میں کچھ دیر تنہا رہنا چاہتی تھی،
اور شاید ایسا نہیں بھی تھا، کسی نہ کسی کا ساتھ بھی چاہتی تھی، بس مجھے
ندی کا خیال آیا اور میں اُسی کی جانب چلی آئی،، جیسا کہ میں اکثر کیا کرتی۔
سینڈلز گاڑی میں ہی رہنے دیے اور ننگے پاؤں ندی کی جانب بڑھی۔
ایک پتھر پر بیٹھ کر جونہی پاؤں پانی میں ڈالے تو پانی کی ٹھنڈک سے ایک
جھٹکا سا لگا، پر جلد ہی پانی کی مہربان لہریں میرے جسم کے درجہ حرارت سے
مانوس ہو گیٰں اور پانی نے جیسے مجھے آغوش میں لے لیا ہو۔ ایسے لگا کہ میں
ماں کی گود میں سر رکھ کے لیٹی ہوں اور وہ پوچھتی ہیں، کیا ہوا سارہ؟
بس میں تو جیسے پھٹ پڑنے کو ہی تیار بیٹھی تھی، وہ خود کو سمجھتا کیا ہے؟
اور پھر جیسےمیں نے اپنے حافظہ میں موجود سبھی برے الفاظ کا ذخیرہ ختم کر
دیا ہو۔
وہ ایک موڑ پر اچانک ہی سامنے آیا تھا اور مجھے دیکھتے ہی جیسے اُس کا منہ
پھٹا کا پھٹا رہ گیا ہو، اور نظریں تو جیسے مجھ پر گڑ ہی گئیں۔ اتنی خفت
محسوس ہوئی کہ کیا بتاؤں، یوں لگا کہ گلی کا ہر شخص میری جانب دیکھ رہا ہے
، اُس دن تو میں تیزی سے پاوں پٹختے نکل گئی ۔
پھر دوسرے دن تو جیسے حد ہی ہو گئی، ایک بار پھر اُس نے پھٹے پھٹے دیدوں سے
میرا استقبال کیا، جیسے ہی میں یونیورسٹی کی بس سے نیچے اُتری اور پھر
دیکھتا ہی رہا، اتنا غصہ اتنا غصہ کہ میں کیا بتاوں، سیدھی اُس کے پاس گئی
اور ایک بھر پور تھپڑ رسید کر کے جو منہ میں آیا کہہ دیا، شکل دیکھی ہے تُم
نے آئینے میں؟ کالے کلوٹے، شرم نہیں آتی تمہیں؟ اور پتا نہیں کیا کیا، بس
جب دل کی بھڑاس پوری نکل گئی تو گھر کی راہ لی۔
مجھے ہمیشہ سے ہی سرخ سفید لوگ پسند تھے، میرا آئیڈیل گورا چٹا گبھرو جوان
تھا۔ ہر وقت خواب میں اُسے دیکھتی تھی، پتہ نہیں کب، کہاں، کیسے ملتا ہے،
اس کا انتظار تھا بس۔ پر اب تک ایسا کچھ بھی ہوا نہیں تھا، جانے کب کہاں ،
کیسے کچھ ہو جاﺀے۔
اگلے دہ تین دن حیران کن تھے، اب وہ مجھے دیکھتے ہی آنکھیں جھکا لیتا تھا،
اور پھر پاس سے ایسے گزر جاتا کہ جیسے میرا وجود ہی نہیں تھا، پر یہ مجھے
بے چینی کیسی ہے؟ میں پریشان کیوں ہوں؟ جیسے کسی چیز میں دل لگتا ہی نہیں
ہے۔
میرے پاؤں پانی میں لہریں بنا رہے تھے اور لہروں کا اُتار چڑھاؤ جیسے کہ
میرے سینے میں اُٹھتی لہروں کی طرح بے چین تھا۔ پھر جیسے ایک آواز سی آئی
اور لہریں پوچھنے لگیں، تُم چاہتی کیا ہو سارہ؟
ارے وہ سانولہ ہے، بالکل عام سا، کچھ بھی تو خاص نہیں اُس میں، میں بولی۔
لہروں کا زیر و بم جیسے کچھ اور تیز ہو گیا اور وہ بس اتنا بولیں ہممممم
اور پھر چپ
کچھ بولو نہ پیاری ندی، میں بچپن سے ہی تُم سے اپنے دل کی باتیں شیر کرتی
آٴی ہوں، تُم ایک ڈائری ہو جس میں میری زندگی کی سبھی باتیں درج کر دیتی
ہوں۔
ندیا، پیاری ندیا کچھ تو کہو نہ کہ یہ بے چینی کیوں ہے؟
تُم چاہتی ہو کہ وہ پھر سے تمہیں دیکھےٰٰ اور پھر ندی میں اُٹھتی لہریں پُر
سکون ہو گئیں- |