کراچی سے شائع ہونے والے
رجحان ساز ادبی مجلے” کولاژ “کا پہلا شمارہ دیکھا تو حیرت اور مسرت کے ملے
جلے جذبات سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں
علم دوستی اور ادب پروری کی یہ ایک درخشاں مثا ل ہے ۔علم و ادب کی یہ شمع
فروزاں اذہان کی تطہیر و تنویر کا ایک اہم وسیلہ ثابت ہو گا ۔ ممتاز ادیب
اور دانش ور،نقاد اور محقق اقبال نظر اور با کمال شاعرہ ، عالمی ادبیات کی
نباض ،پاکستانی ادبیات پر گہری نظر رکھنے والی جدید افسانہ نگار اور مترجم
محترمہ شاہدہ تبسم کی ادارت میں شائع ہونے والے اس مجلے کی پہلی اشاعت ہی
سے ادب میں جمود کے خاتمے کی نوید ملی ۔قارئین کے دلوں کو ایک ولولہءتازہ
نصیب ہوا ۔ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز مجلس ادارت کے یہ بے لوث رکن
نہایت عجز و انکسار سے ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ ارمغان ادب پیش
کرنے کے بعد کسی قسم کی برتری ،احساس تفاخر یا اپنے فقید المثال کارنامے یا
عظیم الشانی کا میابی پر کسی زعم کا اظہار نہیں کرتے ۔اکثر دیکھا گیاہے کہ
ادبی مجلات کے مدیر مجلے کے اداریے میں اپنے علم و فضل کے دریا بہا دیتے
ہیں اور دبے لفظوں میں خود ستائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔کولاژ
کا پہلا شمارہ اس اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے کہ اس کے پہلے شمارے کا اداریہ
قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر دکھا رہا ہے ۔ ادبی مجلہ کولاژ کی
مجلس ادارت نے خون دل سے گلشن علم وادب کو نکھارا ہے اور تخلیق فن کی مشعل
فروزاں کرنے کے بعد اسے سر عام رکھنے کے بعد اپنے ادارتی کلمات میں محض ایک
مختصر جملہ لکھنے کے بعد قارئین پر اس بات کا فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس
مجلے میں شامل تحریروں کے محاسن اور معائب پر اپنی رائے دیں اور مجلے کے
ادبی مقام اور منصب پر کوئی فیصلہ صادر کریں ۔مجلس ادارت نے اس اداریے میں
بہت مختصر سی بات کی ہے مگر وہ جو کچھ کہہ گئے ہیں وہ فکر و نظر کو مہمیز
کرنے کا وسیلہ ہے ۔اس دیار میں ان کی بات کو سمجھنے والے موجود ہیں ۔اداریہ
ملاحظہ فرمائیں :
”پہلا کولاژ حاضر ہے ۔“
وفیات کے تحت سب سے پہلے نہایت خلوص اور درد مندی سے ان ہستیوں کو یاد کیا
گیا ہے جو افق ادب اور فنون لطیفہ پرمثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رہے اور
اجل کے ہاتھوں غروب ہو کر عدم کی بے کراںوادیوں میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو
گئے ۔راہ جہاں سے گزر جانے والے ان نابغہءروزگار تخلیق کاروں میں آفاق
صدیقی،شہزاد احمد ،عبیداللہ بیگ ،اظہر جاوید اور مہدی حسن شامل ہیں ۔ممتاز
شاعر اور ادیب مجروح سلطان پوری نے اپنے رفتگاں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا :
بے تیشہءنظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
مجلے کی ترتیب کیا ہے یہ تو سبد گل چیں ہے جسے ایک نظر دیکھ کر دھنک رنگ
منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔آئیے اس دھنک پر نگاہ ڈالیں ۔ابتدا میں حمد و نعت
کا گلدستہ ہے جس کی عطر بیز مہک قلب و جاں کو معطر کر دیتی ہے ۔سورہءفاتحہ
کا منظوم ترجمہ ثمینہ راجا (مرحومہ )نے کیا ہے، حیات۔ رضوی امروہوی کی لکھی
ہوئی حمد باری تعالیٰ اور شان الحق حقی ،سرشار صدیقی اور صفدر صدیق رضی کی
لکھی ہوئی نعتیں پڑھ کر دل کو سکون ملا ۔ آرٹ کے لفظ ”کولاژ “کے مفہوم اور
تاریخی پس منظرپر رشید بٹ کا مضمون تاریخی اور دستاویزی تحقیق کا عمدہ
نمونہ ہے ۔اس شمارے میں اکیس (21) افسانے شامل ہیں ۔اردو کے عالمی شہرت کے
حامل نئے اور ممتاز افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے شامل کر کے اس حصے کو
بہت قابل مطالعہ اور دلچسپ بنا دیا گیا ہے ۔اس حصے میں شامل تمام افسانے
اپنے واحد تاثر کی وجہ سے گہری معنویت کے حامل ہیں ۔ حصہ افسانہ میں شامل
افسانہ ”ایک عورت دو مرد “ قاری کو چونچکا دیتا ہے ۔ محترمہ شاہدہ تبسم نے
اس افسانے میں تانیثیت کے موضوع پر اپنے کما ل فن کا ثبوت دیا ہے ۔اس
افسانے میں پر تاثیر حقیقت نگاری اور فطرت نگاری قاری کو اپنی گرفت میں لے
لیتی ہے ۔اس معاشرے میں ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر نے اپنے
مکر کی چالوں سے خواتین کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر دیاہے ۔ان کی
زندگی میں کھلنے والی امیدوں کی کلیاں شرر بن چکی ہیں اور ان کی آہیں بے
اثر ہو کر رہ گئی ہیں ۔عورت کو متاع عصمت و ناموس سے محروم کرنے والے
درندوں کو اس افسانے میں آئینہ دکھایا گیا ہے ۔ان کے قبیح کردار اور کریہہ
چہرے سے نقاب اٹھا یا گیا ہے ۔یہ افسانہ ان اخلاق باختہ اور مشکوک نسب کے
ننگ انسانیت مردوں کے لیے عبرت کا تازیانہ ہے جو غربت وافلاس کے پاٹوں میں
پسنے والی حالات کے ہاتھوں بے بس و لاچار عورتوں کی عزت لوٹ کر اپنی راہ
لیتے ہیں اوران مظلوم عورتوں اوران کی نا جائز اولاد کا کوئی پرسان حال ہی
نہیں ہوتا۔
کولاژ میں شامل سمیع آہوجا کا لکھا ہوا میورل ”تحیر عشق میں بے خبری “اور
ممتاز رفیق کالکھا ہوا طویل مختصر افسانہ”ریشم گلی “عمدہ تحریریں ہیں ۔مصنفین
کے وسیع مشاہدے ،عملی زندگی کے تجربات اور فعال تخلیقی شخصیت کے تمام نقوش
ان تحریروں میں جلوہ گر ہیں۔شاعری کا حصہ بھرپور ہے ۔اس شمارے میں سینتیس
(37)شعرا کی غزلیں شامل ہیںجب کہ چوبیس (24)شعرا کی نظمیں اس مجلے کی زینت
بنی ہیں ،تین شعرا کے دوہے اور گیت شامل ہیں اور محترمہ شاہدہ تبسم کے
قطعات بھی مجلے کی آب و تاب میں اضافہ کر رہے ہیں ۔نامور ادیب ،شاعر اور
دانش ور سعود عثمانی کے اسلوب کا خصوصی مطالعہ بھی اس مجلے میں شامل ہے ۔اس
خصوصی مطالعہ میں تین اہم مضامین شامل ہیں جو کہ محترمہ شبنم شکیل (مرحومہ
)،پروفیسر جمیل احمد عدیل اور نسیم سید نے تحریر کیے ہیں۔یہ مضامین تجزیاتی
مطالعے کا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتے ہیں ۔آرٹ اور مصوری کا حصہ نہایت دلکش
ہے اسے محترمہ عروسہ جمالوی اور فرحان احمد جمالوی نے بڑی محنت سے رنگ ،خوشبو
اور حسن و خوبی کے استعاروں سے مزین کیا ہے ۔رشید بٹ کی تحریریں اس مجلے کے
حسن کو نکھا رہی ہیں ۔ان کی رپور تاژ”آسمان تلے پہلا دروازہ “،شن ژونگ کے
ناولٹ ساز زندگی کا اردو ترجمہ اور کولاژ کی تفہیم ان کے منفرد اسلوب کو
سامنے لاتی ہیں ۔اپنے عہد کے ادبی معائر اور تہذیبی ارتقا کو سمجھنے میں یہ
تحریریں نہایت اہم ہیں ۔حفیظ جالندھری کے ہاتھ کا لکھا ہوا پاکستان کا قومی
ترانہ اس شمارے کا ایک اہم مخطوطہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔جب تک یہ
دنیا باقی ہے یہ ترانہ ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن بنا رہے گا ۔مضامین کے
حصے میںشامل بیس (20)اہم اور مفید مضامین اس شمارے کی اہمیت اور ثقاہت کو
چا چاند لگا رہے ہیں ۔تمثیل کے عنوان سے بختیار احمد کی تخلیق ”الحمرا“ فکر
و نظر کے نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے ۔اسٹریت تھیٹر کے عنوان سے چار
تحریریں شامل اشاعت ہیں۔اقبا ل نظر کی تحریریں ”چاندی کے ورق “ او ر”
انٹرویو“ان کے منفرد اسلوب کی عکاسی کر رہی ہیں ۔ان تحریروں کا ایک ایک لفظ
مصنف کی مضبوط اور مستحکم شخصیت کے تما م اہم پہلوﺅں کو قاری کے سامنے لاتا
ہے ۔مصنف کا ذوق سلیم ان کی بصیرت ،فکر و خیال ،خلوص اور درد مندی ،جذبات و
احساسات اور معاشرتی زندگی کے تمام ارتعاشات اور نشیب و فراز اپنے دامن میں
سموئے ہوئے ہے۔انٹرویو ایک یاد گار تحریر ہے ۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے
کہ ہم انگریزوں کی بھونڈی نقالی میںمصروف رہتے ہیں ۔اصل معاملہ یہ ہے کہ
1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد یہاں کے باشندے ایک مستقل نوعیت کے احساس کم
تری میں مبتلا ہو گئے جس سے گلو خلاصی تا حال نہیں ہو سکی ۔لسانی اعتبار سے
آج بھی ہماری قومی زبان کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔یہاں اب بھی
متعدد کالے انگریز موجود ہیں جو اپنے آقاﺅں کی زبان بول کر غلامانہ ذہنیت
کو تقویت دیتے ہیں ۔ مقامی زبانوں اور قومی زبان میں اظہار خیال کرتے قت ان
کی زبان پر آبلے پڑ جاتے ہیں،بھوئیں تن جاتی ہیں اور وہ اپنے سامنے بیٹھے
ہوئے لوگوں سے جو قومی یا علاقائی زبان میں بات چیت کرتے ہیں توہین آمیز
سلوک کرتے ہیں ۔اقبال نظر نے واضح کر دیا ہے کہ اقوام عالم اگر تہذیبی دوام
کی آرزو مند ہیں تو انھیں عصری آگہی کو اپنا نصب العین بناناہو گا اور قومی
تشخص کو اولیت دینا ہو گی ۔اس حصے میں شامل ”تین عورتیں ایک کہانی
“(انشائیہ)اور ”کصد “(فکاہیہ)زندگی کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر
کرتی ہیں ۔درویش نامہ اس مجلے کا ایک دلچسپ حصہ ہے ۔اس میں اقبال نظر کی
شگفتہ تحریر ”قصہ دوسرے درویش کا تیسرے کی زبانی “شامل ہے ۔لائق مصنف نے
اپنی بصیرت ،شگفتہ مزاجی ،زندہ دلی اور رجائیت پسندی کو بروئے کار لاتے
ہوئے اس تحریر کو زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کی کلید بنا دیا ہے ۔اپنی
درخشاں اقدار و روایات کو پروان چڑھانے کی خاطر مصنف نے اپنی گل
افشانیءگفتار سے قاری کو مسحور کر دیا ہے ۔آج کے دور کا لرزہ خیز اور اعصاب
شکن المیہ یہ ہے کہ مسلسل شکست دل کے باعث زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید
خطرات کا سامنا ہے ۔بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈ لا رہا ہے اور ابن الوقت ،موقع
پرست ،جو فروش گندم نما ننگ انسانیت درندے ”مک مکا “ کرنے میں مصروف ہیں ۔مجبوروں
اور مظلوموں کا کوئی پرسان حال نہیں جب کہ مفاد پرستوں اور بے ضمیروں کے
وارے نیارے ہیں ۔ان اہل جو ر کی آنکھوں میں بلا شبہ کسی ایسے جانور کا بال
پڑ گیا ہے جس میں وفا اور حیا نام کو نہیں ۔اقبال نظر کا اسلوب پتھروں سے
بھی ا پنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے ۔
خطوط کے حصے میں عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں کے خطوط شامل ہیں ۔اس حصے
میں سترہ (17)خطوط شامل ہیں جو ادب اور عصری آگہی کا ایک معتبر حوالہ
ہیں۔کچھ مکتوب نگار ایسے بھی ہیں جن کے مکاتیب ہم اب کبھی نہ پڑھ سکیں گے ۔میری
مراد پروفیسر آفاق صدیقی،ڈاکٹر محمد علی صدیقی ،اظہر جاوید اور شبنم شکیل
ہیں ،جن سے فرشتہءاجل نے قلم چھین لیااور علم و ادب کا ہنستا بولتا چمن
مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں موج زن رہے گی ۔ان
کا نام افق ادب پر تا قیامت مثل آفتاب ضو فشاں رہے گا ۔بہ قول محسن بھوپالی
:
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور
روشنی کی طرح سفر میں ہیں
کولاژ کے اس شمارے میں کئی ایسی تحریریں شامل ہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں
گی ۔ان تحریروں کے تخلیق کار اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یادیں
اس وسیع و عریض عالم آب و گل میںاس طرح گردش کر رہی ہیں کہ جس سمت بھی نظر
اٹھتی ہے ان کی دبنگ آواز سنائی دیتی ہے کہ نجات دیدہ و دل کی گھڑی ابھی
نہیں آئی بڑھے چلو کہ ابھی منزل بہت دور ہے ۔ اردو ادب کے وہ آسمان جو
دائمی مفارقت دے کر زیر زمیں چلے گئے ان میں ثمینہ راجا،اظہر جاوید ،شبنم
شکیل اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے نام شامل ہیں ۔کولاژ نے ان کی یاد گار
تحریر یں ان کی زندگی میں حاصل کیں اور انھیں شامل اشاعت کر کے ان کی یادوں
کو دوام بخش دیا ۔راہ جہاں سے گزر جانے والے ان چاند چہروں کی عطر بیز
یادیں ہی اب باقی رہ گئی ہیں ۔بہ قول شاہدہ تبسم :
شام کی کروٹوں سے رنگ کئی
یو ں جبین فلک سے آتے ہیں
ٹوٹتی ہے افق پہ سلوٹ سی
جیسے کچھ لوگ روٹھ جاتے ہیں
تراجم کی اہمیت پر کولاژ نے اپنی توجہ مرکوز رکھ
ی ہے ۔تراجم کی افادیت مسلمہ ہے ۔ان کے اعجاز سے لسانی اعتبار سے زبان کی
ثروت میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی یافتہ زبانوں سے علوم و فنوں کی منتقلی کے
ذریعے افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد امکانات پیدا
ہوتے چلے جاتے ہیں ۔تراجم کے ذریعے قارئین ادب کو ندرت تخیل ،موضوعاتی تنوع
،وسعت نظر اور علم و دب کے ارتقا کے بارے میں آگاہی ملتی ہے ۔تراجم کے
ذریعے تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے شعبوں میں نئے میلانات سے روشناس
کرانے میں مدد ملتی ہے ۔دو تہذیبوں کے سنگم سے جہاں نئے اسالیب کی تفہیم کی
راہ ہموار ہو جاتی ہے وہاںزبان میں اظہار و ابلاغ کے نئے دریچے وا ہوتے چلے
جاتے ہیں۔رشید بٹ نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی دے کر چینی مصنفہ شن ژونگ کے
ناولٹ کو مسحو رکن بنا دیا ہے ۔
کولاژ کی اشاعت اردو زبان و ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے ۔اس کے
معجز نما اثر سے اردو ادب میں بالعموم اور پاکستانی ادبیات و عالمی ادبیات
میںبالخصوص فکری توسیع کے نئے مواقع پیدا ہوں گے ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی
جا سکتی ہے کہ اس قسم کے رجحان ساز ادبی مجلات لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت
کر دیتے ہیں اور اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کر دیتے ہیں ۔قارئین ادب کو
تخلیقی وسعت سے آشنا کرنے کا داعی یہ رجحان ساز مجلہ طلوع صبح بہاراں کا
نقیب ہے ۔میری دعا ہے کہ اس کے وسیلے سے نئے حقائق تک رسائی کے امکانات
پیدا ہوں اور وطن ، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی اور روحانی وا بستگی
اور والہانہ محبت کے جزبات پروان چڑھانے میں مدد ملے ۔ |