صاحبو !جمہوری تماشے کے مداریوں
نے بلاآخر اپنے آئینی مدت کے پانچ سال پورے کر لئے جانے والے بھی مسرور آنے
والے بھی خوش ہیں کہ ان کی باری آ ہی گئی اب وہ بھی پانچ سال کھل کر اگلی
پچھلی کسر نکالیں گے جن کی اکثریت اس قوم کی آذمائی ہوئی ہے ، جانے والے اس
لئے مسرور ہیں کہ وہ اپنی تمام تر بد اعمالیوں کے باوجود اٹھارویں ،انیسویں
،بیسویں ترامیم اور این ایف سی ایوارڈ کے تغمے سینے پر سجانے کے ساتھ ساتھ
گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بچھانے کے
معائدے رخصتی سے چند ثانیے پہلے سائن کر کے انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام
لکھوانے کے قابل ہو گئے ہیں نیتوں میں فتور کے عامل یہ مداری پورے پانچ سال
لوٹ کھسوٹ میں لگے رہے اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق یہ اتحادی
مداری قوم کے 180 کھرب ڈکار گئے ایران گیس پائپ لائن معائدہ میں اگر یہ
مخلص تھے تودو سال قبل کر لیا جاتا اب تک توانائی کا مسئلہ حل ہو جاتا یہ
معائدہ آنے والے مداریوں کے لئے گلے کے پھندے سے کم نہیں ہو گا خصوصا´ میاں
نوازشریف کے لئے سعودیہ سے قربت کی وجہ اسے نگلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور
ہو گا انہی کامیابیوں کو لے کر اتحادی مداری ایک بار پھر الیکشن میں اتریں
گے عوام کو بے وقوف بنا کر ان کی زندگیاں اوراجیرن کرنے کے لئے دوبارہ
اقتدار کے حصول کی سعی کریں گے یہ بلکھڑ اور جذبات میں بہہ جانے والی قوم
ان کے مداری پن اور ڈگ ڈھگی پر ناچنے کے لئے تیار بیٹھی ہے حالا نکہ
اٹھارویں ،انیسویں ،اور بیسویں ترامیم نے اگر کچھ دیا ہے تو صرف حکمرانوں
کو جن کے اثاثوں، اختیارات اور مراعات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پارٹی سربراہ
اپنی اپنی پارٹیوں کے آقا بن گئے ہیں ارکان اسمبلی اور ممبران ان کے غلام،
جب چاہوں کان سے پکڑ کر باہر کر دو،عوام پوچھنے میں یہ حق بجانب ہیں بے
تحاشہ قانون سازی کا فائدہ انھیں کیا ملا ؟جب کے حریص فطرت ان حکمرانوں نے
جاتے جاتے جو خزانے کا حال کیا اور اپنے چہیتوں کو نوازا یہ الگ داستان ہے
اوپر سے تاحیات اپنے لئے بھاری وظیفے اور کروڑوں کی بقایا جات کی وصولیاں
کر لی قومی خزانے کو باپ کی جاگیر سمجھ کر، ان میں قومی اسمبلی کی اسپیکر
فہمیدہ مرزا اور ارکان سند ھ اسمبلی سرِفہرست ہیں اور تو اور اپنے بعد آنے
والوں کو بھی ہڈی ڈال دی تا کہ وہ ان کی گٹیاں حرکتوں سے صرفَ نظر رکھیں
لیکن گاموں ماجھوں کو ان پانچ سالوں میں بجلی ،گیس ،پٹرول سے محروم ہی
نہیںرکھا گیا ان سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ایک رپور ٹ کے مطابق آٹھ
کروڑ سے زائد افراد خطے غربت کی لائن کراس کر چکے ہیں ڈالر ساٹھ روپے سے سو
روپے ہو گیا ہے جس سے مہنگائی میں جو ہوش ربا اضافہ ہوا ہے اس کی ایک جھلک
دیکھی جائے تو پانچ سالوں میں ایک سو سے چار سو فیصد قیمتوں میں اضافہ ہو
اہے سونا اٹھارہ ہزار سے ساٹھ ہزار کو پہنچ گیا ہے ،آٹا چوبیس سے چوالیس ،چینی
27 سے 74پٹرول 56 سے 104 ڈیزل 39 سے 110 روپے فی لیٹر،سی این جی تیس سے بڑھ
کر ستر روپے ،بجلی دو روپے 13پیسے سے بڑھ کر 13روپے 75پیسے فی یونٹ ،گھی
70سے 190فی کلو ہو گیا ہے ملکی معیشت کی جو تباہی ہوئی ہے اس کا ندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008میں ملکی قرضوں کا حجم چھ ہزار ارب تھا جو
اب بڑھ کر پندرہ ہزار ارب ہو گیا ہے جب کہ اندرونی قرضوں میں 7638ارب اضافہ
ہو گیا ہے یعنی حکومت نے گزشتہ پانچ سالوں میں جو قرضے لئے وہ گزشتہ ساٹھ
برسوں میں لیے گئے قرضوں سے ڈیڑھ گناہ زیادہ ہیں اداروں کی تباہی الگ سے
منہ چڑھا رہی ہے پی آئی اے ،اسٹیل ملز اور ریلوے تو بے گورو کفن لاش کی
مانند پڑے ہیں عدلیہ کی بحالی کا راگ آلاپنے والوں نے عدلیہ کے فیصلوں کے
آگے نہ صرف روڑے اٹکائے بلکہ این آر او ،ایفی ڈرین کیس ،حج اسکینڈل اور
میمو اسکینڈل تو حکمرانوں کی شجاعت کی داستان رقم کئے ہوئے ہیں، اسی ارب
ہڑپ کرنے والے تو قیر صادق سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود بیرون ملک مہمان
نوازی انجوائے کر رہے ہیں سیاسی شہادتوں کے اسیروں کو پانچ سال پورے کرانے
والے اداروں نے انھیں اب کی بار کوئی شہادت تو کریڈٹ پر نہیں لینے دی لیکن
گیس پائپ لائن اور گوادر کے پیچھے منہ چھپانے کا موقع ضرور مل گیا ہے
کیونکہ اس ملک کو بقا اور سلامتی کے لئے چونکہ یہ ضروری تھا کسی نے تو کرنا
تھا سو ان سے کروا لیا گیا جیسے بھٹو سے قادیانیوں کو غیر مسلم اور ایٹمی
پلانٹ کی بنیاد ،لوٹ مار کے اس پروان چڑھتے جمہوری کلچر میں الیکشن کمیشن
فوج اور عدلیہ کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62,63پر پوری طرح
عمل کروائے اور نئے فارم کے حوالے سے ان شکو ک و شبہات کو بھی دور کیا جائے
جن کا اظہار طاہر القادری ٹی وی چینلز پر کرتے پھر رہے ہیں جب کہ عوام اس
رپورٹ پر بھی مضطرب دکھائی دیتے ہیں کہ قرضے معاف کرانے والوں ،ٹیکس چوروں
کو بچانے کے لیئے اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور دیگر اداروں نے الیکش کمیشن کو
امیدواروں کی سکرونٹی کے عمل میں اپنے ڈیٹا تک رسائی سے معزرت کر لی ہے
حالانکہ سکرونٹی کمیٹی میں شریک اداروں ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر ،نیب اور
نادرا نے پہلے مکمل ڈیٹا تک رسائی کی یقین دھانی کروائی تھی جب کہ عوام کی
ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ جذبات ،تعلق برادری یا کسی ذاتی مفاد کو بالائے
طاق رکھ کر اپنے ووٹ کاصحیح استعمال کرے کیونکہ اسے گزشتہ پانچ سال کی اپنی
بے بسی کا اندازہ ہو جانا چائیے جب اس کی مدد کو فوج آئی نہ عدلیہ کہ سب اس
بات پر متفق تھے یہ گند عوام نے خود ڈالا ہے صاف بھی اسے خود ہی کرنا ہوگا
، اب موقع مل گیا ہے تو گند صاف کر دیجیئے ورنہ اصل صفائی والے آئیں گے؟ تو
پھر پیٹ سے لے کر قبا تک سب چاک اور بہت کچھ صاف ہو گا ،یا پھراگلے پانچ
سال بھی اسی طرح نئے آنے والے مداری کا تماشہ دیکھیے اور سر دھنئیے کیونکہ
جو بھی آئے گا اس کے ساتھی ستر فیصد وہی پرانے وراثتی سیٹوں کے عامل
جاگیردار اور صنعت کارہوں گے جو مشرف کے ساتھ بھی تھے زرداری کے ساتھ بھی
اور اب نئے مدااری کے ساتھ بھی وہی ہوں گے ؟تو پھر بدلے گا گیا صرف ٹوپی سر
بھی وہی دھڑ بھی وہی کرپشن سے لتھڑاڈالروں کی مالا کے اوپر جمہوری قبا پہنے
ہوئے ۔اپنے ان اشعار کے ساتھ اجازت :۔
تو ستم گر سے پوچھتا کیا ہے ۔۔۔درد کیا چیز ہے دوا کیا ہے
بیچ ڈالیں نہ یہ وطن کو بھی ۔۔۔۔راہنماؤں کا آسرا کیا ہے |