یہ 6ستمبر1965ءکی تاریک رات تھی،
اس رات پاکستان کے لوگ اپنی تاریخ کی پہلی آمریت کے سائے تلے نیند کی حسین
وادیوں میں کھوئے ہوئے تھے،پاکستان سے ہزاروں میل دُور اس کا”ازلی
دشمن“اپنے کمین گاہ میں پاکستان کو اپنے خونخوار پنجوں سے نوچنے کے منصوبے
کے آخری مرحلے کو انتہائی خفیہ طریقے سے عملی جامہ پہنارہاتھا،رات کی
تاریکی نے اس کی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالا ہوا تھا،کوئی نہیں جانتا تھا کہ
پاکستان کے باسیوں پہ کیا آفت ٹوٹنے والی تھی؟!
چند ہی ساعتوں بعدصبح کی پوپھٹنے والی تھی،ایسے میں فضا میں اچانک گڑگڑاہٹ
سی ہوئی،پاک سرزمین پرفضا سے بارودی گولے داغے جارہے تھے،تھوڑی ہی دیر میں
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی کہ بھارت ماتا
کے سپوت غیر اعلانیہ طور پر پاکستان پر چڑھ دوڑے تھے،اس وقت سرگودھا ائیر
بیس پر پاکستان ایئر فورس کے چند لڑاکا طیارے معمول کی گشتی پرواز کے لیے
تیار کھڑے تھے،بھارت کے جنگی جہازوں کوپاکستان کی طرف آگے بڑھتا دیکھ کران
میں سے ایک” شاہین“ نے فورا ہی اڑان بھری اور فضا میں بلند ہوتے ہی دیکھتے
ہی دیکھتے مخالف کی جانب تین گولے داغ دئیے،جس سے حیرت انگیز طور پر تین
طیارے تباہ ہوگئے،ابھی” شاہین “سنبھل ہی پایا تھا کہ اپنے آپ کو 6طیاروں کے
نرغے میں گھِرا ہوا پایا، دشمن کے یہ طیارے ”شاہین“کو ہائی جیک کرنا چاہتے
تھے،”شاہین“نے اپنے آپ کو دشمن کے حصار میں دیکھا تو فضا ہی میں چند غوطے
لگائے اور پھر پلٹ کر 6میں سے 5کو تیس سیکنڈ میں اُڑادیا،فضا دھماکوں کی
گھن گرج سے گونج رہی تھی،لوگ خوفزدہ ہوکرگھروں میں دبکے بیٹھے تھے،اقبال کے
اس شاہین نے آن کی آن میں بزدل دشمن کے 5طیاروں کو دھول چٹادی تھی اور اس
کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا تھا،اس طرح ”شاہین“نے5منٹ میں 8لڑاکا
طیارے تباہ کرکے عالمی ریکارڈ بناڈالا تھا۔
عالمی ریکارڈ بنانے والے پاکستان ائیر فورس کے اس جوان کا نام ”ایم ایم
عالم“تھا،جن کا پورانام محمد محمود عالم تھا،یہ پاکستان فضائیہ کے نڈر،محب
وطن اور مایہ ناز شاہین تھے،یہ 1934ءکو کلکتہ میں پیدا ہوئے،جب پاکستان
آزاد ہوا،تب ان کی عمر 14سال تھی،1947ءمیں یہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت
کرکے مشرقی پاکستان کے صدر مقام ڈھاکہ چلے آئے،انہوں نے اپنی تعلیم وہیں
مکمل کی،ڈھاکہ یونیورسٹی میں ائیر اسکواڈرن کے ممبر رہے اور 1954میں
پاکستان ائیر فورس جوائن کی،جب انہوں عالمی ریکارڈ بنایا،تب یہ سرگودھاائیر
بیس میںاسکواڈرن لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
پیر کی صبح مجھے جب یہ جانکاہ خبر ملی کہ یہ شاہین اپنے ساتھ ہونے والے
استہزاءسے دلبرداشتہ ہوکر ہم سے روٹھ گیا ہے،سچی بات تو یہ ہے کہ ایک لمحہ
کو اطمینان محسوس ہواور سوہنے رب کا شکر ادا کیا کہ اپنے قومی محسن کی سزا
ختم ہوئی ، انہیںاپنوں کی اذیت سے نجات تو ملی....ورنہ ہم نے تو کوئی کسر
باقی نہیں چھوڑی تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے ،جب میں میڈیا سائنس کی ”الف بے“کاطالب علم تھا،اہم
شخصیات سے تو ملنے کا ہمیشہ سے جنون سا رہا لیکن جب صحافت سے منسلک ہوا تو
ابتدا میں خود ہی کئی اہم شخصیات سے رابطے ہوئے،بچپن کا شوق اورفیلڈ کی
ضرورت،دونوں چیزیں جب یکجا ہوئیں تو راستے آسان تر ہوتے گئے،میں ان شخصیات
کی کھوج میں لگا ہوا تھا جو بجا طور پر پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں،ایسے
لوگوں کی فہرست میں ایم ایم عالم کا نام ”ٹاپ ٹین“میں آتا ہے،سوجب ان کے
بارے میں کھوجنا شروع کیا تومایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا،کیونکہ عالم صاحب
گوشہ نشین ہوچکے تھے،لوگوں سے رابطے نہیںرکھتے اورنہ کسی سے ملتے تھے،بڑی
کوشش کرکے دیکھ لی،لیکن کچھ مل کے نہیں دے رہا تھا۔
کئی ایسے صحافیوں سے رابطے ہوئے ،جو خود ایسے لوگوںسے ”کنیکٹڈ“رہتے
ہیں،لیکن کسی کو کچھ نہیں پتا تھا،ابتدا میںمجھے چند بنیادی باتیں پتا
چلیں،ایک سینئر صحافی بتارہے تھے کہ عالم صاحب ”مسلمان“ ہوچکے ہیں، داڑھی
رکھ لی اور تبلیغ میں وقت لگاتے ہیںلیکن اپنے قریبی احباب کے سوا ملتے کسی
سے بھی نہیں ہیں۔پی اے ایف کی انتظامیہ بھی کسی سے نہیں ملاتی۔انہی دنوں
مجھے میڈیکل کی وہ طالبہ بھی ملیں،جن کی ان تک ذاتی رسائی تھی،جو خود کو
عالم صاحب کی ”منہ بولی بیٹی“کہتی ہیں،انہوں نے ہی مجھے ساری باتیں تفصیل
سے سمجھائیں،ان کی مصروفیات الگ اور ان کی کچھ مجبوریاں بھی تھیں،جس کی وجہ
سے وہ کسی سے ملتے نہیں،میںنے بارہا کہا کہ مجھے ملوادیں،لیکن جواب یہی
ہوتا کہ کسی میڈیا پرسن سے فون پر بھی نہیں بات کرتے،میں اصرار کرتا رہا کہ
ایک طالب علم ہونے کے ناطے ملاقات کرادیں،مگر یہ بڑی بات کہ انہوں نے میرا
پیغام وصول کرلیا اور اپنی دعاﺅں سے نوازا ،ورنہ تو ان کے بارے میں یہ بات
بھی سنی ہے کہ انہوں نے ایک چیف ایئر مارشل سے بھی ملاقات سے انکار کردیا
تھا۔
میں ایک عجیب سی کشمکش میں تھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟پاکستان کا یہ مایہ ناز
شاہیں اپنوں سے اتنا خفا کیوں ہے؟مجھے ان باتوں کو کھوجتے ہوئے ایک عرصہ
ہوچلا تھا ،تب مجھے ایک ریسرچ پیپر سے ان کی علیحدگی کی وجہ سمجھ آئی،اس
بارے میں کئی من گھڑت کہانیاں مشہور ہیں،بعدازاںانہیں بنگلہ دیشی حکومت آفر
کرتی رہی کہ آپ بنگلہ دیش آجائیں،ہم آپ کو اپنا چیف مارشل بنائیں گے،مگر
انہوں نے اس پیشکش کویہ کہہ کر ٹھوکر ماری کہ میںپاکستان کے ساتھ جینا مرنا
پسند کرونگا۔
پاک فضائیہ سے علیحدگی کے بعدآفیسرز میس کے ہی ایک روم میں انہوں نے اپنی
زندگی کو ایک نئے رخ پر استوار کیا،عبادات میں لگے رہتے، تازہ ترین کتابوں
کا مطالعہ کرتے،دنیا بھر کے بہترین میگزینز اور اخبارات میں مستغرق
رہتے،دیرینہ رفقا ءمیں سے جوبھی ان سے ملنے جاتا،انہیں کتابوں کے تحائف سے
ضرور نوازتے،ان کی کوئی فیملی نہیں تھی،مگر انہوں نے کبھی یہ محسوس ہونے
نہیں دیا کہ وہ اس بھری دنیا میں تنہا ہیں۔
بہرحال!آج یہ قومی ہیرو ہم میں نہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے قابلِ
فخرسرمایہ تھے،آج پاکستان کایہ محب وطن شاہین ہم سے رُوٹھ کر ایک اور جہاں
کو کُوچ کررہا ہے،آئیے! اس موقع پر کچھ نہیں تو کم از کم اپنی دعاﺅں کے
سہارے ان کو رخصت کرچلیں!کیا ہم اپنے اس بوڑھے اور رُوٹھے ہوئے شاہین کے
لیے اتنابھی نہیں کرسکتے....؟
(ایم ایم عالم کی زندگی کے چند گوشے انتہائی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ
ساتھ دلچسپ بھی ہیں،انکی زندگی میں کیا نشیب و فراز آئے؟کیا کچھ جھیلنا
پڑا؟وہ خفا کس سے تھے اور کیوں؟اگلے کالم میں ہماری نگاہوں سے اوجھل ان
ساری باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔) |