اسلام دشمن حسینہ واجد کے کالے کرتوت

بنگلہ دیش کی اسلام دشمن حکومت نے اپنے ملک میں مختلف مقاصد کے تحت اسلام پسندوں (خاص طور پر جماعت اسلامی) کے خلاف عدل و انصاف کے نام پر جو مذموم مہم چلارکھی ہے وہ جمہوریت ، سیکولرازم اور مساوات کے حسن پر داغ لگانے، بنگلہ دیش کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی سے دوچار کرنے کے لئے کافی ہے جمہوریت کے نام پر آمریت کو فروغ دینے اور سیاسی انتقام کی خاطر عدل و انصاف کی دہائی دینے کا ذمہ دار کسی زمانے میں (بنگلہ دیش کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والی اندرا گاندھی نے بھی) ’’ہنگامی حالات (ایمرجنسی) نافذ کرکے کیا تھا لیکن اگلے انتخابات میں عوام نے ان کو جو سبق سکھایا تھا وہ اگر وزیر اعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد یاد رکھتیں تو وہ آج جو مذموم ہی نہیں قابل نفرت اقدامات کررہی ہیں وہ شائد ان سے گریز کرتیں لیکن زوال و ذلت سے دوچار ہونے والے حکمرانوں کی عقل یوں ہی خبط ہوجاتی ہے اور وہ یونہی اپنی قہر آپ کھو دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی تخلیق میں ایک اور اہم کردار ادا کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسلام پسند خاص طور پر جماعت اسلامی اور مولویوں سے بڑی نفرت تھی وہ سب ہی مولویوں (بہ شمول مولانا مودودی مرحوم اور مولانا مفتی محمود کو ’’ٹھاہ‘‘ (گولی مار نا چاہتے تھے لیکن خود ہی پھانسی پر لٹک گئے تھے) اسلام پسندوں سے نفرت نے اور آمربن جانے والوں کے انجام سے بے خبر حسینہ واجد اپنے ’محسنوں‘ کے حشر سے شائد ہی بے خبر ہوں!

حسینہ واحد نے اپنے مخالفوں اور حریفوں کے خلاف سخت کارروائیوں کے ذریعہ ایک تیر سے کئی شکار کررہی ہیں جو کچھ اس طرح ہے۔

اپنی حکومت کی نااہلی، کرپشن، مہنگائی اور عوام کے مخالف حکومت رجحان سے حسینہ واجد کو اقتدار ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے اور ان کے دو بارہ اقتدار میں آنے کی راہ میں اسلام پسندوں اور جماعت اسلامی کی قوت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے وہ خالدہ ضیاء (جون کی اصل حریف ہیں) کو کمزور اور جماعت اسلامی پر پابندی لگاکر ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ والا معاملہ کرنا چاہتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور اسلام پسند جماعتوں اور اس کے کارکنوں کو ان کے مبینہ جرائم کی سزا دلا کر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا ان کا مقصد نہیں بلکہ اصل مقصد تو اس بہانے ان جماعتوں کا خاتمہ کرکے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی تدبیر کرنا ہے۔

آج ہر اسلامی ملک میں بلکہ جہاں جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے وہاں مسلمانوں میں ہی ایک چھوٹا سا حلقہ اسلام کی پابندیوں سے بیزار ہے وہ ان پابندیوں سے آزاد رہنے خود کو سیکولر اور اسلامی حکومت کو سیکولر بنانا چاہتا ہے نیز سیکولر مملکتوں کو تمام اسلام دشمن مغربی دنیا، امریکہ عالمی صیہونی تحریک، اسرائیل اور ہمارے ملک کے اسلام دشمن عناصر کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ سیکولر حکمرانوں کے اقتدار کی حمایت اور حفاظت بھی کرتے ہیں۔ حسینہ واجد ان کی مدد کی خواہاں ہیں۔ اسی لئے سیکولر بن گئی ہیں اور اپنے مدد گاروں (دراصل آقاؤں)کو خوش رکھنا چاہتی ہیں۔

پاکستان بنگلہ دیش کی علاحدگی کے لئے جدوہد کے دوران سابق مشرقی پاکستان میں علاحدگی کی تحریک کے مخالف بھی کم نہ تھے ان میں جماعت اسلامی سب سے آگے تھی۔ جس طرح حیدرآباد میں سقوط کے بعد اور پہلے ’رضا کاروں‘ کے مظالم کی جھوٹی، فرضی، من گھڑت داستانیں ہندوستانی اخبارات خود آکاش وانی کے زبردست پروپگنڈے کے ذریعہ صحیح مان لی گئیں تھیں بالکل اسی طرح بنگلہ دیش میں ’مکتی با ہنی‘ کے انسانیت کو شرمادینے والے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئے پاکستانی افواج اور جماعت اسلامی کی عسکری تنظیموں ’البدر‘ اور ’الشمس ‘کے رضا کاروں کے مظالم کی من گھڑت، فرضی اور بے بنیاد داستانیں انتہائی مبالغہ آرائی کے ساتھ ہندوستانی اخبارات،آکاش وانی، بی بی سی، وائس آ ف امریکہ اور بیرونی ممالک کے اخبارات اور ریڈیو کے ذریعہ اتنی کثرت سے بیان کی گئیں کہ پاکستانی فون اور اس کے مدد گاروں کے مظالم سچ مان لئے گئے اور مکتی با ہنی (جس میں پڑوسی ہندوستانی علاقوں سے آر ایس ایس اور بنگال کی فرقہ پرست ہندو عسکری تنظیموں کے غنڈے محض لوٹ مار، قتل، زنا کار اور تباہی و تخریب کاری کے لئے میں شامل تھے) فراموش کردئے گئے ۔

مندرجہ بالا حقائق کا پردہ فاش ہوجاتا اگر مبینہ خط کاروں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جاتے اسی وجہ ’صلیب احمر (ریڈکراس) اور دیگر بین الاقوامی انجمنوں اور ہندوستانی حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور نہ ہی خود مرحوم شیخ مجیب الرحمن نے اس تعلق سے اپنے چند سالہ دورِ حکومت میں کوئی دلچسپی دکھائی بلکہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک نے 1947ء میں لاہور میں اسلامی سربراہان مملکت کی کانفرنس کے موقع پر جن شرائط کے ساتھ بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا اس میں عام معافی وغیرہ بھی شامل تھیں۔ اسی لئے جنگی جرائم اور کسی بھی قسم کے مقدمات کا مسئلہ ہی ختم ہوگیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے جانشینوں نے خاص طور پر جنرل ضیاء الرحمان (جن کو بغاوت میں گولی ماردی گئی تھی جنہوں نے پاکستانی فوج سے بغاوت کرکے پاکستانی افواج پر پہلی گولی چلائی تھی) نہ صرف اس تعلق سے بلکہ شیخ صاحب کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تھی کیونکہ اس قسم کی انتقامی کارروائیوں سے حالات مزید بگڑ سکتے تھے۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ جنرل ضیاء الرحمان کی بیوہ خالدہ ضیاء نے بھی اپنے شوہر کے قاتلوں اور جنرل ضیاء الرحمان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف مقدمات نہیں چلائے تھے۔ حسینہ واجد کی یہ حرکتیں نہ صرف معقولیت کے دائرے سے خارج ہیں بلکہ ان کی کوتاہ نظری و کم ظرفی سے زیادہ اسلام دشمنی کا نتیجہ ہیں۔

ہندوستان میں انگریزوں کے وفاداروں کے خلاف آزادی کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس تعلق سے جوش ؔ ملیح آبادی کا مصرعہ خاصہ مشہور ہے ؂
انگریز کا غلام گورنر ہے آج بھی

تحریک پاکستان کے مخالف بھی بعد میں وزارت و سفارت سے سرفرار کئے گئے تھے۔ اس لئے 1971ء کے حوالے سے تقریباً43 سال بعد مقدمے چلانا سزائیں دینا صرف اور صرف انتقام اور عدل و انصاف کے نام پر اسلام دشمنی ہے اور جماعت اسلامی کا خاتمہ کرنا ہے۔

بے جواز غیر معقول حکمت عملی اور اقدامات کو عوامی مطالبہ یا تحریک کارنگ دینے کے لئے اسے عرب بہار کی تحریک خاص طور پر قاہرہ کے تحریر اسکوائر کی بھونڈی نقل ڈھاکہ کے معروف چوراہے شاہ باغ کے نام سے کی جارہی ہے وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ حکومت کی نہ صرف زیر نگرانی وزیر سرپرستی ہی ہیں بلکہ حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور پر منتظم کیا جارہا ہے ۔ اس تعلق سے یہ ڈھونگ رچانے والے یہ بھول جاتے ہیں۔ بنگال کے مسلمان تاریخی طور پر اسلام پسند رہے ہیں۔ 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں ہی عمل آیا تھا۔ مسلمانوں کی شناخت کی برقراری اور حقوق کے لئے جرأت مندی کے ساتھ شاندار جدوجہد کرنے والے مولوی ابوالقاسم فضل حق کو بنگال والوں نے مشیر بنگال کا خطاب دیا تھا۔ 1940ء میں لاہور مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں مولوی فضل حق نے قرار داد پاکستان پیش کی تھی۔ اسلام پسند بنگالی مسلمان بھلا رسول اکرم صلعم اور ان کی ازواج مطہرات کی شان میں گستاخی کرنے کی سزا میں غیرت مند مسلمانوں کے ہاتھوں مار ڈالے جانے والے راجیو حیدر شوبھن کی موت پر نہ افسوس کرسکتے ہیں اور نہ ہی احتجاج کرتے ہوئے اور نہ اس مرد ود ملعون کو شہید کہہ کر درجہ شہادت کی توہین نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ڈرامہ حسینہ واجد کی حکومت کررہی ہے۔ بنگال کے غیور وغیرت مندمسلمان نے جب تسلیمہ نسرین کا قیام اپنے ملک میں برداشت نہیں کرسکتے ہیں تو وہ راجیو کی موت کے بعد اس کی بلاگBLAGGپر تائید کرسکتے ہیں؟ اب جو تائید بلاگ برا راجیو حیدر شوبھن کی ہورہی ہے وہ حکومت کے خریدے ہوئے بندے کررہے ہیں (جن میں ہندو بھی شامل ہیں)۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے صدر پرنب مکرجی نے بھی بغیر سوچے سمجھے ملعون راجیو کو شہید کہہ دیا!

بنگلہ دیش کے واقعات کے سلسلے میں ایک ٹریبونل کا ذکر بار بار آرہا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام پسندوں اور جماعت اسلامی کے زعماء کو تختہ دار تک پہنچانا ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ یہ انتقام 1971ء کے واقعات کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ (بحوالی عبدالرافع رسول۔ روزنامہ منصف10 مارچ)

1991ء کے عام انتخابات میں حسینہ واجد جماعت اسلامی سے اتحاد کرکے جماعت کو حکومت میں شریک کرکے حکومت بنانا چاہتی تھی لیکن حسینہ واجد کی پیشکش جماعت نے مسترد کی ۔ جماعت نے خالدہ ضیاء کی حکومت میں بھی شرکت نہ کی۔1996ء میں بھی جماعت کے نام نہاد جنگی جرائم اور 1971ء کا کوئی ذکر نہ تھا۔ جاریہ صدی میں جب اسرائیل کا اثر بنگلہ دیش پہنچا تو امریکہ و اسرائیل کی مدد سے حسینہ واحد نے گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے جماعت کے خلاف پروپگنڈہ شروع کیا تھا اور اب جماعت کی قوت کو ختم کرنے کے لئے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے جو ٹرینوبل قائم کیا گیا ہے۔ اس کی شفافیت، طریقہ کار پر ساری دنیا میں اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ یوروپی یونین کی انسانی حقوق کی کمیٹی امریکہ برطانیہ کی حقوق انسانی کی کمیٹیاں، قانون دانوں کی انجمنیں ان میں ہندوستانی ادارے بھی شامل ہیں۔ ٹرینوبل کے صدر (جواب ہٹ چکے ہیں) محمد نظام الحق 20سال قبل جب وہ صرف وکیل تھے نہ جانے کس اختیار کے تحت عوامی عدالت لگاکر اپنے طور پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت سنائی تھی پھر وہ جج بن گئے۔ ان جج صاحب نے اپنی جانبداری، انصاف کو قتل کرنے اور نام نہاد سماعت مقدمات برائے قتل کے سارے رازبریسلزمیں مقیم وکیل محمد ضیاء الدین سے 17گھنٹے طویل گفتگو (جون انٹرنیٹ اسکایب پر ہوئی تھی) اور 230ای میلز میں بیان کی جوکہ نہ جانے کس طرح اخبار اکانوسٹ (لندن) کے ہاتھ آگئی اور اس کو دسمبر 2012کے پہلے شمارے میں شائع کردی اسی کو بنگالی اخبار امارادیش میں حر ف بہ حرف شائع کردیا گیا چنانچہ محمد نظام الحق مجبور ہوکر مستعفی ہوگئے۔ اس ٹرینوبل کا قیام مارچ 2010ء میں عمل میں آیا تھا ۔ معیار عدل ایسا ہے کہ مولانا دلاور حسین سعدی کو صرف ایک گواہ (جس نے 3-2منٹ میں گواہی دی تھی) کے بیان پر سزائے موت سنائی گئی اس سے قبل مولانا ابوالکلام آزاد کو سزائے موت اور عبدالقادر ملا کو عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ ایک طرف شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کو حسینہ واجد تحفظ دے رہی ہے ۔ دوسری طرف جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ حکومت جماعت اسلامی کے 90سالہ پروفیسر غلام اعظم مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد، میر قاسم علی، قمر الزماں اور خالدہ ضیاء کی پارٹی کے صلاح الدین قادر (فرزند فضل القادر چودھری) کو سزائے موت دینے کی خواہاں ہے اور ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کررہی ہے تاکہ ختم سال میں انتخابی کامیابی حاصل کرسکے۔

ہندوستانی اخبارات پوری طرح حسینہ واجد کی حمایت کررہے ہیں جن میں ٹائمز آف انڈیا ، ٹیلی گراف (کولکتہ) آنند بازار پتریکا نمایاں ہیں سب کا مقصد بنگلہ دیش کو سیکولر بناکر وہاں اسلام پسندوں کا خاتمہ ہے۔ حسینہ واجد بھول گئی ہے اﷲ کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ دشمنان اسلام کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے ۔ امریکہ اسرائیل اور ہندوستان بھی اﷲ کے قہر سے حسینہ واجد کو انشاء اﷲ تعالیٰ بچانہ سکیں گے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.