حضرت مولانامحمد یوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت ابراہیم ؒ کہتے ہیں جب
حضرت عمر ؓ کسی کو گورنر بناتے اور اس علاقہ سے ان کے پاس وفد آتا تو حضرت
عمر ؓ ان سے (اس گورنر کے بارے میں ) پوچھتے کہ تمہارا امیر کیسا ہے؟ کیا
وہ غلاموں کی عیادت کرتا ہے؟ کیا وہ جنازے کے ساتھ جاتا ہے؟ اس کا دروازہ
کیسا ہے؟ وہ نرم ہے؟ اگر وہ کہتے کہ اس کا دروازہ نرم ہے؟ اور غلاموں کی
عیادت کرتا ہے تب تو اسے گورنر رہنے دیتے ورنہ آدمی بھیج کر اس کو گورنری
سے ہٹا دیتے۔
حضرت عاصم بن ابی نجود کہتے ہیں حضرت عمر بن خطاب ؓ جب اپنے گورنروں کو
مختلف علاقوں میں گورنر بنا کر بھیجا کرتے تو ان پر یہ شرطیں لگاتے کہ تم
لوگ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوا کرو گے اور چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں
کھایا کروگے۔ اور بار یک کپڑا نہیں پہنا کرو گے اورحاجت مندوں پر اپنے
دروازے بند نہیں کرو گے اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کر لیا تو تم سزا کے
حق دار بن جاﺅ گے۔ پھر رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ تھوڑی دور چلتے جب واپس
آنے لگتے تو ان سے فرماتے میں نے تم کو مسلمانوں کے خون (بہانے ) پر اور
انکی کھال (ادھیڑنے) پر اورانہیں بے آبرو کرنے پر اور ان کے مال (چھیننے )پر
مسلط نہیں کیا ہے بلکہ میں تمہیں اس لیے بھیج رہاہوں تاکہ تم وہاں کے
مسلمانوں میں نماز قائم کرو اور ان میں ان کامال غنیمت تقسیم کرو اور ان
میں انصاف کے فیصلے کرو اور جب تمہیں کوئی ایسا امر پیش آجائے جس کا حکم تم
پر واضح نہ ہو تو اسے میرے سامنے پیش کرو ۔زرا غور سے سنو !عربوں کونہ
مارنا اس طرح تم ان کو ذلیل کردو گے اور ان کو اسلامی سرحد پر جمع کرکے وطن
واپسی سے روک نہ دینا ۔اس طرح تم ان کو فتنہ میں ڈال دوگے اوران کے خلاف
ایسے جرم کا دعویٰ نہ کرنا جو انہوںنے نہ کیاہو اس طرح تم ان کو محروم کردو
گے اور قرآن کو (احادیث وغیرہ ) سے الگ اور ممتاز کرکے رکھنا یعنی قرآن کے
ساتھ حدیثیں نہ ملانا ۔
قارئین آج کا کالم ہر پاکستانی کیلئے پڑھنا ضروری ہے اسے ہماری ناقص رائے
کہہ لیجئے ،جذبات کی شدت کا نام دے لیجئے یا ہماری کم عقلی سے تعبیر کیجئے
ہم اپنے اخلاص کے ساتھ دل کے گہرائیوں سے یہ بات سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں
کہ آج کے پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ”دہشت گردی انتہا پسندی اورخود کش
دھماکے “ہیں اس خوفناک عفریت نے پاکستان کو اس وقت اپنی لپیٹ میں لیا جب
سات آزادیوں کے نغمے گانے والے انکم سام نے 9/11کے ”پراسرار ٹون ٹاور “کے
واقعات کے بعد ”صلیبی جنگوں “کی دھمکی دیتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے اپنے
عزائم آشکار کیے یہ علیحدہ بات کہ بعد ازاں یہ الفاظ واپس لے لیے لیکن عملی
طور پر امریکہ نے اسلامی دنیا پر آتش وآہن کی برسات کردی عراق پہلے ہی
امریکی چیرہ دستیوں اور وحشیانہ ہوس اور عالمگیریت کاشکار ہوکر اس حالت میں
تھا کہ لاکھوں بے گناہ انسان ناکردہ جرم کی پاداش میں قتل کیے جاچکے تھے
عراق پر حملے کا امریکہ نے جوجوازتراشاتھا وہ پوری دنیا کے سامنے
جھوٹانکلاتھا ”بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں “کا بہانہ بناکر
امریکہ نے اتحادی قوتوں کے ساتھ جو سلوک عراقی مسلمانوں کے ساتھ کیا اس کی
وجہ سے پوری اسلامی دنیا میں پہلے ہی شدید ترین بے چینی پائی جارہی تھی
9/11کے بعد باقاعدہ یا بے قاعدہ طور پر ”القاعدہ اور اسامہ بن لادن “کا ہوا
کھڑا کیاگیا اور دنیا کو یہ یقین دلایا گیا کہ لوگوں کے گلے کاٹنے والے ،خود
کش دھماکوں کے زریعے اسرائیلی اور امریکی فوجیوں پر حملے کرنے والے اور
امریکہ کے ٹون ٹاور گرانے والے لوگ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے تربیت
یافتہ ہیں اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی سرپرستی افغانستان کی طالبان
حکومت کررہی ہے قصہ مختصر امریکہ نے جنرل مشرف کو تعاون کرنے یا پتھر کے
دور میں دھکیل دینے کی دھمکی آمیز ”دوستانہ پیشکش “کی اور جواب میں ”ملک کے
وسیع تر مفاد “میں جنرل مشرف نے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر امریکہ کو ہر چیز
مہیا کی اس کانتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک مزاحمت
پید اہوئی اور اسلام اور مسلمانوں پر حملے کے خطرے کے پیش نظر دین اسلام
اور پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے ان قبائلیوں کے معصوم جذبات کو بعض
گروپس نے استعمال کیا اور انہیں یہ باور کرایا کہ پاکستان آرمی چونکہ
امریکہ کاساتھ دے رہی ہے اس لیے یہ لوگ بھی مرتد ہوچکے ہیں اور ان کا قتل
عام بھی عین ثواب ہے چنانچہ وہ دن ہے اور آج کا دن قبائلی علاقوں میں
بھڑکنے والی آگ نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کو مزید
شدت اس وقت ملی جب پاکستان میں انکل سام نے دنیا کے اخلاقی قوانین توڑتے
ہوئے ڈرون حملے کرنا شروع کیے جب ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں قبائلی علاقوں
میں معصوم بے گناہ دین اسلام اور پاکستان سے سچی محبت کرنے والے قبائلیوں
کی شہادتیں ہونا شروع ہوئیں تو پاکستان ،اسلام اور ان معصوم قبائلیوں کے
بظاہر دوستوں اور اندرون خانہ دشمنوں نے ان معصوم لوگوں کو بھڑکایا کہ اب
چونکہ ہمارا دشمن اور دین اسلام کا دشمن ہم پر حملہ آور ہوچکاہے اور ان
کاکافروں کا جو بھی ساتھ دے رہاہے وہ بھی انہی کے جیسا ہے اس لیے ان سے
لڑنا بھی عین ثواب ہے نتیجہ کیانکلا کہ پچاس ہزار سے زائد معصوم پاکستانی
شہری گزشتہ دس سال کے دوران خود کش دھماکوں کی نظر ہوچکے ہیں دس ہزار سے
زائد فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں اور مملکت خداداد پاکستان کو پہنچنے والا
معاشی نقصان کئی سو ارب روپے کا ہے یہ تمام باتیں جو ہم آج آپ سے شیئر
کررہے ہیں کچھ تو ایسی ہیں جو پہلے ہی سے میڈیا پر آچکی ہیں اور کچھ باتیں
ہمیں ایک عظیم شخصیت نے بتائیں ہم نے ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول
پروگرام ”فورم 93ود جنیدانصاری “میں فرنٹئرکور کے سینئر کمانڈر بریگیڈئیر
حید ر علی کا ایک تاریخی انٹرویو کیا بریگیڈئیر حیدر علی پنجاب سے تعلق
رکھتے ہیں اور انہوںنے 1986ءمیں پاک آرمی جوائنٹ کرنے کے بعد 1988ءمیں
کمیشن حاصل کیا اور مختلف جگہوں پر اپنی پوسٹنگز کے دوران ملک وقوم کیلئے
گراں قدر خدمات سرانجام دیں 2008-9میں جب قبائلی علاقہ جات بالخصوص سوات
اورباجوڑ میں ملٹری آپریشن کیاگیا تو اس وقت سے لیکر 2012ءتک انتہائی اعصاب
شکن صورتحال سے اس علاقے کے عوام بھی گزرے اور پورے پاکستان نے بھی کٹھن
وقت گزارا ستمبر اکتوبر 2012ءمیں فرنٹئر کور کے سینئر کمانڈر بریگیڈئیر
حیدر علی نے باجوڑ جس کی آبادی 25 لاکھ کے قریب ہے وہاں اللہ کی مدد سے امن
بھی بحال کردیا اور اعتماد کی فضا اس حد تک قائم کی کہ وہ لوگ جو پاکستان
آرمی کو مرتد کہتے تھے وہ ان فوجی جوانوں کے ساتھ شیروشکر کی طرح گھل مل
گئے بریگیڈئیر حید ر علی اس وقت باجوڑ میں ایک انتہائی حساس نوعیت کا ادارہ
چلارہے ہیں اس ادارے کا نام ”نوائے سحر ڈی ۔ریڈیکلائزیشن سنٹر “ہے اس ادارے
کے قیام کے مقاصد انتہائی بامعنی اور دوررس ہیں جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا
کہ قبائلی علاقہ جات میں مختلف قوتیں قبائلیوں کے اسلام اور پاکستان کے
ساتھ محبت کے معصوم جذبات سے کھیل رہی تھیں ان میں کچھ قوتیں ایسی بھی تھیں
کہ جن کا تعلق پاکستان کی سرزمین سے نہیں تھا اسرائیل بھارت اور چند دیگر
ممالک جو آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کرسکے اور روز اول سے ان کی
یہی کوششیں ہیں کہ کسی طریقے سے دنیا کی سب سے طاقت ور جوہری اسلامی قوت کو
نیست ونابود کیاجائے ( اللہ نہ کرے ) یہ پاکستان دشمن قوتیں اسلام کا لبادہ
اوڑ ھ کر ان معصوم قبائلیوں کویہ درس دینے لگیں کہ امریکہ اور اس کے ساتھ
ملکر کام کرنے والے جو لوگ بھی ہیں وہ اسلام کے دشمن ہیں اور ان لوگوں کو
مارنا عین جہاد ہے اور ان سے جنگ کرتے ہوئے جو بھی اپنی جان دے گا وہ جنت
میں جائے گا ان معصوم قبائلیوں نے دینی جذبے کے تحت ان کے بہکاﺅے میں آکر
اپنا سب کچھ داﺅ پر لگادیا اور میڈیا پر یہاں تک رپورٹس آئیں کہ پاکستان کے
طول وعرض میں خود کش دھماکے کرنے والے ایسے خود کش بمبار بھی دیکھنے میں
آئے ہیں جو انتہائی کم عمر ہیں ان خود کش بمبار وں کی نفسیاتی تربیت اور
درستگی کیلئے بریگیڈئیر حیدر علی اور ان کی ٹیم نے باجوڑ میں ”نوائے سحر ڈی
۔ریڈیکلائزیشن سنٹر “قائم کیا اور ہمارے پروگرام کے دوران بریگیڈئیر حیدر
نے جب مختلف انکشافات کیے تو پروگرام میں شریک میرپور یونیورسٹی آف سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباءکے علاوہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سامعین کی آنکھیں
کھل گئیں مجاہد کمانڈر بریگیڈئیر حیدر علی کا کہناتھا کہ قبائلی لوگ
انتہائی پرامن ،دین سے محبت کرنے والے ،پاکستان کے متعلق درد رکھنے والے
محب وطن لوگ ہیں ان معصوم قبائلیوں کو کچھ طبقات نے ان کے مذہبی جذبات اور
مختلف محرومیوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اس حد تک خطرناک صورتحال پیدا کی کہ ہم
نے ایسے خود کش بمبار گروہ بھی پکڑے کہ جن کی عمریں سولہ سال سے بھی کم
تھیں کچھ بچے پانچویں جماعت اور کچھ بچے ساتویں جماعت میں تعلیم حاصل کررہے
تھے جب کہ بڑی سے بڑی عمر کا جو خود کش بمبار پاک آرمی نے پکڑا اس کی عمر
59سال تھی بریگیڈئیر حیدر علی نے بتایا کہ نوائے سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹر
میں اب تک 200کے قریب ایسے بچوں اورنوجوانوں کو نفسیاتی اور دینی تربیت کے
ذریعے نفرت اور تباہی کے راستے سے ہٹا کر سچے دین اسلام اور پاکستان سے
محبت کی راہ پر دوبارہ گامزن کیا جا چکا ہے جبکہ 98کے قریب مزید کیسز پر
کام جاری ہے بریگیڈئیر حید ر علی نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا
کہ ان قبائلیوں کے اندر اس نوعیت کی Militancyکی کافی ساری وجوہات ہیں پہلی
بات تو یہ کہ قبائلی علاقہ جات کے یہ لوگ گھٹی ہی میں اسلام سے محبت لے کر
پیدا ہوتے ہیں ،یہ تمام قبائلی بچپن ہی سے بندوق اور ہتھیار سے محبت کرتے
ہیں ،یہ قبائلی انتہائی غیرت مند اور خوددار لوگ ہیں اور اسلام کے نام پر
بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں یہ تمام باتیں انتہائی
مثبت باتیںہیں غلطی کہاں سے ہوئی جو ان انتہائی معصوم او ر سچے مسلمان
پاکستانیوں کو دوسری انتہا کی طرف لے گئی ۔بریگیڈئیر حید ر نے انتہائی دکھی
انداز میں بتایا کہ ملکی سیاسی قیادت ،معاشرے اور ” ہم سب “ کی غلطیوں کے
نتیجے میں یہ انتہائی معصوم لوگ تباہی کا شکا ر ہوئے ۔حکمرانوں اور
سیاستدانوں نے گزشتہ 65سالوں کے دوران کبھی بھی ان علاقوں میں ترقیاتی کام
سنجیدگی کے ساتھ نہ کیے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں انتہائی غربت ہے ،تعلیم
کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا لیکن ان علاقوں کی تعلیمی صورتحال شرمناک حد تک
پست ہے ،روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ،الغرض وہ تمام حرکتیں جو
بالعموم ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے متعلق زبان زدعام ہیں یہاں کی
گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی دھارے سے کٹ کر یہ تمام قبائلی علاقے
ترقی نہ کر سکے ،محرومیوں کا استحصال کرنے والے لوگوں نے انہی محرومیوں سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطانی کام کرنے کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان لوگوں
کو کہیں تو ”جذبہ جہاد اور شہادت “ کے نام پر اکسایا اور کہیں پر روپے پیسے
کا لالچ دے کر ان کی محرومیوں کے سودے کیے ۔جن لوگوں کو راستے سے بھٹکا کر
”خودکش بمبار “ بنایا گیا یا دیگر مسلح کارروائیوں میں استعمال کیا گیا جب
بریگیڈیئر حیدر علی اور ان کی ٹیم نے ” نوائے سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹر“
میں ان معصوم قبائلیوں کا علاج کرنا شروع کیا اور انہیں دین اسلام کے حوالے
سے مذہبی سکالر ز سے لیکچر ز دلوائے اور ان کا نفسیاتی علاج بھی کرنا شروع
کیا تو یہ تمام لوگ نارمل امن والی زندگی کی طرف آ گئے ۔بریگیڈیئر حید رعلی
نے بتایا کہ اس وقت انتہائی ضروری ہے کہ باجوڑ کے مختلف علاقوں سالار ذئی ،مہمند،چہار
منگ ویلی ،نواں گئی اور چمرکنڈ میں اعتماد سازی کی جائے اور لوگوں کو بتایا
جائے کہ پاکستانی آرمی اور پاکستانی حکومت امریکہ کے ساتھ نہیں بلکہ ان
معصوم قبائلیوں کے ساتھ ہے ۔بریگیڈیئر حیدر علی کا کہناتھا کہ قبائلی کلچر
کو سمجھتے ہوئے ان تمام عناصر کے پراپیگنڈے کو جواب دینا ہو گا جو ان محب
وطن قبائلیوں کو تباہی اور بربادی کے راستے کی طرف لے کر جا رہے ہیں
بریگیڈیئر حیدر علی نے بتایا کہ ہمارے فوجی بھائی باریش بھی تھے اور ہم سب
نماز بھی پڑھتے تھے جب ان قبائلیوں نے شروع شروع میں ہمیں نماز پڑھتے دیکھا
تو وہ بہت حیران ہوئے اور انہوں نے ہم سے یہ بات شیئر کی کہ ہم تو یہ
سمجھتے تھے کہ آپ لوگ امریکہ کے ساتھی اور مرتد ہیں اور آپ نماز نہیں پڑھتے
ہوں گے لیکن جب ان لوگوں نے بریگیڈیئر حیدر علی اور ان کی پوری ٹیم کا عملی
کردار دیکھا تو ان کی تمام غلط مہمیاں دور ہو گئیں اور آج ستمبر اکتوبر
2012کے بر عکس ایک نیا باجوڑ جنم لے چکا ہے ۔بریگیڈیئر حیدر علی اور ”نوائے
سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹر“کی کاوشوں کے نتیجے میں وہ علاقہ جہاں آج سے کچھ
عرصہ قبل دن کے اوقات میں بھی کرفیو اور ویرانی جیسا سماں تھا وہاں زندگی
واپس لوٹ آئی ہے ۔بے شک اس کا تمام کریڈٹ محب وطن پاکستان آرمی ،فرنٹئر کور
کے سینئر کمانڈر انچارج ” نوائے سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹر “ بریگیڈیئر حیدر
علی اور ان کی ٹیم کے سر جاتا ہے کہ جنہوں نے لاتعداد قربانیاں دیتے ہوئے
ان علاقوں میں اللہ تعالیٰ کی مدد و نصر ت سے امن بحال کر دیا ۔پوری قوم
پاکستان آرمی ،بریگیڈیئر حید رعلی ،” نوائے سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹر“اور
سب سے بڑھ کر ان تمام قبائلیوں کو سلام پیش کرتی ہے کہ جو واقعتا دین سے
سچی محبت رکھتے ہیں اورپاکستان کے بلا تنخواہ مجاہد اور سپاہی ہیں ہم دل سے
یقین رکھتے ہیں کہ یہ سچے مسلمان قبائلی پاکستان اور دین اسلام کیطرف اٹھنے
والی ہر آنکھ کو پھوڑ دینے اور ہر ہاتھ کو توڑ دینے کے جذبے بھی رکھتے ہیں
اور صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں ۔انہی قبائلیوں نے روس جیسی طاقت کو ناکو ں
چنے چبوا کر افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا اور انشاءاللہ یہی
قبائلی بھارت ،اسرائیل سمیت انکل سام اور تمام پاکستان دشمنوں کو ناکام کر
کے دم لیں گے لیکن بریگیڈیئر حیدر علی نے جس انتہائی اہم بات کی نشاندہی کی
ہے اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔معاشرے اور کمیونٹی نے جب تک ہوش کے
ناخن نہ لیے اور اپنے ان معصوم قبائلی بہن بھائیوں کا اسی طرح ساتھ نہ دیا
جس طرح ہجرت کے موقع پر انصار مدینہ نے مہاجرین مکہ کا دیا تھا تو تب تک
کامیابی نہیں مل سکتی ۔اخوت کا درس دین کا بنیادی جزو ہے اور حضورﷺ نے
مواخاة عملی طور پر قائم کر کے دکھائی تھی آج بیس کروڑ پاکستانیوں کو بھی
مل کر ان سچے مسلمان قبائلی بہن بھائیوں کا ساتھ دینا ہو گا اور وہ چند بچے
یا نوجوان جنہیں امن کے راستے سے ہٹاکر شیطانی راستے پر چلانے کی کوششیں کی
جارہی ہیں انہیں پیار سے ،حکمت سے اور محبت سے دوبارہ زندگی کے راستے کی
طرف لانا ہوگا یہی کام اس وقت فرنٹئر کور کے سینئر کمانڈر بریگیڈیئر حیدر
علی اور ان کی ٹیم ” نوائے سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹر“ باجوڑ میں کر رہے ہیں
۔یہاں بقول علامہ اقبالؒ ہم کہتے چلیں
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر،اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوالِ محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول ،سوز و تب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیرو سناں اول، طاﺅس و رباب آخر
میخانہءیورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبہءنادر، کیاشوکت ِتیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر
خلوت کی گھڑی گذری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار ِکتاب آخر
قارئین وقت کے قلندر بریگیڈیئر حیدر علی نے تو تمام کے تمام اسرار ہمارے
سامنے منکشف کر دیئے یہاں پر چند باتیں ہم انتہائی سنجیدگی کے ساتھ پالیسی
ساز اداروں سے بھی کرنا چاہیں گے اور تمام پاکستانیوں کے بھی گوش گزار کرنا
چاہیں گے ۔عظیم تصنیف شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب نے آج سے کئی سال
قبل یہ بات قوم کو بتائی تھی کہ ذمہ دار ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان
اور اسلام مخالف قوتیں پاکستان اور افواج پاکستان کو اپنے مقاصد کی تکمیل
اور راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں اور ان قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ
کسی طریقے سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی عسکری قوت پاکستان اور افواج
پاکستان کو تباہ کیا جائے ۔ان اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد
”تہذیبوں کے درمیان جنگ“ کے عنوان سے انکل سام پہلے ہی سامنے لا چکا ہے اور
گزشتہ دس سالوں سے پاکستان کی سر زمین پر ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ “
کے نام نہاد سلوگن کے تحت اسی سازش پرعمل کیا جا رہا ہے پاکستان کے تمام
ادارے اس وقت کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور کچھ
اگر بچا ہے تو وہ واحد ” عساکر پاکستان “ کا ادارہ ہے ۔پاکستان میں جمہوری
عمل مارشل لاز کی نذر ہوتا رہا اور قومی زندگی کا نصف عرصہ اقتدار کے خواہش
مند یا انقلاب کے پیغامبر فوجی جرنیلوں کی نذر ہوگیا اب بھی وقت ہے ہمیں
چاہیے کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور جو بھی پالیسیاں بنائی جائیں ان
میں سب سے پہلے اسلام اور پاکستان کو ترجیح دی جائے قدرت اللہ شہاب نے جنرل
ایوب خان کے دور میں یہ بات انہیں لکھ کر ایک ڈرافٹ کی شکل میں دی تھی
”Pakistan have no escape from Islam “کیونکہ پاکستان بناہی دوقومی نظریے
کی بنیاد پر ہے جس دن ہم نے دوقومی نظریے کی اساس کلمے اور اسلام کو چھوڑ
دیا اسی دن اس مملکت کا وجود ایک سوالیہ نشان بن جائے گا پالیسی ساز ادارے
ایسی حکمت عملی مت بنائیں کہ جس سے مسلمانان پاکستان اور محب وطن قبائلیوں
کو یہ پیغام ملے کہ ریاستی ادارے قیام پاکستان کے مقصد کو چھوڑ کر انکل سام
کے ناپاک ارادوں کی تکمیل کیلئے کام کررہے ہیں ہمیں امید ہے کہ درد دل سے
کی گئی ہماری ان گزارشات کو انا کا مسئلہ بنائے بغیر دین اسلام اور پاکستان
سے محبت کرنے والے پالیسی ساز ادارے ،اہل پاکستان اور ہمارے معصوم مجاہد
قبائلی بھائی درد دل ہی سے سنیں گے پاکستانی فوج ہمارا وقار اور عزت ہے اور
یقین کیجئے کہ غیرت مند قومیں جان دے دیتی ہیں لیکن عزت اور ناموس پر کوئی
بھی سمجھوتہ نہیں کرتیں ہم پاکستانی فوج ،فرنٹئر کور ،بریگیڈیئر حیدر علی ،
نوائے سحر ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹراور ان تمام قبائلی بہن بھائیوں کو عقیدت
بھرا سلام پیش کرتے ہیں جو دین اسلام اور پاکستان کی خاطر قربانیاں دے رہے
ہیں یہ زندگی ایک دن ختم ہوجانی ہے ہر کسی کو چاہیے کہ وہ سوچے کہ وہ اپنے
خالق کو دائمی زندگی کے آغاز پر قیامت کے دن کیا جواب دے گا کہ اس نے اللہ
تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ توفیق کو کن سرگرمیوں میں استعمال کیا اللہ
پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین ۔ |