23 مارچ ایک تاریے ساز دن ہے
شاید ہمارے نزدیک اس دن کی حیثیت چھٹی منانا ہلہ گلہ کرنا ہی رہ گئی ہے۔
اِس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے ہم پہلے ہی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں
کون سی پارٹی میں جانا ہے کہاں نہیں جانا لیکن افسوس کے ہم دن کی اہمیت کو
نہ جان پائے آج اگر کسی پاکستانی نوجوان سے پوچھ کر تو دیکھیں یہ دن
پاکستان میں کیوں منایا جاتا ہے تو شاید ہی وہ آپ کو صحیح جواب دے سکے یہ
وہ دن ہے جب لاہور کے وسیع منٹو پارک میں ایک لاکھ انسانوں کے سامنے اور
قائداعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی وہ مشہور قرارداد
منظور کی تھی جس نے قرارداد لاہور کا نام حاصل کیا لیکن بعد ازاں ہندو پریس
نے واویلا مچایا اِس قرارداد کو قرارداد پاکستان کا نام دیا حالانکہ اس میں
کہیں بھی پاکستان کا ذکر نہ تھا۔ اِس طرح اِس کا نام قرارداد لاہور سے
قرارداد پاکستان رکھ دیا گیا۔ 23 مارچ سے چار دن قبل لاہور میں ایک الم ناک
حادثہ ہوا جس میں پولیس اور خاکساروں کا تصادم ہو گیا اور مسلمانوں کی بہت
سی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ حکومت پنجاب نے نیم فوجی جماعتوں کو خلاف
آئین قرار دے کر پابندی لگا رکھی تھی کہ اِن جماعتوں کے رضاکار اپنی مخصوصی
وردی پہن کر برسرعام پریڈ نہیں کر سکتے۔ اِس پابندی کی زد خاکساروں پر بھی
پڑی تھی، علامہ مشرقی دہلی میں تھے، ان کے اخبار ”الاصلاح“ میں جو لاہور سے
شائع ہوتا تھا کئی روز سے سخت اشتعال انگیزفضا میں چھپ رہے تھے جن میں بار
بار لکھا جاتا تھا کہ خاکساروں کو چاہیے کہ سرسکندر حیات خان کے گرد لاشوں
کے انبار لگا دیں۔ اسی نوع کی اور بھی غیر ذمہ دار تحریریں شائع کی جا رہی
تھیں۔ 19 مارچ کی صبح کو خاکساروں کے جتھے پریڈ کرتے ہوئے بھاٹی دروازے کے
اندر نمودار ہوئے پولیس نے روکنا چاہا لیکن خاکساروں نے اپنے صیقل شدہ
بیلچوں سے پولیس کے سپاہیوں اور افسروں کو مارنا شروع کر دیا۔ پولیس والوں
کی تعداد تھوڑی تھی اس لیے خاکسار دائیں بائیں مارتے آگے نکل گئے پولیس کے
چند افسربری طرح زخمی ہوئے ایک انگریز افسر ہلاک بھی ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں
بہت سی مسلح پولیس لاریوں پر سوار ہو کر آ گئی اور خاکساروں کا قتل عام
شروع کر دیا۔ 50 کارکن موقع پر شہید ہوئے شام تک لاہور میں چاروں طرف غم کے
بادل چھا گئے، 22 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس شروع ہونے والا تھا۔
اِس لیے ہر شخص کی زبان پر یہ بات تھی کہ ایسی رنجیدہ اور اشتعال انگیز فضا
میں اجلاس ہو بھی سکے گا یا نہیں، سرسکندر نے بہت کوشش کی کہ اجلاس ملتوی
کر دیا جائے لیکن قائداعظم نے کہا اجلاس ہر صورت میں ہوگا۔ 21 مارچ کی صبح
قائداعظم لاہور تشریف لائے۔ ان کے اعزاز میں ایک بے مثال اور عدیم النظیر
جلوس نکالنے کا تمام سامان مکمل ہو چکا تھا لیکن خاکساروں کے حادثہ خونیں
کی وجہ سے چونکہ فضا سوگوار تھی اس لیے انہوں نے جلوس سے انکار کر دیا۔ 21
مارچ کی شام کو غروب آفتاب کے بعد لیگ کونسل کا اجلاس ہوا جس میں جنرل
سیکرٹری کی رسمی رپورٹ کے بعد ضابطے کے مطابق مجلس انتخاب مضامین (سب جیکٹس
کمپنی) کے چند مزید ارکان نامزد کیے گئے۔ ان میں پنجاب سے ڈاکٹر محمد عالم
اور میاں فیروزالدین احمد کو جگہ ملی، قائداعظم نے لاہور پہنچتے ہی اخباری
نمائندوں کو بیان دیا کہ لیگ اِس اجلاس میں انقلاب آفریں اقدام کرے گی، اِن
کے اس اشارے پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں ہونے لگیں، ہندو ا
خبار نے بھی بڑے بڑے حاشتے چڑھائے لیکن بات کی تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا، 22
مارچ کی سہ پہر کو لیگ کا کھلا اجلاس ہوا قائداعظم صدارتی تقریر کے لیے
کھڑے ہوئے تو ہر طرف سناٹا چھا گیا، انہوں نے کچھ دیر اُردو میں خیالات کا
اظہار کیا پھر انگلش میں بولنے لگے گزشتہ دو سالوں کا خلاصہ بیان کیا
برطانوی حکومت کا کانگریس اور دیگر مختلف عناصر میں سے ایک ایک کا تجزیہ
کیا پھر جنگ یورپ کے متعلق لیگ کی پالیسی کی وضاحت کی اور آخر میں دو قوموں
کا نظریہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے لالہ لاجپت رائے کا ایک خط پڑھ کر سنایا
جو موصوف نے 1924 میں بنگال کے مشہور لیڈر سی آر داس کو لکھا تھا کہ مسلمان
اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں ان دونوں کو ایک دوسرے میں مدعم کرکے ایک
قوم بنانا ناممکن ہے۔ لالہ لاجپت رائے چونکہ ہندو قوم کی ذہنیت کے صحیح
علمبردار سمجھے جاتے تھے ان کے اِس خط نے لوگوں کو ششدر کر دیا۔ ملک برکت
علی مرحوم سٹیج پر بیٹھے تھے۔ اِن کے منہ سے نکل گیا کہ لاجپت رائے نیشنلسٹ
ہندو تھے۔ قائداعظمؒ نے زور دیا اور کہا کہ ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا۔ ہر
ہندو اول و آخر ہندو ہی ہے لیکن آج ہم ہندو کو اپنا دوست بنانے کے دعوے
کرتے پھرتے ہیں۔ امن کی آشا اور نجانے کون کون سے منصوبے ہم نے بنائے ہوئے
ہیں اور قائداعظمؒ کے اس بیان کو پس پشت رکھ دیا ہے۔ ہندو کے حوالے سے ایک
اور کہاوت بڑی مشہور ہے ”بغل میں چھری اور منہ میں رام رام“ یہ واقعتاً
کوئی بھی موقع جس میں مسلمان کو نقصان ہو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا لیکن ہم
ہیں کہ اس سے دوستی کرنے کے لیے تن من دھن لگا دیتے ہیں اور اُس کے بہکاوے
میں بار بار آ رہے ہیں شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے اِس وطن
کی خاطر کیوں قربانیاں پیش کی تھیں؟ آج ہم نے اُن کا خون کیوں بیچ دیا، اُس
کا مسلمانوں کے ساتھ انصاف یہاں ہی سے سامنے آ جاتا ہے گودھرراسانحے پر
مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا، بعد ازاں عدالت کے کٹہرے میں ایک ہندو جج
نے انہیں سزا بھی سنا دی، اُن میں ایک نابینا شخص بھی تھا، بے شمار مثالیں
موجود ہیں دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے
انہیں اپنے رہنماﺅں کے اصولوں پر نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہونے
کے نتیجے میں غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے،
پوری چینی قوم اپنے لیڈر ماﺅزے تنگ کے اقوام پر مبنی چھوٹی سی سرخ کتاب کو
اپنے سینے سے لگائے رکھتی تھی، اُنہوں نے محض دکھاوا نہیں کیا بلکہ کہے اور
لکھے ہوئے پر بھی عمل کیا جس کے باعث آج اِن کا شمار دُنیا کی اہم ترین
قوموں میں ہوتا ہے امریکہ اِس وقت دنیا کی واحد سپرپاور کہلاتا ہے۔ امریکی
قوم نے اپنے بابائے قوم ابراہم لنکن کے افکار و خیالات پر اس انداز میں عمل
کیا، اُنہوں نے اِس قوم کے امتیازی خدوخال کی حیثیت اختیار کر لیا ہے۔
ابراہم لنکن کے ایک خط نے دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے۔ یہ خط
لنکن نے اپنے بیٹے کے ہیڈ ماسٹر کو لکھا تھا، اس تحریر میں وہ اوصاف بیان
کیے گئے ہیں جو لنکن اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اِس بات پر حیرت ہوتی
ہے کہ ایک ایسی تحریر جس میں ایک رہنما نے براہ راست عوام کو مخاطب بھی
نہیں، پوری قوم کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔ اس خط کے اہم نقاط دیکھیں تو
امریکی معاشرے کی امتیازی خصوصیات کی اِن سے مماثلت واضح ہو کر سامنے آ
جاتی ہیں۔ لنکن لکھتے ہیں ”میرے بیٹے کو سکھائیں کہ سب لوگ حق پر نہیں ہوتے“
سبھی لوگ سچے نہیں ہوتے لیکن ہر بدمعاش کے مقابلے میں ایک ہیرو ہوتا ہے اور
ہر خود غرض سیاست دان کے مقابل ایک بے غرض رہنما، آج امریکہ میں ایسا بیدار
معاشرہ موجود ہے جس میں کسی خود غرض سیاست دان یا بدمعاش کو کھل کھیلنے کی
اجازت نہیں لنکن مزید لکھتے ہیں ”مفت میں مل جانے والے پانچ ڈالروں سے
کمایا ہوا ایک ڈالر بدرجہ اچھا ہے“ کسے نہیں معلوم کہ محنت سے پیسہ کمانے
کی امریکہ میں کیا قدر و قیمت ہے میرے بیٹے کو بتاﺅ کہ کتابیں پڑھنا بڑی
مثبت بات ہے لیکن فطرت سے ہم کلام ہونا پرندوں، پودوں اور قدرتی مناظر پر
غور و فکر بھی اتنا ضروری ہے، میرے بیٹے کو بتاﺅ کہ نقل کرکے پاس ہو جانے
سے فیل ہو جانا زیادہ قابل عزت بات ہے، سب جانتے ہیں کہ ایک غلط بیانی
امریکہ کے صدر جیسے طاقتور عہدے پر فائز شخص کے پاﺅں تلے سے زمین نکال دیتی
ہے۔ اسے سکھاﺅ کہ اپنی محنت اور ہُنر وہاں بیچو جہاں سب سے بہترین پھل ملے
مگر اپنے دل اور روح پر کبھی بھی ”برائے فروخت“ کا لیبل مت لگاﺅ اب ذرا
اپنے قائد کی طرف آتے ہیں، اُن کی زندگی کے اہم پہلوﺅں پر تھوڑی نظر ڈالتے
ہیں۔ قائداعظمؒ اپنی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ”اے ڈی سے نے
قریب آ کر دریافت کیا سر چائے پیش کی جائے یا کافی قائد نے چونک کے سر
اٹھایا اور سخت لہجے میں کہا، یہ لوگ (وزرا) گھروں سے چائے پی کر نہیں آئے،
جس وزیر نے چائے پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے،
وزیروں کی عیاشی کے لیے نہیں“ قائداعظمؒ جب تک برسراقتدار رہے تو اجلاس میں
پانی کے سوا کچھ نہ پیش ہوا۔ جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے وال پرٹ لکھتے
ہیں جب میں نوجوان صحافی کی حیثیت شے برصغیر کے سیاسی حالات کی رپورٹنگ پر
مامور ہوا تو قائداعظمؒ کو کوئی اہم رہنما تصور نہیں کرتا تھا، ایک پریس
کانفرنس کے بعد حسب عادت میں ان کے پاس گیا، ان سے پوچھا کوئی ایسی بات جو
آپ نے حذف کروانی ہو دنیا بھر کی عظیم شخصیات ایسے مواقع پر خود صحافیوں سے
کہتی ہیں، فلاں بات کاٹ دو، فلاں شائع کر دو وغیرہ وغیرہ، قائداعظم نے چونک
کر میری طرف دیکھا اور کہا نوجوان حذف کروانے سے تمہاری کیا مراد ہے۔ جناح
جو کچھ کہتا ہے، ریکارڈ پر لانے کے لیے کہتا ہے، ایک اور اہم واقعہ گورنر
جنرل ہاﺅس کے لیے ایک مرتبہ 38 روپے کا سامان خریدا گیا۔ قائداعظم نے
تفصیلات طلب کیں تو معلوم ہوا کہ کچھ چیزیں فاطمہ جناح نے منگوائی ہیں۔ آپ
نے حکم دیا اِن کے پیسے محترمہ فاطمہ جناح کے اکاﺅنٹ سے کاٹ لیے جائیں۔
ذرا غور طلب باتیں ہیں چھوٹی ضرور ہیں مگر اِن میں کئی راز مدفن ہیں۔ آج
ذرا چین کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم کتنی محنتی
ہے، آنے والی سپرپاور بھی اسی ملک کو کہا جاتا ہے یہ وہی قوم ہے جو ہیروئن
کے نشے میں لت پت تھی لیکن ماﺅزے تنگ جیسے عظیم لیڈر نے آج اُنہیں کہاں سے
کہاں پہنچا دیا۔ آج ہماری ملک پاکستان کی حالت دیکھیں، قائداعظم اجلاس میں
چائے تک نہیں آنے دیتے تھے، ہمارے وزراءتو اپنی فیملی کی عام چیزیں حتیٰ کہ
بچوں کے لیے Pamper بھی قومی خزانے سے خریدتے ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر
کروڑوں روپے ایک وزیر پر خرچا آتا ہے اور ہمارے وزیر بھی ماشاءاللہ دنیا کے
تمام پارلیمنٹ ممبران سے زیادہ مراعات لے رہے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں
نے عوام کے پیٹ کاٹ کر اپنی تجوریاں بھری ہیں لیکن ہمارے لیڈر قائداعظم،
لیاقت علی خان نے اپنے پیٹ کاٹ کر عوام کے پیٹ کا خیال کیا۔ ہمارے اسلاف
اور عظیم حکمران حضرت عمر فاروقؓ جیسا لیڈر دنیا میں آج تک کسی کو نہیں ملا
اُن کا قول ہے ”اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمرؓ
سے اُس کا سوال ہوگا۔ ہمارے موجودہ حکمران بے حس ہو چکے ہیں لاہور کی مزنگ
روڈ پر قتل ہونے والے دو افراد کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کر
دینا ، مقتول کے ورثاءکو دیت لینے پر دباﺅ ڈالنا شرمناک ہے۔ اِن کے قتل کا
حساب کون دے گا، آج 23 مارچ ہے، آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ اِس دن ہم اپنے اندر
ایک تبدیلی لائیں جو 23 مارچ 1940 کو آئی تھی آج کھڑے ہونے کا وقت ہے اپنے
آپ سے اصلاح شروع کریں، انشاءاللہ پورا معاشرہ سنور جائے گا۔ |