پہلے ایک لطیفہ: ایک شیرکی شادی
ہو رہی تھی، بارات کی روانگی ہوئی تو ایک چوہا بارات کے آگے آگے جھوم جھوم
کر ناچنے لگا۔ شیر نے پوچھا کہ شادی تو میری ہے تم کیوں ناچ رہے ہو؟ چوہے
نے مسکرا کر جواب دیا کہ شادی سے پہلے میں بھی شیر ہی تھا اور ہنستا
مسکراتا تھا! لیکن اب میرے چہرے پر ہنسی کے آثار کی بجائے آثار ِ قدیمہ کے
آثار پائے جاتے ہیں۔ شادی سے پہلے میرے چہرے پر ہر وقت خوشیاں ناچتی تھیں
پر اب اس پر پریاں اور ہوائیاں ناچتی ہیں۔ شادی سے پہلے میرے منہ پر نور
برستا تھا اب پھٹکار برستی ہے۔ اب میرے حالت کچھ یوں ہے کہ:
۔کیا پوچھتے ہو ہم سے شادی کی لذتیں ۔۔۔ ہم کو تو مسکرائے اِک زمانہ گزر
گیا
۔ یا پھر: ہنسی کو آنے دیتی ہے نہ غم کو جانے دیتی ہے ۔۔بیٹھی ہے یاد بیوی
کی سَر پہ پاسبان ہو کر
چہرے پڑھنا بھی ایک فن کہلاتا ہے۔ پچھلے زمانے میں حکماءحضرات مریض کا چہرہ
دیکھ کر بیماری بتا دیتے تھے۔ آ جکل بھی کچھ پھنے خان چہرہ دیکھتے ہی بتا
دیتے ہیں کہ آنے والا پیسے لینے آیا ہے کہ دینے۔مرحوم اداکار رنگیلا صاحب
اسکرین پر جیسے ہی جلوہ افروز ہوتے تو لوگ انکی شکل دیکھ کر ہی کھلنا شروع
کر دیتے تھے۔پر مرحوم لہری ، ننھا اور کمال احمد رضوی صاحب سیرس فیس اور
ڈائیلاگ ڈلیوری سے لوگوں کو ہنستا دیتے تھے۔ منور ظریف کے تو کیا کہنے۔ایک
زمانے میں ایک اشتہار چلتا تھا کہ ۔۔۔۔:آخر لوگ ہمارا چہرا ہی تو دیکھتے
ہیں! پر شادی سے پہلے چہرا ، شادی پر سہرا ، بچے کے بعد بہرا اور اسکے بعد
اندھیرا ہی اندھیرا۔
چہرے بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلا: ہنستا چہرہ، روتا چہرہ، اداس چہرہ،
کتابی چہرہ، گول چہرا، لمبا چہرہ۔ بعض لوگوں کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ یوں
سجی رہتی ہی جیسے شیرے پر مکھیاں۔ انکے پیٹ میں چاہے مروڑ اٹھ رہے ہوں ،
چاہے فراغت جانگیے میں ہی ہو جائے پریہ مسکراہٹ کہ خو نہ چھوڑیں گے۔ کچھ
لوگوں کے چہرے بہت ہی اداس اور پریشان ہوتے ہیںکہ جیسے ابھی ابھی میرا یا
انجمن سے پٹ کر آرہے ہوں۔ یا سارے جہاں کا درد انہی کے دل میں ہو، یاپھر
جیسے قطرینہ کیف یا بپاشا باسو نے شادی سے انکار کر دیا ہو۔ مسکراتے چہرے
دیکھ کر لوگ اکثر غلط فہمی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں مثلا: ایک لونڈے کو صرف
اس بنا پر ایک لڑکی سے مار کھانی پڑی کہ لڑکی کے ہنستے چہرے کو دیکھ کر ا س
نے لائن مار دی تھی! غصے والے چہرے بھی عجیب ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے
سڑا ہو ا بینگن ہو یا پھر باسی گوبھی کا پھول۔ دیکھا جو چہرا تیرا ، موسم
سہانا لگا ۔ کچھ چہرے بڑے بڑے اور کتابی سے ہوتے ہیں خاص طور سے بڑے اور
کتابی چہرے والی لڑکی کو دیکھنے ، پڑھنے اور سمجھنے میں ہی گھنٹہ لگ جاتا
ہے۔ اسکا چہرہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسپر واقعی تین سو صفحات
کی کتاب لکھنی ہو۔ چشما لگے چہرے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ ہر وقت چوبیس گھنٹے
چہرے پر ایک چو کھٹا دربان سجا ہوتا ہے۔ اگر کبھی غلطی سے چشمہ اتار کر گھر
چلے جائیں تو بیگم جوتے مار کر گھر سے نکال دے اور بچے وٹے لیکر پیچھے لگ
جاتے ہیں کہ پتہ نہیں کون چوڑھا چمار گھر میں گھس آیا ہے ۔کچھ چہرے بہت ہی
خوفناک قسم کے ہوتے ہیںکہ جب بھی بچہ روئے ، کھانا پینا نہ کرے یا نہ سوئے
تو انکی شکل دکھا کر ڈرا دھمکا کر اسے سلادیا جاتا ہے۔ویسے جب بیوی صبح سو
کر اٹھے تو اسوقت اگر کسی بچے کو اسکا چہرہ دکھا دیا جائے تو تاعمر بچہ
نیند میں ڈرتا رہے گا اور کسی جھاڑے پھونکے کابھی اثر نہیں ہوگا!
اب اگر مزید بات کریں خواتین کی تو یہ سبھی کو معلوم ہے کہ یہ میک اپ
تھوپنے میں ما ہر ہوتی ہیں ، روٹی کے بغیر گزار لیں گی پر سرخی پالش کے
بغیرانکی زندگی جنگل کے سادھو کی سی ہے ۔ پارلر کی سجی دھجی دلہن جب صبح سو
کر اٹھی تو میاں اسکا چہرہ دیکھ کر ہی بے ہوش ہوگیا۔ پانی کے چھٹے ما کر
اٹھایا تو اسنے اپنی بیوی کو پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔ اسی طرح ایک شادی
میں بارش کیا آئی کہ سب خواتین کے منہ دھل گئے اور کچھ پتہ نہ چلا کہ کونسی
عورت کس کی بیوی ہے جس کے جو مالِ غنیمت ہاتھ لگا لے اڑا۔ اس موقعہ پر بچوں
کی آہ وزاری اتنی عروج پر تھی کہ چڑیل اور جن بھوت سے نہ ڈرنے والے بچے بھی
سسکیاں لے لے کر رو رہے تھے۔ اسی طرح ایک توے کے جیسے کالے رنگ کی خاتون کو
جب چاند کی طرح چمکا کر اسٹیج پر لایا گیا تو اس بیچارے کے ہاتھ پاﺅں اور
کالی گردن کو پارلر والی جلدی میں کریم لگانا بھول گئی۔یہ سب دیکھ کر
لوگوںکا کھایا پیا بھی باہر آگیا اور اکثر لوگ امراضِ معدہ اور الٹیاں کرنے
کی وجہ سے ہسپتال جا پہنچے۔
اسی طرح بیوی جب غصے اور اچھے موڈ میں ہو تو تب بھی اسکے چہرے کے تاثرات
مختلف ہوتے ہیں۔ مثلا غصے میں آپ اسے تارا مسیح، چنگیز خان، ہمایوں قریشی،
زکوٹا جن،کالی بھانڈ، افریقی یا حبشی بلی، بھنگن، جمعدارنی ، سویپرانی،
اوڈنی، اجڈ، جاہل ، گنوار،امریش پوری، نانا پاٹیکر یا کسی بھی ولن، اداکار
یا اداکارہ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ غرضیکہ اسے جتنے چاہے القابات سے نواز
دیں اسکے لیے کم ہیں ۔ اگر کبھی ونس اِن اے بلو مون اچھے موڈ میں ہو بھی تو
آپ سمجھ جائیں کہ اسنے ضرور نئے سونے کے بندے یا جھمکوں کی بات کر نی ہوگی،
ان جھمکوں کے چکر میں وہ آپ سے اچھی خاصی جھک مارے گی، پر آپ اسکی جھک میں
نہ آئیے گا، کیونکہ یہ جھک مرانیاں یونہی چکر دے کر جھٹ جھٹ میں نئے جھنجٹ
میں پھنسا کر ایک اور غلط رستے پر ڈال کر فساد پانا شروع کر دیتی ہےں، جیسے
کہ ایک جھوٹا لطیفہ: بیگم ڈے پر ایک شوہر کا بیگم کو پیغام: میری پیاری
بیگم سوال کچھ بھی ہو، جواب تم ہی ہو۔رستہ کوئی بھی ہو ، منزل تم ہی ہو۔دکھ
کتنا ہی ہو ، پر خوشی تم ہی ہو۔ ارمان کتنا بھی ہو ، آرزو تمہی ہو۔ غصہ
جتنا بھی ہو پیار تم ہی ہو۔ خواب کوئی بھی ہو تعبیر تم ہی ہو۔ یعنی ایسے
سمجھو کہ سارے فساد کی جڑ تم ہی ہو!۔
ٓاسی طرح سیانے کہتے ہیں کہ بیوی جب سو کر اٹھے تو میاں اسے دیکھنے سے
پرہیز کرے کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ اسمیں اور اسمیں؟؟ کوئی فرق نہیں رہتا۔ اسی طرح
اگر کوئی خاتون ایک ماہ تک اپنے ہونٹوں کے اوپر اور ہونٹوں کے نیچے کے بال
نہ کھنچوائے تو دونوں میاں بیوی۔ میاں ، میاں ہی ہو جائیں اور لوگ کہیںگے
کہ یہ تو شاید Gay کپل ہیں۔
ہماری میرا صاحبہ کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ باڈی لینگویج کے ساتھ
ساتھ فیس لینگویج یعنی چہرے کے تاثرات دینے میں بھی بہت ماہر ہیں ۔ اوپر سے
ایک اخباری بیان میں یہ تاثر دے دیا کہ عزت اور شہرت؟؟ پر کوئی سمجھوتہ
نہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے لانگ مارچ کرونگی۔ وینا ملک کے تو
کیا کہنے کہ فیس پر کئی کئی بار بیس لگا کر بھیس بدلتی ہیں۔مرحوم سلطان
راہی جو کہ بندوق سے نکلی گولی بھی کیچ کر لیتے تھے انکے چہرے کے اثر ے
لفنگے تلنگے ویسے ہی ڈر کر بھاگ جاتے تھے۔ مرحوم مہدی حسن صاحب کے گیت سننے
کے ساتھ ساتھ انکے فیس پر دیکھے بھی جا سکتے تھے!
تو جناب ! قصہ مختصر، کسی کے چہرے کو پڑھنے میں کبھی غلطی مت کیجیے گا ،
نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ |