عمران خان اس سسٹم کو بدلنے کی بات کرتا ہے لیکن اپنے ساتھ وہی گھسے پٹے لوگ ملا رہا ہے تو میرا سوال ہے تبدیلی کیسے آئے گی۔سیاست دانوں نے عوام کو صوبائیت اور لسانی طور پر اور مولویوں نے مسلمانوں کوفرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔پہلے اس تقسیم کو ختم کریںپھر عوام ایک پاکستانی قوم بنے گی۔ پنجاب میں گو زرداری گو کے نعرے لگے تو سندھ میں شریف برادران کے خلاف نعرے لگے۔ سیاست دان لوگوں کو ذاتی مفاد میں استعمال کرتے ہیں اور لوگ ہوتے رہتے ہیں۔بار بار سیاست دانوں کے جھوٹے نعروں اور وعدوں میں آ جاتے ہیں۔ جمہوریت ہو تو آمریت کویاد کیا جاتا ہے اور آمریت ہو تو جمہوریت کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت میں فرق صرف اتنا ہے کہ آمریت میں ایک بندہ کھاتا ہے اور غریب عوام لئے کچھ بچ جاتا ہے لیکن جمہوریت میں سب سیاستدان مل کر کھاتے ہیں تو غریب کے لئے کچھ نہیں بچتا ۔ آمریت میں ملک میں ایک چوہدری اور بدمعاش ہوتا ہے اور جمہوریت میں ہر پارٹی اور سیاست دان بدمعاش ہوتا ہے۔سچ یہ ہے کہ اگر آمریت پاکستان کے مسائل کاحل نہیں ، تو جمہوریت نے بھی عوام کو کچھ نہیں دیا۔ پچھلے دور میں یہی سیاست دان کھا اور کما رہے تھے لیکن غریب کو کچھ مل رہا تھا اور آج فقط سیاست دان کھا اور کما رہے ہیں عوام صرف انکا پھینکا ہواکھا رہے ہیں اور اس پر بھی یہ احسان جتلاتے ہیں کہ ہم نے عوام کی مدد کی۔ خادم اعلی صاحب لوگوں کی مدد کر کے ایسے احسان کرتے ہیں جیسے مغل بادشاہ اپنے خزانے سے کسی سائل کی دادرسی کر رہا ہو خادم اعلی صاحب ڈینگی مچھر اور بخار کے خلاف اقدامات اور ترقیاتی کام اور پیسوں سے عوام کی مدد کرنا لوگوںکے مسائل حل کرنا انکے فرائض میں شامل ہے ۔پاکستان میں جمہوریت کوبھی اتنا ہی وقت ملا جتنا آمریت کو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آمروں کے دور میں لوٹ مار کم اور ترقی زیادہ ہوئی اگر موازنہ کیا جائے تو اےوب خان ، ضیاءا لحق اورمشرف کا دور بھٹو ،بے نظیر اور نواز شریف کے دور سے بہت بہتر تھا۔ اگر واقعی جمہوریت آمریت کے اندیھروں میں روشنی کی کرن ہے تو چار سال اس جمہوریت کواپنا آپ منوانے کے لئے کافی تھے ،صدر بھی جمہوری ،آرمی چیف بھی جمہوری ، چیف جسٹس بھی جمہوریت کا حمائتی ، اپوزیشن بھی فرینڈلی تھی پارلیمنٹ با اختیار سب سیاسی پارٹیا ں بھی حکومت میںشریک تو آج پاکستان دن دگنی ترقی کر تااور خوشحال ہوتا۔
Qazi Asad
About the Author: Qazi Asad Read More Articles by Qazi Asad: 16 Articles with 11225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.