اکیسویں صدی میں غیر افسانوی ادب۔ مسائل اور امکانات

21ویں صدی کے آغاز سے پہلے ساری دنیا میں غلغلہ تھاکہ نئی صدی شرو ع ہونے والی ہے اوراکیسویں صدی کے ضمن میں مختلف تجزیئے اور تبصرے کئے جارہے تھے۔ کہتے ہیں کہ وقت زندگی ہے لیکن وقت تو گذرتا ہی رہتاہے۔ اکیسویں صدی کے شروع ہونے کے بعد اس کا پہلاعشرہ کس قدر جلد گذر گیا اس کا احساس ہی نہیں ہوتاکہ اتنا عرصہ گذر گیا۔ نئی صدی کے پہلے دس سال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس عشرہ کے دوران عالمی، علاقائی اور مکمل سطح پر کئی تبدیلیاں رونماہوچکی ہیں۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں مختلف معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کی فہرست کافی طویل ہے ۔ پتہ نہیں اکیسویں صدی پہلے عشرہ کی تکمیل کے بعد 2013ء میں تہذیب اور ثقافت کے نام پر روتی بلکتی انسانیت کی طرف ظلم وستم کابازاریوں ہی گرم رہے گا اور اس میں انسانی، اخلاقی اقدار کے استحکام کے لئے بھی سنجیدہ فکر و عمل کی تصویر سامنے آئے گی یا نہیں؟

سائنس اور ٹکنالوجی کی آسمان کو چھوتی ہوئی ترقیوں کے دورمیں ادب اور خاص طور سے اردو ادب کی زمہ داری کو بھی دیکھنا ہے کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتاہے۔ اور اپنے معاشرے کا عکاس ہوتاہے۔اور وقت کے ادیب و شاعر اپنی تخلیقات کے زریعے سماج کو زندگی کی اچھی اخلاقی قدروں کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اردو ادب کا ایک حصہ غیر افسانوی ادب پر مشتمل ہے۔جس کی اصناف مضمون'انشائیہ'رپورتاژ 'خاکہ وغیرہ کو اصلاحی و سماجی بیداری کے کام میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ اکیسویں صدی میں غیر افسانوی ادب 'مسائل و امکانات کے موضوع پر نظر ڈالی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جدید مشینی دور میں افسانوی ادب کی ترقی اور مقبولیت کے امکانات کی تلاش ایک بے سود کوشش سمجھی جائے گی۔ کیونکہ تمام مسائل اور امکانات کے بارے میں اندازے اور جائزے کمپیوٹر ٹکنالوجی کے سہارے لئے جارہے ہیں۔ یہ بھی عصر حاضر کا ایک المیہ ہے کہ انسان کو ترقیوں کے اس دور میں دل و دماغ کو راحت پہنچانے والے شعر و ادب سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہا۔ اب سائنسی، معلوماتی موضوعات پر سب کی نظر ہے اور ہر انسان کی زندگی میں معاشی خوشحالی کا تصور ہی پایاجاتاہے۔ اساطیری، کہانیوں، رومانی کہانیوں، ناولوں، شعری مجموعہ اور ناولوں کو پڑھنے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں۔ ادب لطیف گذشتہ دور میں ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے روحانی غذا کا کام کرتاتھا۔ لیکن آج فرصت سے اخبار کا مطالعہ کرنے کسی کے پاس وقت نہیں ۔اکیسویں صدی میں سائنس ادب پر غالب ہے ۔ دور حاضر میں انسانی راحت کیلئے امکانات کی تلاش ہے ۔ افسانے، کہانیاں وغیرہ ماضی کی ایک داستان ہےں ۔ حیاتیات، نباتات، پاکیزہ ماحولیات، ماحولیاتی آلودگی کا انسداد، آبی ذخائر کا تحفظ بیشتر مسائل پر پچھلے دنوں حیدرآباد میں 28ممالک سے دس ہزار سے زائد سائنس دانوں میونسپل کارپوریشن کے میئرس، ڈاکٹرس، دانشوروں نے مذکورہ موضوعات پر ہی عالمی کانفرنس میں مباحث میں حصہ لیا۔ اس سے صاف طورپر ظاہر ہے کہ عصر جدید کا انسان مادہ پرستی کاماحول میں اخلاقی بحران کا شکار تو ہو ہی ہوچکا ہے ۔ اب مادہ پرستی کے عروج نے ادب سے بھی اس کو
بے نیاز کردیاہے۔

٭ادب:۔
فن مہذب قوموں کے ارتقاء کی تاریخ کا لوازمہ ہے ۔ ادب بھی فنون لطیفہ کی ایک اہم شاخ ہے ۔ ادب حسن خیال' مواد کی ترتیب اور الفاظ کے مخصوص استعمال کا حسین اظہار ہے ۔ ادب یا تو نثر ی اصناف پرمشتمل ہوتا ہے یا منظوم اصناف میں۔ پھر نثری تخلیقی ادب کو دوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے افسانوی ادب اور غیر
افسانوی ادب۔

٭افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب:۔
فرضی کرداروں اور فرضی واقعات کا تانا بانا جوڑ کر قصے کہانیوں کے رنگ میں جو انسانی تہذیب کا قدیم ترین وصف ہے بیان کیاجائے تو اس طرح کا ادب افسانوی ادب کہلائے گا۔ چنانچہ داستان، ناول ، افسانہ اور ڈرامہ جیسی تمام اصناف کو افسانوی نثر کا درجہ حاصل ہے ۔

تخلیقی عمل میں دنیا کی حقیقتوں ،مسائل ،تجربات ، مشاہدات اور احساسات کو قصہ پن کے بغیر ادب اور فن کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ پیش کیاجائے تو ایسے ادب کو غیر افسانوی ادب کہا جاتا ہے ۔ غیر افسانوی ادب میں قصہ بیان کرنے کے بجائے ادیب زندگی میں درپیش حقیقی واقعات پر اپنے احساسات اختیار کردہ مخصوص صنف کی ہیئت کے دائرہ کار میں پیش کرتاہے ۔

غیر افسانوی ادب میں مقالہ مضمون، سوانح، خاکہ، سفر نامہ ،خود نوشت سوانح آپ بیتی، طنز و مزاح ، مکتوب، انشائیہ اور رپورتاژ جیسی اصناف کی شناخت کی جاتی ہے ۔

غیر افسانوی ادب تاریخ اور ارتقاء سے متعلق ڈاکٹر مجید بیدار رقمطراز ہیں:
''قصہ گوئی کا فن قدیم ترین ہے ۔ داستان سے ناول تک ہمارے ادب نے ایک طویل سفر طئے کیا اور طویل عرصے تک اردو ادب پر افسانوی نثر کا غلبہ رہا۔ داستانوں کی صورت میں اردو کا افسانوی ادب برسوں ترقی کرتارہا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور جدید علوم و فنون اور نئے خیالات کے فروغ کے نتیجے میں غیر افسانوی ادب ترقی کرنے لگا۔ انیسویں صدی میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کے توسط سے افسانوی ادب کو فروغ حاصل ہوا اور اردو ادب پر داستانوں کی حکمرانی رہی لیکن 1824ئ میں دلی کالج کے قیام کے بعد غیر افسانوی ادب کی طرف توجہ دی گئی۔ ماسٹر رام چندر اور ماسٹر پیارے لال نے پہلی مرتبہ ہر قسم کی حقیقتوں کی موضوعاتی وضاحت کی جانب توجہ دی جس کی وجہ سے مضمون نگاری کے علاوہ سفر نامہ کی روایت کا بھی آغاز ہوا۔ چنانچہ محمد یوسف کمبل پوش نے عجائبات فرنگ لکھ کر غیر افسانوی ادب میں ایک نئی صنف کا آغاز کیا۔ مرزا غالب کے ابتدائی خطوط کی وجہ سے غیر افسانوی ادب کی نمائندگی 1857ء سے قبل ممکن ہوسکی۔غیر افسانوی ادب کے ذریعہ نثر کو فروغ دینے میں سرسید تحریک نے بے حد اہم کردار ادا کیا۔ انشائیہ ،خاکہ، مقالہ اور رپورتاژ جیسی نثری اصناف کے غیر افسانوی ادب کے سرمائے میں مسلسل اضافہ ہوتاگیا ۔اودھ پنچ اور اس کے معاصرین کے توسط سے طنزیہ و مزاحیہ تحریروں کو فروغ حاصل ہوا۔ جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ (ڈاکٹر مجید بیدار، اردو میں غیر افسانوی ادب ایک جائزہ، مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ص8)

ہمارے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اردو ادب میں غیر افسانوی ادب کے نمائندہ ادیبوں نے قوم کے اندر آزادی کا شعور بیدار کرنے کے لئے اخبارات میں مختلف عنوانات پر مضامین لکھے اور نئے اخبارات کا بھی آغاز کیا۔ جس کا مقصد صرف اور صرف قوم کے اندر علمی شعور اور آزادی کی جدوجہد بیدار کرنا تھا۔

1947ء کے بعد غیر افسانوی ادب نے افسانوی ادب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور غیر افسانوی ادب میں کئی چیزوں کا اضافہ ہوا۔ جس میں مضمون نگاری کو فوقیت حاصل ہے ساتھ ہی سفر نامہ ، صحافت اور رپورتاژ نگاری کے ذریعہ اردو کے فروغ کیلئے کوشش جاری ہیں موجودہ دور میں اردو قارئین کے پاس وقت کی بہت زیادہ کمی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ فرصت کے اوقات میں انٹرنیٹ کے ذریعہ اردو اخبارات و رسائل اور مختلف عنوانات پر کتابوں کامطالعہ کرتے ہیں فیس بک اور اس جیسی دیگر سوشیل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی اردو ادب خاص کر غیر افسانوی ادب کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے ۔ مختلف اردو کے اخبار اب E-Paper کی صورت میںانٹرنیٹ پر دستیاب ہےں۔جس میں مختلف عنوانات پر شامل مضامین ،تبصرے ، رپورتاژ، انشائیہ، خاکہ نگاری، طنز و مزاح، تحقیق، تنقید، غرض غیر افسانوی ادب کی اصناف شامل ہوتی ہیں۔

مسائل:۔
غیر افسانوی ادب اردو ادب کی ایک شاخ ہے دور حاضر میں اردو کی کتابوں کی اشاعت میں ہر سال بتدریج اضافے کے باوجود قارئین کی تعداد میں اضافہ کے بجائے کمی آرہی ہے ۔ ٹی وی انٹرنیٹ کے اس دور میں پرنٹ میڈیا کیلئے اسباب بہت کم ہےں۔ سب سے اہم مسئلہ ہمارے بچوں کی اردو زبان سے دوری ہے ہم اپنے بچوں کو انگریزی زبان میںتعلیم کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ اسکولس میں داخلہ دلواتے ہیں لیکن اردو زبان میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوشش نہیں کرتے جس کی وجہ سے اردو کے فروغ میں کمی پائی جاتی ہے اور غیر افسانوی ادب کے مطالعہ کیلئے بھی اردو قارئین کی کمی درج کی جارہی ہے ۔

ہمارے قائدین کو صرف اور صرف اپنے آپ کی فکر لاحق ہے جس کی وجہ سے اردو کے کچھ خودساختہ سرپرست پیدا ہوگئے اور وہ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیںاور اردو زبان و ادب اور غیر افسانوی ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا نہیں کرتے ۔ اردو زبان کی تدریس میں بھی غیر افسانوی ادب کو علیحدہ مرتبہ نہیں دیاجاتابلکہ افسانوی ادب اور شاعری ہماری ترجیحات ہوتی ہے ۔

مقامی سطح پر ریسرچ اسکالرس اور ادیبوں کیلئے ادبی انجمنیں قائم نہیں ہےں اگر ہے بھی تو غیر افسانوی ادب کے فروغ کیلئے کوشش نہیں کی جاتی ضرورت ہے کہ ادبی سمیناروں میں غیر افسانوی ادب کو ترجیح دی جائے۔ غیر افسانوی ادب اور اردو شاعری نے ملک کی آزادی میں اپنا بہترین حصہ ادا کیا ہے کیوںنہ ہم دور حاضر میں اصلاح معاشرہ اور قوم کی ترقی کیلئے غیر افسانوی ادب کوروبہ عمل لائیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ اردو کا ہر دور میں سیاسی شخصیتوں نے اپنے اپنے مفادات کیلئے صرف استحصال کیا ہے اوراس زبان کی سرپرستی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنے مقصد کیلئے جھوٹے وعدے کئے ہیں اردو کے چاہنے والوں کو گمراہ کیا ہے کبھی کوئی ٹھوس اقدامات عمل میں نہیں لائے جس کے نتیجہ کے طورپر اردو کی بہت ساری اصناف اپنا مستحقہ مقام حاصل نہ کرسکیں جس میں غیر افسانوی ادب بھی شامل ہیں۔ اس وقت ہمارے دانشوروں نقادوں اور ریسرچ اسکالروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیر افسانوی ادب کو مزید پروان چڑھانے کیلئے اپنا اہم حصہ ادا کریں اور اس صنف کے اہم پہلوؤں کو اردو ادب میں پیش کریں۔ مثلاً سفرناموں، صحافت ، مضمون نگاری، خاکہ نگاری، سوانح عمری وغیرہ کے متعلق قارئین کو متوجہ کریں اور اس پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتلائےں کہ غیر افسانوی ادب میں ان کی کیا اہمیت ہے ۔

٭امکانات:۔
ہمیں چاہئے کہ طالب علموں کی صلاحیتوں کی شناخت کریں اس کی مناسبت سے ان کی تربیت اور نگہداشت ہونی چاہئے۔ اچھے لکھنے والوں کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور طالب علموں کے اندرصلاحیتیں پیدا کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ان کی صلاحیتوں کی نگہداشت کرنے اورپروان چڑھانے کی مکمل ذمہ داری اردو کے اساتذہ اور معلم حضرات پر ہے ۔ غیر افسانوی ادب میں مضمون، انشائیہ، سوانح عمری، سفرنامہ،ر پورتاژ، صحافت اور اسکرپٹ رائٹنگ کا کام طلباء سے لیاجانا چاہئے۔ دورحاضر کے اہم ذرائع میں ٹی وی ، ریڈیوا ورانٹرنیٹ کا چلن عام ہے ان کے لئے غیر افسانوی ادب کا رکرد ہوسکتاہے اس کیلئے نوآموز قلمکار اچھی سے اچھی اسکرپٹ لکھیں۔

طالب علموں کو کالج کی سطح پر غیر افسانوی ادب کا خصوصی مطالعہ کروانا چاہئے ۔ مضامین، خاکے، سوانح عمری، سفر نامے ،رپورتاژ کیلئے خصوصی تربیت دی جانی چاہئے اور خصوصی مقابلہ جات کے ذریعہ طلباء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا چاہئے غیر افسانوی ادب کے فروغ کیلئے کالج کی جماعتوں میں مباحثہ رکھنے چاہئے اس سے طالب علموں کی صلاحیتوں کا اظہار ہوگا اور ان کے اندر نکھار پیدا ہوگا اور یہی طالب علم اردو ادب اور ملک کی صحیح طورپر خدمات انجام دے سکیں گے ۔ غیر افسانوی ادب کے فروغ میں لائبریریز اور انٹرنیٹ نے کئی مواقع فراہم کئے ہیں صرف ایک بٹن دبانے سے ہی دنیا بھر کی کتابیں اور مختلف عنوانات پر ڈھیر ساری معلومات ہمیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہوجاتی ہیں خاص کر مختلف ویب سائٹس پر غیر افسانوی ادب ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے اور ہماری معلومات میں اضافہ ہوتاہے۔ لائبریریز میں بھی غیر افسانوی ادب کی کتابیں ہمیں مطالعہ کیلئے دستیاب رہتی ہیں آج کل تو برقیاتی کتابیں بھی ہمیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہے ۔ اس سے استفادہ کریں۔

غیر افسانوی ادب کے ذریعہ جس طرح سے سرسید احمد خاں نے علی گڑھ تحریک کے ذریعہ ایک انقلاب برپا کیا تھا اور مسلمانوں میں علمی شعور کو بیدار کیاتھا آج ہم غیر افسانوی ادب کے ذریعہ نہ صرف اردو زبان و ادب کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرہ کی اصلاح کا کام بھی انجام دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے ملک کی ترقی میں غیر افسانوی ادب کے اصناف کے ذریعہ اپنا نمایاں رول بھی انجام دے سکتے ہیں۔ غیر افسانوی ادب کے اصناف کو دور حاضر میں پھلنے پھولنے کے بہت زیادہ امکانات ہے مثلاً اردو صحافت میں اکثر و بیشتر مضامین، رپورتاژ، خاکے، انشائیہ اور انٹرویو شائع ہوتے ہیں۔ اس کیلئے مستقبل میں فروغ کے امکانات بہت زیادہ روشن ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہمت سے کام لیں اور ناکامی کا ڈھنڈورا نہ پیٹیںبلکہ کامیابی کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر بنائیں ہم میں ایک اچھے مضمون نگار کی خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہمارے اندر سے بہترین خاکہ نگار، صحافی پیدا ہوں جوکہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ اردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے نمایاں خدمات انجام دے سکیں موجودہ دور میں اردو ادب میں شاعری اورافسانوی ادب میں نثر سے زیادہ غیر افسانوی ادب کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے ۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں ہر کوئی وقت کی تنگی کا شکار ہے یہ دور نظریاتی دور ہے افسانوں اور کہانیوں کیلئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے دور میںاخبارات کی اپنی ایک انفرادیت ہے انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی غیر افسانوی ادب کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح اور سماجی فلاح و بہبود کا کام انجام دیاجاسکتاہے۔ اردو شاعری اور افسانوی ادب کے بالمقابل غیر افسانوی ادب کے فروغ کے روشن امکانات موجود ہیں۔

محمد عبدالعزیز سہیل
ریسرچ اسکالر(عثمانیہ)
مکان نمبر:4-2-75مجید منزل
لطیف بازار، نظام آباد 503001(اے پی )
m a azeez sohail
About the Author: m a azeez sohail Read More Articles by m a azeez sohail: 2 Articles with 9748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.