حکومت ،عدلیہ اور فوج کی تمام یقین دہانیوں
اور الیکشن کمیشن کی تمام تر تیاریوں کو دیکھتے ہوئے الیکشن کے التوا پر
منڈلاتے بادل اب تقریباََ منظر سے ہٹ گئے ہیں یہی وجہ سے کہ نگران سیٹ اپ
کو دو تین سال طول دینے کی باتیں کرنےو الے بھی اب کچھ پس منظر میں چلے گئے
ہیں البتہ انکے دھرنے اور مارچ الیکشن اصلاحات اور امیدواروں کی سکرونٹی کے
نظام کو مزید بہتر کرنے کے حوالے سے سودمند رہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ
الیکشن انکے اور وہ الیکشن کیلئے سود مند ثابت ہوتے ہیں لیکن یہ ہمارا آج
کا موضوع نہیں بلکہ ہمارا موضوع ”انتخابات اور سیاسی جماعتوں میں ریڑھ کی
ہڈی کا کردار ادا کرنے والے وہ کارکنان ہیں جن پر ہر پارٹی فخر تو کرتی ہے
مگر انہیں ٹشو پیپر سے بڑھ کر حیثیت بھی حاصل نہیں۔“ انکا کام صرف لیڈروں
کے نعرے لگانا، پارٹی کے جھنڈے اٹھانا اور جلسوں ریلیوں میں ڈنڈے کھانا
ہوتا ہے اور انہی کارکنان کی محنت کا ثمر ہوتا ہے کہ سرمایہ دار، صنعت کار،
جاگیردار، دولت کے بل بوتے پر انہی کارکنوں کی گردنوں پر پاﺅں رکھتے ہوئے
حکومتی ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور آئندہ انتخابات سے پہلے پلٹ کر ان کی
خبر بھی نہیں لیتے جس سے پارٹی کارکن نہ صرف مایوس ہوتے ہیں بلکہ دلبرداشتہ
ہو کر اپنی راہیں جدا کرتے ہوئے نئے پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتوں کو منوانے
کیلئے صف بندی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر وہاں بھی سرمایہ دارانہ،
جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی ان کے راستے کی دیوار بن جاتی ہے۔ بڑی
سیاسی پارٹیوں سے مایوس لوگ خصوصاََ نوجوان نسل اس وقت تبدیلی کی بہت بڑی
خواہاں ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت اور عمران خان کی ہردلعزیزی میں اسی
خواہش کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ تبدیلی کی اسی سوچ اور فکر نے عام کارکنوں کو
بھی ہمت اور حوصلہ بخشا ہے اور ان کو ابھی احساس ہونے لگا ہے کہ انتخابات
میں حصہ لینا صرف دولت مندوں کا ہی خاصہ نہیں بلکہ ان کا بھی حق ہے اور
اپنے اسی حق کو جتانے کی خاطر عام کارکنوں نے بھی پارٹی ٹکٹ کیلئے فارم جمع
کروانا شروع کر دیئے ہیں مگر ان بے چاروں کو کون سمجھائے کہ نقارخانے میں
طوطی کی کون سنتا ہے؟جب آپکے مدمقابل کروڑوں روپے لگانے سے بھی گریز نہ کر
رہے ہیں اور آپ کے پاس اشتہار چھپوانے کیلئے بھی رقم نہ ہو تو پھر الیکشن
کا کیا لڑنا؟ اوپر سے تمام سیاسی جماعتوں نے کارکنان کو امیدواران اور
اسمبلی ممبران بننے سے روکنے کیلئے درخواست فارم جمع کروانے کے ساتھ ہزاروں
روپے فیس وصولی کا بھی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
تحریک انصاف جس کے راہنماءمیرٹ پر ٹکٹیں دینے کا بارہا مرتبہ اظہار کر چکے
ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ میرٹ صرف دولت کو ہی نہ بنائیں اور نہ ہی بدلتے
موسموں کے ساتھ سیاسی وابستگیاں بدلنے والوں کو مد نظر رکھیں بلکہ کم از کم
ضلع کی سطح پر ایک نشست کارکنان کیلئے مخصوص کر کے کارکنوں کی بھی حوصلہ
افزائی کریں۔ اس میں خالصتاََ اسکی پارٹی ورکنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف
اسکی درخواست فیس معاف کر دی جائے بلکہ اس کے انتخابات پر اٹھنے والے تمام
اخراجات بھی پارٹی برداشت کرے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یقین کریں نہ صرف
سیاسی کارکنوں کا مورال اور حوصلہ بلند ہوگا بلکہ پارٹی کی مقبولیت میں بھی
گرانقدر اضافہ ہوگا۔ آخر یہ درخواستوں کے ساتھ اکٹھی ہونے والی کروڑوں روپے
کی رقم کس کام آئیگی؟
ہے سوچنے کی بات اسے باربار سوچ |