پاکستان کے قبائلی علاقوں کی
سرگرم عسکریت پسند تنظیم کے ترجمان نے اپنے ویڈیو بیان میں پاکستان سے اپنی
مذاکرات کی پیشکش کو موخر کرنےکا اعلان کرتے ہوئے اس التوا کی وجہ حکومت
اور فوج کی غیر سنجیدگی قرار دیا ہے۔عسکریت پسندوں کی نزدیک پاکستان کی
حکومت اور فوج امن مذاکرات کےلئے سنجیدہ نہیں ہیں۔دوسری جانب انھوں نے اپنے
بیان میں پاکستانی عوام کو بھی دہمکی دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ وہ انتخابی
عمل سے دور رہیںاور پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی
کے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت نہ کریں۔عسکریت پسندوں نے جب تین فروری کو
فضل الرحمن ،منور حسن اور نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا تو ، تقریبا
تمام سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے پیشکش کا خیر مقدم کرتے
ہوئے ، حکومت سے فوری مذاکرات کا مطالبہ کیا ۔عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت
علما ءاسلام ف نے تو آل پارٹیز کانفرنسیں بھی کرلیں لیکن عسکریت پسندوں نے
اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس کو تو مسترد کیا اور قبائلی عوام کے ساتھ
منعقد ہونے والی فضل الرحمن کی کل جماعتی کانفرنس کا خیر مقدم کیا اور ایسے
خوش آئند قرار دےتے ہوئے ، مشروط طور اپنے اس مطالبے کو دوہرایا کہ پاک فوج
، مذاکرات کرے ، لیکن دوسری جانب پاک فوج پر عدم اعتماد کی باتیں بھی کیں
گئیں ، اب حالیہ بیان میں بھی واضح طور کہہ دیا کہ حکومت اور فوج سنجیدہ
نہیں ہیں۔عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جو عسکری گروپس ، ہزاروں بےگناہ
انسانوں کی قیمتی جانوں کی ہلاکت میں ملوث ہےں اور قومی ملکی اداروں کو
منظم سازش کے تحت نقصانات پہنچا رہا ہیں، وہ کس قدر مذاکرات میں سنجیدہ ہے
۔کیا اس نے پاکستان کی معصوم عوام کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ختم کردیا تھا
کہ حکومت یا فوج ان سے مذاکرات کرتی یا پھر انھوں نے کوئی کمیٹی تشکیل دی
تھی جو حکومت سے مذاکرات میں اس بات کی ضمانت مہیا کرتی کہ پاکستان میں
دہشت گردی( بقول سیاسی جماعتیںبے امنی) ختم ہوجائے گی ۔ عسکریت پسندوں کی
جانب سے اپنے لیڈروں کی رہائی کے مشروط مطالبات سامنے آئے ۔ لیکن سیز فائر
کے حوالے سے ایسا کوئی عملی مظاہرہ نہیں ہوا کہ کم از کم وہ ایک معینہ مدت
تک از خود فائربندی کرکے ثابت کرتے کہ یہ تمام دہشت گردی کے واقعات ، ان کے
ہاتھوں ہو رہے ہیں اور عسکرےت پسندوں کے تمام گروپ متحدہیں۔یقینی طور پر
پاکستان کی عوام چاہتی ہیں کہ مملکت میں امن قائم ہو ، لیکن سیاسی مقاصد کے
لئے اکھٹا ہونے والی جماعتیں ، بے اختیار حکومت اور دہشت گردی کے خلاف لڑتی
ہوئی فوج کے لئے ایک ایسا موڑ آگیا ہے کہ ان تمام فریقین لچک کا مظاہرہ
کرنے کو تیار ہیں لیکن خاص طور پر عسکریت پسند بھی اپنے عمل سے یہ ثابت
کرتے کہ مملکت میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات جو کہ بقول سیاسی جماعتیں
بے امنی ہیں ،امن کی کنجی ان کے پاس ہے ۔لیکن عسکریت پسندوں میں ایسی کوئی
لچک نظر نہیں آتی۔آل پارٹیز کانفرنسیں کے بعد سیاسی جماعتوں کی پر اسرار
خاموشی نے ثابت کردیا ہے کہ انھیں محض ، سیاسی جلسوں ، جلوسوں میں اپنی
جانوں کی ضمانت درکار تھی ، جو بادی النظر لگتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی
جانب سے دے دی گئی کیونکہ ان کی جانب سے صرف واضح طور پر ایم کیو ایم ، پی
پی پی اور اے این پی کو نشانہ بنانے کی دہمکی میں عوام کو متنبہ کیا گیا ہے
کہ وہ شرکت نہ کریں ۔یعنی اگر عوام نواز شریف ، منور حسن اور فضل الرحمن کے
جلسوں میں شرکت کریں تو انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔اب عوام یہ سمجھنے سے
قاصر ہےں کہ انھیں کس لئے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر انھیں جان و مال کا
نقصان دیا جارہا ہے۔ امریکہ کی حمایت تو حکومت نے کی ہے ، اس میں بے گناہ
انسانوں کا کیا قصور ہے کہ انھیں سر راہ دہماکوں سے اڑا دیا جاتا ہے ۔ یا
پھر ووٹ کے اہلیت نہ رکھنے والے معصوم بچے ، جو اسکولوں میں صرف پڑھنے جاتے
ہیں ، تو انکے اسکولوں کو کیوں تباہ کیا جاتا ہے ؟۔ انکا کیا قصور ہے کہ
انھیں علم کی روشنی سے محروم کرکے اندھیروں میں دھکیلا جارہا ہے۔قومی غیرت
کا سودا تو سیاست دانوں نے کیا ہے اور وجہ بتانے سے قاصر ہیں کہ انھیں کتنی
قیمت پر فروخت کیا گیا ہے ؟۔"قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند"کے مصداق محض
چند ڈالروں کے عوض اپنے اقتدار کو دوائم بخشنے والوں کے جرم میں پاکستانی
عوام تو شریک نہیں ہےں۔عسکریت پسندوں کو عوامی بے بسی کا اندازہ نہیں ہے کہ
وہ بے گناہ انسانوں کی دہشت گردی کے واقعات میں احتجاج ااور آس کی تصویر
بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی عوام ایکجانب ڈروں حملوں میں بے قصور ہلاک ہو رہی
ہے تو دوسری جانب پاکستانی حکمران اپنی قوم کو دھوکہ دیکر امریکی مفادات کا
تحفظ کر رہے ہیں ۔ ڈرون حملوں کے خلاف مستقل جرات کا مظا ہرہ ارباب اختیار
کے پاس نہیں ہے۔عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی میں یہی عوامل
کارفرما ہیں کہ دونوں جانب سے کوئی فریق سنجیدہ نہیں ہے ،لیکن نشانہ صرف
عوام بن رہی ہے۔عسکریت پسندوں کی سیاسی و فکری تفریق بھی قدم قدم پر واضح
ہے ۔پاکستانی عوام بھی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ان حکومتی اداروں پر
خود اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بے گناہ انسانوں کی ہلاکت پر ان کے
کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔پاکستانی عوام یہ بھی جانتی ہے کہ بیرونی
جارحیت سے افغانستان اور عراق میں بلاشبہ لاکھوں مسلمانوں کو شہید ، بے گھر
اور وسائل سے محروم کردیا گیا اور ان کے حلفیوں کو بھی شدیدنقصان اٹھانا
پڑا ہے ،عسکریت پسنداگر اسلامی تعلیمات کے داعی ہیں تو انھیں امریکی حکومت
کی ظلم و تشدد کی پالیسی میں عوام کے خلاف ، اپنے رویوں میںتبدیلی لانا
ہوگی۔امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹر یاس ایک بار کہہ چکے تھے کہ
امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات روز افزوں ہیں اور امریکہ افغانستان سے نکلنے
کےلئے اب بھی پاکستان کا محتاج ہے ،امریکی شکست وذلت اور ناکامی و رسوائی
میں پاکستانی عوام نے بہت قربانیاں دیں ہیں ۔ امریکہ پاکستان کو اپنے زیر
اثر رکھنے کےلئے ہر طریقہ و حربہ استعمال کر رہا ہے اور پاکستانی عوام یہ
سوچنے لگی ہے کہ کہیں پاکستانی عسکریت پسندوں نے بھی تو کہیں ہماری غیرت ،
جان و مال کا سودا ، ہمارے کرپٹ ،سیاست دانوں ، جاگیرداروں ، سرمایہ کاروں
، سرداروں اور خوانین کی طرح تو نہیں کرلیا ۔کیا دونوں نے ملکر اونے پونے
دام پاکستانی عوام کو فروخت تو نہیں کردیا؟یہ وہ اشارے ہیں جو عوامی ردعمل
کے نتیجے میں پاکستانی عوام کے بدلتے موڈ کو ظاہر رہے ہیں ، فریقین کو
سمجھنا ہوگا کہ جس دن عوام خود باہر نکل آئی ، تو پھر نفرت کا ریلا ، سب کو
بہا کر لے جائے گا۔ |