بیسوی صدی کے نوبل انعام یا فتہ
شخصیت الیگز ینڈر نے کہا تھا ”نیکی اور بدی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر نے
وا لی لکیر ریاست، سیا ست یا طبقاتی جما عتوں کے درمیان نہیں یہ ہر انسانی
دل کے درمیان سے گزرتی ہے لیکن ہمارے سیاست دانون کی اکثریت کے دلوں میں لا
لچ ، ہوس ، بے شرمی اور بے غیرتی کی لکیریں نما یاں نظر آتی ہیں پورے پانچ
سال عوام کے خون پسینے کی کما ئی پر عیش کرنے سے پیٹ نہیں بھرا تھا کہ ایک
نیا بل ا سمبلی میں پاس کروا لیا ۔وہی ظلم کرے ، وہی ثواب لے الٹا ۔ اس
ثواب کی بہتی گنگا سے تما م سیاست دانوں نے خوشی خوشی دستخط کئے ایک عام
آدمی تو ایسی شاندار نوکری کے با رے مین سوچ بھی نہیں سکتا اہنی مرضی کے
الا ونس اہنی پسند کی تنخواہ حسب خواہش تا حیات مراعات کیا چا ہئے مشترکہ
با ہمی مفادات بل پر کسی نے اجلاس سے وا ک آوٹ نہیں کیا کسی نے بل کا مسودہ
پھاڑ کر نہیں پھینکا کوئی احیجاج نہیں ہوا ۔ بھتہ خور تو مفت میں بدنام ہیں
ان سے بڑا ڈاکہ تو اسمبلی ممبران کرگئے عوامی کما ئی سے اب تا حیات مراعات
کے لطف بھی لیں گے آخری چند ہفتوں میں جاتے جاتے بھی سرکاری خزانے سے چار
کھرب 65ارب رو پئے کو استعمال کر لیا گیا اربوں رو پئے کے ترقیا تی فنڈز
اراکین اسمبلی کو دئے گئے تمام کا بینہ کی تنخوا ہوں اورمرا عات میں اضافہ
کیا گیا مفت پٹرول ، ما لی، باورچی، ڈرایﺅر، اردلی ، خاکروب سے لےکر
پرائیوٹ سیکر ٹری تک تا حیات سات ملازم جب تک ہے جاں، بخشا گیا ہے
342اراکین اسمبلی کے الاوئنس دوگنے کر دئے گئے اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ
مرزا کو اپنے کینسر کے علاج کی زیادہ فکر تھی سو انھوں نے خود سمیت تمام
اراکین اسمبلی کا مفت علاج عوام کے پیسوں سے کرانے کو حلال کروالیا جس سے
چا لیس کروڑ روپئے کا اضافی بو جھ سالا نہ عوام کے کا ندھوں پر پڑےگا ۔
پاکستا ن کی تا ریخ میں جس جمہوری سیا سی لیڈر کو سب سے زیا دہ شہرت، عزت
اورپذ یرائی حا صل ہو ئی وہ سا بق وزیر اعظم ذولفقا ر علی بھٹوتھے ان کی
تقریروں میںعوام کو سنہرے مستقبل کی نو ید سنا ئی دیتی تھی وہ سنہرے خواب
جو کبھی تعبیر نہ بن سکے بھٹو صا حب کے مشہور زمانہ’ نعرہ روٹی ،کپڑااورمکا
ن نے انھیں اقتدار کی مسند پر بھٹا یا،پاکستا ن کی غریب عوام نے انھیں اپنا
نجا ت دہندہ سمجھا مگر بد قسمتی سے بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد نعرہ ہی
رہا غریب عوام، غریب ہی رہے جو کھلے آسما ن تلے رہتا تھا اس کا سر اسی طر ح
بے سایہ ہی رہا جس کو تن پر کپڑا میسر نہ تھا وہ بد ستور ننگا ہی رہا جو
بھو کے پیٹ سونے پر مجبور تھا وہ اسی طرح خا لی پیٹ سونے پر مجبور رہا ہاں!
البتہ بھٹو صاحب کے جا نے کے بعد انکے نعرے نے ان کی پا ر ٹی کے سیاست دانو
ںپر کامیا بی کے دروازے کھو ل دیے انھیں عوام کی د کھتی رگ پر ہا تھ رکھنے
کا فن آگیا سو بھٹو صا حب کے بعد جو بھی سیاست داں آیااس نے عوام کو’ ووٹ
دو خواب لو ‘ کے مصادق خوب استمعال کیا مگررو ٹی کپڑا ورمکا ن ہر دور کی
طرح آج بھی عوام کی پہنچ سے دورہے اب بھی عوام ز ندگی کی بنیا د ی سہو لتوں
سے محروم ہیں ۔ پیپلز پارٹی پا کستا ن میں پانچ سال سے برسر اقتدار ہے بھٹو
سے زندگی نے وفا نہ کی مگر ان کے لگا ئے ہو ئے پودے کی آبیاری کرنے والی مو
جودہ حکو مت اب تک کر پشن لوٹ کھسوٹ ، اقربا ءپروری اور بے قاعدگی کی ایسی
شا ندار مثا لیں قا ئم کی کہ عقل دنگ ہے پیپلز پا ر ٹی ہر وہ کا م کر
گزرناچا ہتی ہے جس سے عوام میں اسکے خلا ف نفرت اور اشتعال بڑ ھتا جا ئے اس
کی درجنوں مثالیں انکے پا نچ سالہ دور حکومت میںمنظر عام پر آتی رہی ہیں -
پیپلزپا رٹی کی حکومت برسر اقتدار آنے سے ہمیں کو ئی آئیڈل حکومت کی توقع
نہ تھی لیکن اتنی امید ضرور تھی کہ ایک جمہوری پارٹی ہو نے کے نا طے اسے
عوام کے دکھ درد کا کچھ تو اندازہ ہو گا مگر حکو مت کے پانچ سالہ دور حکو
مت میں مہنگا ئی میں ریکا ڈاضافہ ہو ا ہے بجلی،گیس اور دیگر چیزوں میں ہر
چند مہینے بعد نئے اضافے منی بجٹ کی صور ت میں عوام پر نازل ہوتے رہے ہیں
صیح معنوں میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ حکو مت کے گز شتہ تما م بحرانوں
سے شدید ثا بت ہو اہے جس کا براہ را ست فا ئدہ حکومت کو پہنچا سے عوام پر
مزید ما لی مسائل کا بوجھ بڑ ھا۔ حکومتی لوٹ کھسوٹ ،کرپشن اور لالچ کو
دیکھتے ہو ئے مولانا رومیؒ کی مثنوی سے چند اشعار ایسے ہی لوگوں کی کہانی
سنا تی ہے ۔
وہ کھاو کے سوا کوئی حکم نہیں سنتی ہے
اس لٹیرے کی طرح جو گھر کو ہی کھو د تا ہے
جلد جلد اپنا تھیلا بھرتا ہے، اچھا برا تھیلے میں ٹھو نستا ہے
موتی کے دانے، چاندی کے دانے، ایسا نہ ہوکوئی دوسرا لٹیراآجائے
وہ بورے میں خشک وتر ٹھونستا ہے
وقت تنگ ہے فرصت تھوڑی ہے وہ ڈرا ہوا ہے
بے تا مل جوکچھ ہے ا س نے بغیر سمجھے بوجھے بغل میںدبا لیا ہے
اس کو اپنے شاہ پر بھروسہ نہیں
ایسا نہ ہوکو ئی دوسرا لٹیرا آجا ئے |