سوال مسلم لیگ ن سے

قلم سے نکلے تو نشتر۔۔۔ جناب کے دہن جمہوریت سے نکلے تو بہتر۔۔!جناب شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ پی پی پی کی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ کر کے غیر دیانتدارانہ قدم اٹھایا ہے۔مزید کانوں میں رس گھولتے ہیں کہ اس معاہدے سے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی آئندہ حکومت کے لیے۔۔الجھنیں۔۔پیدا ہو گیں۔پہلی بات یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ پی پی پی حکومت نے جان بوجھ کر آخری دنوں میں یہ معاہدہ ایک مخصوص نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا ہے تو کیا اس بات کی بدولت اس معاہدے کی بدولت پاکستان کو ملنے والے۔۔ممکنہ ثمرات۔۔کم ہو جاتے ہیں۔۔؟دوسری بات یہ کہ میاں صاحب کا یہ بیان کیا اس بات کی عکاسی نہیں کرتا کہ وہ خائف ہیں پیپلز پارٹی کے اس پاکستان کے دوست معاہدے کی بدولت پیپلز پارٹی کو ملنے والی ممکنہ انتخابی پزیرائی سے۔۔؟یا پھر خواب غفلت ہی سہی کہ وہ آئندہ آنے والی حکومت میں مرکز میں خود کو راجہ اندر بنے بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔تو بھی خائف ہیں کہ ان کا یہ خواب غفلت اگر ناگہاں پورا بھی ہو جائے تو ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی پاداش میں ان کی مرکزی حکومت کو جو امریکہ بہادر کی بڑھکیں سننی پڑیں گی تو بھلا وہ کیوں اور کیسے سن پائیں گے۔۔؟کیونکہ شیر پاکستان کا دل تو عدلیہبحلی تحریک میں ایم این اے ملک ریاض کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھے نیم روہانسے انداز میں حکومت پنجاب سے سیکیورٹی واپس بلانے کا شکوہ کرتے پورا پاکستان نواز شریف کو لائیو دیکھ چکا ہے۔گویا شہباز شریف صاحب اپنے منہ ہی اعتراف جرم کر بیٹھے ہیں کہ آئندہ اگر وہ مرکز میں ہوئے تو ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بابت امریکہ کا پریشر نہیں جھیل پائیں گے۔۔۔!یہ ہے ہماری قومی لیڈر شپ۔

اب اس لیڈر شپ کو لیڈر شپ کہیے یا گیڈر شپ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔میاں صاحبان کے اصرار پر پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کی فہرست سے پیپلز پارٹی نے حفیظ اختر رندھاوا کا نام نکال دیا ہے۔مجھے بہت خوشی اس بات پر ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب عدل جہانگیری کو بھی پچھاڑتے ہوئے حفیظ اختر رندھاوا پر اعتراض کہ بحیثیت چیف سیکر ٹری پنجاب اپنی سبکدوشی کے بعد سرکاری رہائش گاہ میں رہنے پر بضد تھے۔سیلیوٹ،سیلیوٹ ن لیگ کی دیانتداری اور عادلانہ سوچ کو سیلیوٹ۔مگر حیرت خود ورطئہ حیرت میں ہے کہ ایسے دیانتدار لوگ جسٹس ناصر اسلم زاہد جیسے متنازعہ شخص کو نگران وزیر اعظم تقرری کے لیے ایسے بیقرار کیوں تھے۔۔؟کہ جن کے بہنوئی کے قتل کیس میں شریک چیئر میں پیپلز پارٹی اور موجودہ صدر پاکستان آصف زرداری کو عدالتوں میں اپنی صفائی دیا پڑی۔۔؟ایک طرف ایسا عدل کے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے ایک نام اس لیے رد کر دیا جائے کہ وہ سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے میں لیت و لعل کرتے تھے اور دوسری طرف ایک انسان کے بہنوئی کے قتل میں ملوث شخص کی پارٹی کی حکومت ہو تو مقتول کا رشتہ دار شخص نگران وزیر اعظم کے طور پر کیسے قابل اعتماد ہو سکتا تھا۔۔؟ایسا فیصلہ تو کوئی مطلق العنان حکمران ہی کر سکتا ہے۔۔۔جبکہ صد شکر کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن موجود تھا۔لیکن میرا آخری سوال مسلم لیگ ن کے اس اقدام پر ہے کہ انہوں نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں رانا ثنائ اللہ،مجتبیٰ شجاع الرحمان اور اقبال چنڑ جیسے نام شامل کیے۔اس کمیٹی میں شامل سابق صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع کے بارے میں خاکسار بزات خود کچھ جانتا ہے جو قارئین کی خدمت میں عرض ہے۔گزارش یوں ہے کہ مئی ٢٠٠٩ میں راقم ایک مقامی اخبار میں انویٹیگیٹو رپورٹر تھا۔

١٢ مئی ٢٠٠٩ میں میں نے مسلم لیگ ن کی طرف سے سستی روٹی سکیم میں ہونے والی مبینہ کروڑوں کی کرپشن پر ایک سٹوری فائل کی تھیجس میں مسلم لیگ ن کے ایک چھوٹے لیکن انتہائی اہم کردار کی کرپشن واضح کی تھی۔جس کی پاداش میں خاکسار کو ن لیگی ایم پی اے راحیلہ خادم حسین کے ڈرائنگ روم میں ان کے طنز و تشنیح اور ۔۔بھاری بھرکم۔۔غصے کا نشانہ بننا پڑا اس کا ایک گواہ میرا ایک دیرینہ دوست سینئر صحافی زوالفقار شاہ بھی ہے۔نہ صرف یہ بلکہ خبروں کی اشاعت رکوانے کے لیے مجھے اور میرے اخبار کو ایک نظریں خیرہ کرنے والے تحفہ کا استعمال کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔مگر میری آنکھیں نہ ہی چندھیائی اور نہ ہی میرا قلم جھکا۔پھر مجھے راقحلہ خادم اور میاں مجتبیٰ شجاع کے چہیتے اور دوہری شخصیت کے حوالے سے مشہور ن لیگی ایم پی اے وسیم قادر کی طرف سے بھی۔۔تحفے۔۔کی پیشکش کی گئی۔مگر اس کے جواب میں میں نے میاں مجتبیٰ شجاع سے رابطہ کرکے ساری بات ان کے گوش گزار کی اور عرض کی کہ جناب اس کرپشن کی بابت کچھ کیجیئے کیونکہ زبان زد عام ہے کہ یہ سب آپ کے نوٹس میں ہے مگر آپ چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں۔جس کا جواب انہوں نے کافی سپاٹ لہجے میں دیا کہ میں نے کمیٹی بنا دی ہے جو بھی ملوث ہوا ہم کاروائی کریں گے۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت مجتبیٰ شجاع کے چہرے کے تاثرات انتہائی غضبناک ہوں گے کیونکہ میں فون پر بات ہونے کی وجہ سے دیکھ نہیں تو محسوس ضرور کر سکتا تھا۔مگر ڈھاک کے تین پات کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی!تو سوال یہ ہے کہ حفیظ اختر سرکاری رہائش خالی نہ کرنے کی پاداش مٰں لسٹ سے خارج ہوئے تو پھر میاں مجتبیٰ شجاع نے تمام ثبوت اور گواہان کے باوجود اپنے دامن سے یہ داغ دھونے کی کوشش کیوں نہیں کی؟کیا ایسا نام نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کمیٹی میں ہونا چاہیے۔۔۔؟
adeel ashraf shuja
About the Author: adeel ashraf shuja Read More Articles by adeel ashraf shuja: 7 Articles with 6206 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.