80کی دہائی میں ”ہارڈ کارمن کوو
“ امریکی نژاد روسی باشندہ چند دن کے لیے روس میں کافی مشہور ہوا۔ وہ
انتہائی غریب شخص تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ علاقے کے کچھ معروف غنڈے اس کی
بیٹی کو اٹھا کر لے گئے، دو دن کے بعد ایک ویرانے سے بیٹی کی تشدد زدہ لاش
ملی۔ جسے دیکھ کر غریب ہارڈ کارمن کوو بہت زیادہ پریشان ہوا، اسے سمجھ نہیں
آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اگرچہ وہ ایک غریب شخص ہے لیکن
انصاف ضرور حاصل کرکے رہے گا، وہ ان غنڈوں کے خلاف مقدمہ درج کراونے کے
لیےپولیس اسٹیشن گیا تو پولیس نے اسے کوئی وقعت نہ دی، کافی تگ ودو کے بعد
مقدمہ تو درج کرلیا لیکن دس دن تک قاتلوں کی گرفتاری کے سلسلے میں کوئی پیش
رفت نہ ہوسکی۔ اس نے تھانے کے کافی چکر لگائے لیکن سوائے ناکامی کے کچھ بھی
ہاتھ نہ آیا۔
جب وہ پولیس سے مایوس ہوگیا تو اس نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک تختی
پہ اس نے لکھا جس کا ترجمہ یہ تھا:” میں مظلوم ہوں مجھے انصاف فراہم کرو
اور میں انصاف ملنے تک اپنا احتجاج جاری رکھوں گا“، وہ تختی لے کر ہر روز
پولیس اسٹیشن کے باہر سڑک پر بیٹھ جاتا، جب علاقے کے لوگوں کو اس بارے میں
معلومات ہوئیں تو وہ خود بھی چونکہ ان غنڈوں سے تنگ تھے، اس لیے علاقے کے
تمام لوگوں نے اس شخص کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، وہ تمام لوگ بھی اس کے
ساتھ پولیس اسٹیشن کے سامنے آکر احتجاج کرنے لگے، لیکن حکومت ان غنڈوں کو
گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ جب مظاہرین کئی دن احتجاج کرکے تنگ آگئے تو ایک
دن مظاہرین نے اعلان کردیا کہ اگر حکومت دو دن میں قاتلوں کو گرفتار نہیں
کرتی تو ہم پولیس اسٹیشن کو آگ لگادیں گے۔ جب ہارڈکارمن کوو کویہ بات پہنچی
تو اس نے کہا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔مظاہرین نے پوچھا کیوں ہم ایسا
نہیں کریں گے؟
ہارڈ کارمن کوو نے بہت ہی خوبصورت جواب دیا۔ :” اس نے کہا کہ اب ہم مظلوم
ہیں اور انصاف کی اپیل کررہے ہیں، اگر ہم تشدد کا راستہ اختیار کریں گے تو
ہم ظالم بن جائیں گے، میں نہیں چاہتا کہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کسی
دوسرے کو کوئی نقصان ہواور ہم ظالم بن جائیں۔“ اس کی یہ بات سن کر تمام
مظاہرین بہت متاثر ہوئے، انہوں نے انصاف ملنے تک ہارڈ کا ساتھ دینے کا
فیصلہ کیا۔ مظاہرین اور ہارڈ کارمن کوو ایک مہینے تک پرامن مظاہرہ کرتے رہے،
ان کے اسی احتجاج سے حکومت ظالم قاتلوں کو گرفتار کرنے پر مجبور ہوگئی۔
ہارڈ نے کہا: ”مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم نے اپنا حق لینے کے لیے کسی دوسرے کا
نقصان نہیں کیا۔ ہم نے جس دن احتجاج شروع کیا تھا ہم اس دن بھی مظلوم تھے
اور آج جب ہم انصاف حاصل کررہے ہیں آج بھی مظلوم ہیں۔ انصاف ملنے میں
اگرچہکچھ دیر تو ہوئی لیکن اس دیر کی وجہ سے انصاف کے حصول کے لیے کسی
دوسرے کا نقصان نہیں کیا۔ انصاف ملنے کے بعد ہماری یہ دوسری کامیابی ہے۔“
ہمارا ملک ایک عرصے سے احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں ہے شاید ہی کوئی دن
ایسا گزرتا ہو کہ ملک کے کسی حصے میں احتجاج نہ ہوتا ہو۔ احتجاج کرنا
جمہوری و عقلی طور پر انسان کا حق ہے۔ اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لیے
جائز و مناسب راستہ اختیار کرنے سے روکنا بالکل غلط ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے
کہ ہمارے ہاں لوگ اتنے جذباتی ہیں کہ جب وہ احتجاج کرتے ہوئے تو اپنے آپ پر
قابوں نہیں رکھ سکتے، وہ تشدد پر اتر آتے ہیںاور جب تک احتجاج پر تشدد نہ
ہو، احتجاج میں جلاﺅ گھیراﺅ، پکڑ دکڑ نہ ہو تو اس وقت تک سمجھتے ہیں کہ
احتجاج ناکام رہا ہے۔ حالانکہ اس طرح تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی طرح
بھی درست نہیں ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ توڑ پھوڑ پر آمادہ ہجوم میں شامل افراد
انفرادی طور پر چاہے اتنے پرتشدد نہ ہوں لیکن جب وہ ایک گروہ کی شکل اختیار
کر لیتے ہیں تو نہ ہی ان میں نتائج کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ ہی ضمیر کی
خلش انہیں ستاتی ہے اور وہ اپنے اقدامات کے لیے بھی ہجوم کو ذمہ دار ٹھہرا
کر بری الذمہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں عوامی تشدد کی
بڑی وجوہات طبقاتی محرومیاں اور حکمران طبقے کی جانب سے استحصال ہے۔ ان
ملکوں میں ریاست یا فرد کی ملکیت اور انسانی جان کا احترام ختم ہو چکا ہے
اور معاشرے کے محروم طبقات توڑ پھوڑ کر کے انتقام کی خواہش پوری کرتے ہیں۔
لوگوں میں احساسِ محرومیاور غصہ ہے، اس کا اظہار وہ تشدد کی شکل میں کرتے
ہیں۔
جبکہ ترقی پذیر ممالک میں تو آج بھی احتجاج پرامن کیا جاتا ہے، لوگ اپنے
مطالبات منوانے کے لیے بہت ہی پرامن راستہ اختیار کرتے ہیں، بہت ہی پرامن
طریقے سے ریلیاں نکالتے ہیں اور اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، نہ کوئی جلاﺅ،
گھیراﺅ ہوتا ہے اور نہ پکڑ دکڑ۔ گزشتہ دنوں میں کسی یورپین ملک میں مظاہرین
کی تصویر دیکھ رہا تھا جس میں بہت سارے مظاہرین ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک
دریا کے کنارے اس انداز میں کھڑے تھے، محسوس ہورہا تھا کہ کسی بہت بڑے شیر
کی تصویر ہے۔ وہ در اصل اس انداز میں کھڑے ہوکر دنیا کی توجہ ماحولیاتی
تبدیلی کی طرف مبذول کروانا چاہتے تھے، اس سے میڈیا کے ذریعے لوگوں کی توجہ
ان کے احتجاج کی جانب بھی مبذول ہوگئی اور کسی کو نہ تو کوئی پتھر لگا اور
نہ کسی کی کوئی گاڑی جلائی گئی۔
گزشتہ سال جب نبی پاک علیہ السلام کے خلاف ملعونون نے گستاخانہ فلم بنائی
تو ہمارے ہاں نجانے احتجاج کی آڑ میں کتنا نقصان کیا گیا، کتنے لوگوں کی
املاک کو آگ لگادی گئی، لیکن انہی دنوں نارے کی ایک تنظیم نے اس گستاخانہ
فلم کے خلاف بہت ہی عمدہ اور منفرد قسم کا احتجاج کیا۔ اس تنظیم کے
نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ گستاخی کرنے والے آپ علیہ السلام
کی ذات اقدس سے واقف نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی سیرت پر عمل
کریں اور آپ علیہ السلام کی سیرت کو عام کریں۔ وہ ناروے کے شہروں کی سڑکوں
پر کھڑے ہوجاتے اور شہریوں کو گلاب کے پھول اور آپ علیہ السلام کی مبارک
احادیث کے نسخے پیش کرتے۔
ترقی پذیر ممالک میں بھی لوگوں کو حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کی ضرورت
پیش آتی ہے، وہاں بھی لوگ احتجاج کرتے ہیں، وہاں بھی لوگ انصاف کے حصول کے
لیے حکومت پر دباﺅ ڈالتے ہیں لیکن وہاں احتجاج کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔
کبھی مظاہرین پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور کبھی صرف ریلیاں
نکالتے ہیں۔ کبھی ہاتھوں کی زنجیریں بنا کر احتجاج کرتے ہیں اور کبھی جگہ
جگہ اپنے مطالبات کے حق میں بینرز آویزاں کردیتے ہیں۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم بھی احتجاج اس طرح کریں کہ مظاہرین کا مقصد بھی
پورا ہوجائے اور کسی کا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ احتجاج کے سلسلے میں”ہارڈ
کارمن کوو “ کی پیروی بھی تو کی جاسکتی ہے، احتجاج یوں بھی تو کیا جاسکتا
ہے جیسے ناروے کے نوجوانوں نے گستاخانہ فلم کے جواب میں کیا تھا۔ اگر یہ سب
کچھ غیر مسلم ممالک میں ہوسکتا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں کرسکتے جن کے مذہب
اسلام کی تعلیم ہی یہ ہے کہ کسی کو تکلیف دینا حرام ہے۔ جب ہمارا مذہب کسی
کو تکلیف دینے کو حرام فرماتا ہے تو پھر کیوں احتجاج کے دوران ہم اس قدر
دیونے ہوجاتے ہیں کہ لوگوں کے گھر جلانے سے بھی گریز نہیں کرتے، اس بات پر
غور کرنے کی ضرور ہے کہ ”ہارڈ کارمن کوو“ نے تو غیر مسلم ہونے کے باوجود
کسی کو تکلیف نہیں دی اور ہم مسلمان ہو کر بھی بے شمار لوگوں کو سخت تکلیف
میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ہم کیسے مسلمان ہیں؟۔ |