رسول ﷺ ایک سیاستداں

عرب اسلام سے قبل ایک بہت بڑی قوم تھی ، آثارِقدیمہ کے ماہرین نے حال ہی میں یہاں ایک لاکھ سال قبل کی تہذیب وتمدن کی نشان دہی کی ہے ،ان میں ہزاروں سال پہلے مدائن صالح کی ترقی اور تعمیری شان وشوکت پر آج بھی ان کے محلات وکھنڈرات دلالت کرتے ہیں ، یمن میں بلقیس کی قومِ سبابحیثیت ملک وقوم بہت ترقی یافتہ تھی ، ’’مارب ‘‘ڈیم اور اس کے نتیجے میں یمن سے سوئے شام نہروں کے دونوں جانب ہرے بھرے باغات کے تسلسل کا جو نقشہ قرآن کریم نے کھینچاہے ، تاریخ ِانسانی میں اسکی مثال ملنا اگر ناممکن نہ ہو،تو دشوار ضرور ہے ، تَبَابِعَہ اور َمناذِرہ وہ جلیل القدر ملوک تھے ،جو بادشاہ تُبَّع اور نعمان بن منذر کی طرف منسوب ہیں ، ان کی عالیشان درباروں اورجرّار لشکروں کا اندازہ ان پر بنی ہوئی عربی فلموں سے لگایا جا سکتاہے ، حجاز بطورِخاص مکہ قبیلۂ قریش کی وجہ سے ہمیشہ ایک آزاد نظم ونسق کے تحت قبائلی نظام کے تابع رہا ، شام ِعرب ،عراقِ عرب اور سیستانِ عرب میں بھی قدیم تاریخ کے أوراق میں عرب حکمرانوں کا مفصّل تذکرہ ملتاہے ، تاریخ کے علاوہ جدید ڈی این اے ٹیسٹوں سے بھی یہ ثابت ہو چکاہے کہ جزیرۃ العرب انسانیت کا مرکز رہا ، انسانی سوسائٹی یہیں سے ہوتے ہوتے پوری آباد دنیا میں پھیلی ،ان حقائق کے تناظر میں جب محقق اس قوم اور اس کے وطن پر نگاہ ڈالتاہے ، تواسے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے ،کہ یہ علاقہ اور یہاں کی قوم میں صدیوں سے سیاست رہی ہے ،قبائلی نظام میں ویسے بھی بچہ بچہ سیاسی ہوتاہے، قبائل اور برادری میں جرگوں کے نظام سے وہ بہت کچھ سیکھتاہے ، دیہات میں ان کے یہاں ہر گھرانے سے ایک فرد حجرے کی پارلمنٹ کا ممبر ہوتا ہے اور مختلف دیہاتوں میں ہر دیہات سے ممبر لئے جاتے ہیں ،یہ کوئی باقاعدہ تحریر شدہ معاھدے کے تحت نہیں ہو تا ، بلکہ سینہ بہ سینہ محفو ظ روایات ان کے اس نظام کی محافظ ہوتی ہیں، حجاز میں اسی طرح کاقبائلی نظام ہی رائج تھا، جسے عربوں کے یہاں (عُروبۃ) کہا جاتاہے ، مشکل یہ تھی کہ اس وقت کا قبائلی نظام آج کے نازی ازم اور فیوڈل ازم کی طرح خون، نسل اورقوم پرقائم تھا ،جس سے خونی اور نسلی تعصب عروج پر چلاجاتاتھا، اس نظام میں لڑاکا لوگوں کی اہمیت بہت ہوتی ہے ، رئیس ، سردار ، خان اور نواب سے محبت پوجاکی حد تک ہوتی ہے ، خواتین اور نوزائیدہ بچیاں یہاں تعذیب کا شکار ہوتی ہیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ، مرد انہیں اپنے لئے ویک پوائنٹ سمجھتے ہیں ، اسی لئے نومولود بچیوں کو توزندہ درگور بھی کیاجاتاہے ، اس معاشرے میں طاقتور کمزوروں کا خون چوستے ہیں ،ان کی روز افزوں اہانت ہوتی ہے، طاقتور ماوراء یا مافوق الفطرت رومانوی سمجھے جاتے ہیں ، اہل طاقت اور اہل غربت کی طاقت وغربت نسلوں میں چلتی ہیں ۔

جناب نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے وقت تمام عربوں میں یہی خونخوار نظام رائج تھا تبابعہ ،مناذرہ ، اہل سبا اور قوم صالح کی بادشاہتیں بھی ناپید ہوچکی تھیں ،بات بات پر لڑائی چھڑجاتی ،تو برسوں تک اس میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ، حرب ِبَسوس کی لڑائی کسی کے چراہ گاہ میں فاختے کے انڈوں پر ایک اونٹنی کے پیر پڑجانے سے شروع ہوئی تھی ، جس میں عربوں کا ایک عظیم رئیس کلیب اور شاہ تُبع کے ساتھ ساتھ ہزاروں جانیں ضائع ہوئی تھیں ، لیکن جنگ تھی جوکسی طرح ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ، یہی ایام تقریباًآپﷺ کی ولادت باسعادت کے ہیں ۔

آپ ﷺنے خامو شی کے ساتھ اس قوم میں اپنی حیاتِ طیبہ کی چالیس بہاریں ایسی گذاریں کہ کردار ،گفتار، حیا ء، عفت ، سیرت ، صورت ، امانت ، دیانت ،شجاعت،اور معاشرت میں ’’امین وصادق ‘‘ کے القاب اور ایوارڈز حاصل کرلئے ،حلف الفضول نزاعات کے پر امن حل کا ایک معاہدہ ہوا ،آپ ﷺنے اس کی مکمل تائید و تاکید فرمائی،بیت اﷲ کی تعمیر میں حجر ِاسود کے اپنے مقام پر رکھنے کا معاملہ ہوا ، جس پر کشت وخون کا خطرہ سب محسوس کرنے لگے ، آپﷺ نے حجر کو ایک چادر میں رکھکر سب رؤسائے قبائل سے اٹھوایا اور پھر اپنے مبارک ہاتھوں سے مخصوص شدہ مقام پر رکھدیا ،تجارت میں آپﷺ نے مکہ وشام میں شفافیت کے جھنڈے گاڑ دئیے، حضرت خدیجۃ الکبری سے عقد اسی وجہ سے ہوا۔

لیکن ان تمام صفات ِحسنہ وعالیہ کے باوجود آ پﷺکو چین نہیں تھا، آپ ﷺہوش سنبھالنے کے بعدسے ہر وقت متفکر رہتے ،انسا نیت کی اس ناہمواری، معاشرے میں ظلم وزیادتی اورجنگوں میں اس بے دریغ خونخواری کے حوالے سے سوچتے ، یہاں تک کہ یہ سوچ آ پﷺکو غارِحراء جیسے ایک گوشہ میں کئی کئی دن رات گذارنے پر مجبور کرگئی ،حسنِ اتفاق سے آپ کی زوجۂ محترمہ متموّل بھی تھی اور سمجھ دار بھی ، وہ آپ ﷺکے لئے توشہ تیارکرکے آپ ﷺ کے وہاں جانے پر صادکرتی ، قوموں اور پوری انسانیت کے لئے سوچ بچار کرنا اور عیش وعشرت کی زندگی گذارنا ، مستیاں کرنا ، محلات اور بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنا اگر جمع کرناممکن ہوتا ،توکاشا نۂ خدیجہ آپ ﷺ کیلئے کافی تھا ، لیکن فہم ِسیرت ہمیں بتاتی ہے کہ جب معاشرے بگڑ جائیں، سماج تباہ ہوجائے، اقوام اور انسانیت تباہی کے دہانے پر ہو اور آپ کواس کے متعلق تفکرات لاحق ہوں، تو پھر رات دن ایک کرکے طویل افکار اور سوچوں کے تلاطم خیز سمندروں میں غوطے لگا کر آپ اقوال وگفتار کے وہ ہیرے ڈھونڈ نکال سکتے ہیں ،جس کی چمک اور روشنی میں صدیوں تک انسانیت راہ پاتی ہو ، آج بھی قائدین وزعمائے انسانیت کو اسی طرح سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا ،تاکہ انسانی معاشرے کو ہلاکت خیزیوں سے نکال کر کامیابیوں کے قریب لایا جاسکے ، انہیں گردابوں سے نکال کرامن وآشتی کے ساحلوں سے ہمکنار کیاجاسکے ۔

چنانچہ ان طویل وعمیق تفکرات کے نتیجے میں اﷲ تعالی کو اپنے اس حبیب ﷺپر رحم آیا اور انہیں انسانیت کے فلاح وبہبود کے لئے ایک مکمل ضابطۂ حیات دینے کی ابتدا فرمائی ،آپﷺ اپنی قوم اور اپنے ہی معاشرے وشہر میں رہے ، وہیں پر آپ ﷺ نے ــ’’ـالاقرب فالاقرب‘‘ سے دعوت شروع کی ، ساتھی ورفقائے کاربناتے رہے ، جوں جوں دعوت وتبلیغ کا سلسلہ پھیلتا رہا،مخالفتیں اور عداوتیں بھی اتنی ہی ہمہ گیر ہوتی رہیں ،آپﷺ اپنی حکمت بالغہ سے ان کا مقابلہ فرماتے رہے ، کچھ ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑبھی توڑے گئے ، آپﷺ کے خلاف سازشیں ، پروپیگنڈے اور تمسخرات کا بھی ہجوم رہا، لیکن پائے استقامت میں فکری یا عملی کہیں لغزش نہ آئی ، حتی کہ شِعبِ ابی طالب میں آپ ﷺ کو بمع خاندان واہل اسلام تین سال تک مقاطعہ ، سوشل بائیکاٹ اور جلاوطنی کاسامنا بھی کرناپڑا ،عرب کی گرمی اور موسم سرماکی سردی ،بچوں بوڑھوں ،عورتوں اورجوانوں کی کھلے آسمان تلے بے یارومددگار ، بھوک وافلاس کے وہ دن اتنے خطرناک ہیں کہ چشم تصور سے بھی بدن لرزہ براندام ہوجاتاہے ، لیکن اصولوں پر سودے بازی ،’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے مذاکرات ، لہجے میں تر تراہٹ نام کی چیزوہاں عنقا اور معدوم تھی، اس استقلال واستقامت کے بدولت قریش کو ناک رگڑ کر اس ظالمانہ ،بہیمانہ اوروحشیانہ معاھدے سے دست بردار ہونا پڑا ، مگردعوت وتبلیغ اور مقاومت ومقابلہ دونوں پھر بھی زوروں پر تھیں ، آپ ﷺ نے اپنے دوستوں کو شاہِ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا،انہیں وہاں تمکنت دعزت ملی ، تومخالفین بھی پہنچ گئے ،لیکن اس سیاستداں نے اپنے پیروکار وں کو اصولِ سیاست اتنے ازبر کرائے تھے کہ قریش کو وہاں بھی منہ کی دکھانی پڑی ۔

آخر کا ر جب چشم فلک نے آپ ﷺکے استقلال اور مخالفین کے’’ استغلال ‘‘کو برداشت نہ کیا ،تو آپ ﷺ کوہمراہ اپنے اصحاب کے مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دی گئی ،گویا آپ ﷺایک مرتبہ پھر جلاوطن کئے گئے ، مدینہ منورہ پہنچ کر آپﷺ نے ایک عظیم سیاسی رہنما کی طرح نہایت بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں کے عرب قبائل اور یہود سے؛ تاریخی ’’ میثاقِ مدینہ ‘‘ تحریر کرواکر مختلف النوع نسلی ومذہبی اکائیوں کے باہمی امن و سلامتی کی داغ بیل ڈالی ،جس پر خود بھی سختی سے کار بند رہے اور دوسروں سے پابندی کراتے رہے ، یہ میثاق قیامت تک متنوع نظریات وافکارکی حامل سوسائٹیز کے لیے مینارۂ نوراورمشعلِ راہ ہے۔

بایں ہمہ جب یہاں بھی قریش نے آپﷺ کو چھیڑنے کی کوشش کی ،تو آپ ﷺ نے اقدامی ودفاعی ہرطرح کی جنگوں کے سامانِ حرب وضرب کی تیاری شروع کی ، بقول ایک اسرائیلی سابق خاتون وزیر اعظم:’’ ہم نے سیاست اس سیاسی پیغمبر ﷺسے سیکھی ، جس کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ،پہننے کو کچھ نہیں ،تعیش نام کی چیزنہیں لیکن آلات ِحرب ایک سے ایک تھیں ‘‘، یہی وہ نکتہ ہے ،جوقوموں کے عروج وزوال کا سبب بنتاہے ، مشکل حالات میں ،دشمن گھات میں بیٹھا ہواور حکمراں داد عیش دے رہے ہوں ، توتباہی یقینی ہے، اور ہرقسم کے حالات میں عوام اور،حکمراں کفایت شعار ہوں ،لیکن دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے وہ ہرطرح مسلح ہوں توپھر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے ۔

آپ ﷺنے مدینے میں ایک ایسی مثالی جمہوری ،فلاحی ریاست قائم فرمائی ،جس کی نظیر دنیا میں ملنامشکل ہے ،نہ وہاں بادشاہوں کی پوجاہوتی ہے ،نہ وزیروں کے نخرے ہیں ،نہ پولیس کا رعب داب ہے ،نہ اشرافیہ ہے ،عوام ہیں نہ خواص ،برابری ومساوات ایسی کہ آپ ﷺخود بھی’’ عبداﷲ و رسولہ‘‘ اﷲ کے بندے اور ان کے رسول کے علاوہ نہ شہنشاہ ہیں ،نہ رئیس ہیں ،نہ صدر ہیں ، نہ وزیر اعظم ہیں ،نہ امپائر ہیں ،نہ آپ ﷺکے علاوہ کوئی اور، آپﷺتک رسائی ہرکس وناکس کی بس میں ہے اور آپ ﷺ کے کبارِ صحابہ تک بھی پہنچ ایک عام انسان کی طرح ہے ،اسی لئے آپﷺ کی جماعت اور دائرہ کار میں روز افزوں وسعت ہورتی رہی اور آس پاس کے جعلی خداؤں کے بت گرتے رہے ،یہاں تک کہ آپ ﷺ نے صراحت کے ساتھ اپنے مابعد کسی جانشیں کا تعین بھی نہیں فرمایا ،بلکہ اسے عوام پر چھوڑ کر وصال فرماگئے ،کیا دنیا کی تاریخ ان مشکلات کے ساتھ حکومت وریاست حاصل کرکے ایک بے تاج بادشاہ بن جانے والے پھر اسی طرح جمہور عوام میں چھوڑ کر اسے نسلوں میں چلنی والی مملکتوں سے دوررکھکر جانے والے کی کوئی مثال دے سکتا ہے ؟

آپ کی سیاست اپنی ذات ،قبیلے اور خاندا ن کیلئے نہ تھی ، مفادات کیلئے نہ تھی ، نام ونمود کے لئے نہ تھی ، انسانیت کے لئے تھی ،’’کافر کافر ہی رہے لیکن معاشرت کے اصولوں سے تجاوز نہ کرے ‘‘کے اصول کو دیکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ آپﷺ حقیقی معنوں میں رحمت للعالمین تھے، صرف اہل اسلام نہیں منکرین کے لئے بھی ،سیاست کا تعلق ہی عوام سے ہے اور عوام میں سب ہیں ، لہذا آپﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں آج بھی پوری دنیا کے مسائل کا حل موجود ہے، بشرطیکہ فہم ِسیرت اور فقہِ سیرت کی استعداد ہو، اور مخالفین ِاسلام تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اس سیاستداں پیغمبر ﷺکی سیاست سے استفادہ کر نے کی صحیح نیت کریں ۔
صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877652 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More