بادشاہ کون؟

جنگل میں ایک عجیب قسم کی ابتری کا سا سماں تھا ،جگہ جگہ مختلف جانور ٹولیوں کی صورت میں جمع تھے اور بحث و مباحثہ میں مصروف تھے۔کبھی گفتگو میں گرمی آجاتی اور کبھی نرمی ۔ برگد کے بوڑھے پیڑ پر بیٹھا بوڑھا الو اپنی دوراندیش نگاہوں سے سب جانوروں کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی گول گول آنکھیں بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھیں ۔سب جانور اکھٹے ہو چکے تھے ۔الو نے کھنگار کر گلا صاف کیا اس کی باریک اور کمزور آواز کو غور سے سننے کے لئے تمام جانور خاموش ہوگئے ۔الو نے اپنی نظروں کو گھماتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا :میرے دوستو ہم سب جس سلسلے میں یہاں جمع ہوئے ہیں وہ یہ کہ ہمارا بادشاہ کو ن بنے گا؟ ؟الو یکدم خاموش ہو گیا۔جانوروں میں ہلکی ہلکی بھنبھناہٹ شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ شور بلند ہوا۔الو نے ایک دفعہ پھر حتی المکان اپنی آواز بلند کی، گذشتہ سالوں میں جنگل کے حالات کافی مخدوش ہوئے ہیں اور بہت سے مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے ۔لہذا اب یہ سوچا گیا کہ ایک نیا نظا م حکومت قائم کیا جائے اور اس سلسلے میں آپ سب کی رائے درکار ہے ۔برائے مہربانی جو بھی بادشاہت کے امیدوار ہیں وہ ایک طرف آجائیں اور اپنے حق میں دلائل دے کر خود کو اہل ثابت کریں ۔اک ہلچل مچی اور کچھ جانور نکل کر ایک طرف آ بیٹھے،الو نے ایک طائرانہ نظر ان پر ڈالی اور اشارہ کیا ۔سب سے پہلے شیر آگے آیا اور الو کو مخاطب کر کے بولا ۔محترم میں قرون اولی سے ہی جنگل کا بادشاہ گنا اور جانا جاتا ہوں اور اس کے لئے کسی رائے کی ضرورت نہیں یہ سیٹ میرے لئے ہی مخصوص ہے میں طاقت اور قوت میں دوسرے سب جانوروں پر فوقیت رکھتا ہوں لہذا بادشاہت کا حق صرف مجھی کو حاصل ہے ،کیونکہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔شیر کی اس تقریر کے بعد جانوروں کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا یوں گمان گذرتا تھا کہ جنگل کی عوام شیر کو دوبارہ اقتدار میں لانے پر راضی نہیں ۔دوسرے نمبر پہ ہاتھی کھڑا ہو گیا جناب ِ والا اگر طاقت کے بل پر حکمرانی کی جاتی ہے تو میں شیر سے بڑا ہوں اور زیادہ طاقتور بھی ایک ٹکر سے بڑے بڑے درخت ہلا کر رکھ دوں لہذا اگر بنیاد طاقت ہے تو میرا خیال ہے میں اس کے لئے پرفیکٹ ہوں اس سے قبل کہ ہاتھی اپنی کچھ اور خوبیاں بیان کرتا کہ بندر کود کے میدان میں آگیا جناب ِوالا میں بہت پھرتیلا ہوں قدرت نے میری کھوپڑی میں دو دماغ رکھے ہیں لہذا سوچ سمجھ میں ،میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں لہذا بادشاہت پر میرا حق بنتا ہے ۔یہ سننا تھا کہ گھمسان کارن پڑا کہ الامان و حفیظ ۔۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہی ڈھاک کے تین پات، ملکی صورتحا ل بھی آج کل اسی طرح کے رنگ دکھا رہی ہے ہر پارٹی اپنے منشور کا لفافہ لئے عوام کوپھر ایک نیا خواب دکھانے کے چکر میں ہے ۔ن لیگ کا منشور مضبوط معشیت اور پاکستان کے نام سے منظر عام پہ آیا اور انتخابی منشور کا اعلان کیا گیا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں توانائی کے بحران کا خاتمہ ،مضبوط معشیت،تعلیمی اصلاحات ،روزگار کے مواقع،فوری انصاف ،زرعی ترقی، جدید انفرا ء اسٹریکچر ،منصفانہ احتساب،زرعی برآمدات،امن وامان،ہم آہنگی اور گڈگورنس مسلم لیگ ن کی پہلی ترجیح ہوگی۔مزدور کی کم سے کم تنخواہ پندرہ ہزار، توانائی کے بحران کا دو سال میں خاتمہ ،کوئلے سے پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے،اور اقتدار میں آنے کے بعد چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات ہزارہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب میں تین نئے صوبے بنانے کا عزم ،دس لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا اعلان،ڈرون حملے بند کروانے کا عزم ،کوئٹہ کراچی دہشت گردی کا سدباب ۔۔۔۔۔۔۔۔بظاہر تو یہ سب ایسا حسین خواب ہے جسکی ہر پاکستانی کو تمنا ہے کیونکہ ملک جس بحرانی دور سے گذر رہا ہے اس میں کچھ اس طرح کے اقدامات کی ہی ضرورت ہے ۔ادھر پی،پی،پی نے بھی اپنے روایتی نعرے روٹی ،کپڑا اور مکان کو لے کر ایک بار پھر اقتدار کا طنطنہ اٹھایا اور غل مچایا ۔ بعض دفعہ گمان گذرا کہ ہر پارٹی انتخابات قریب آ کر جو ببانگِ ِدہل دعوے کرتی ہے ان میں سے وہ ضرور پورے کرتی ہے جو پارٹی کے حق میں ہوتے ہیں یعنی روٹی کپڑا اور مکان بس تھوڑا تفاوت یہ رہا کہ روٹی ڈبل روٹی میں ،مکان ، کوٹھی میں اور بینک اکاوئنٹ سوئس بینک اکاوئنٹ میں بدل جاتا ہے ۔اور بچاری عوام وہیں کی وہیں دھکے کھاتی رھتی ہے۔سب منشور ملا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق محض کاغذی گھوڑوں کی طرح اڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کی اب کس کی لاٹھی اور کس کی بھینس ہوتی ہے ۔ سیاست کے شہ سوار کتنے اور کیسے بھیس بدلتے ہیں ۔

ان حالات میں الیکشن کمیشن ہی اس انتخابی کشتی کو شفاف الیکشن کروا کے پار لگا سکتے ہیں ،اس ضمن میں فخرالدین ،گی ابراہیم کی کوشش عوام کے لئے ایک مخلصانہ طرز عمل ہے ۔اور اسی میں ملک و عوام کی بھلائی ہے کہ واقعی اب ملک کو لوٹنے والوں سے پاک ہو جانا چاہئے ۔اور عوام کے پاس شاید یہ آخری موقع ہے کہ وہ اپنے شعور سے کام لیں اور بلا خوف خطر درست فیصلہ کریں ۔کیونکہ اب کیا ہوا کوئی بھی جذباتی فیصلہ ہمیں مذید پانچ سال بھگتنا ہوگا ۔لہذٓا کوئی مصالحت پسندی اور جذباتیت کو دامن گیر نہ رکھیں بلکہ وہ فیصلہ کریں جس کی ملک و قوم کو ضرورت ھے ۔
Dr Fouzia Iffat
About the Author: Dr Fouzia Iffat Read More Articles by Dr Fouzia Iffat: 7 Articles with 4904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.