تقریبا چھیاسٹھ سال بعد پاکستانی
قوم کو گیارہ مئی 2013 کو ایک ایسا موقعہ ملنے جارہا ہے جسکے لیے پوری قوم
صرف تصور ہی کیا کرتی تھی حالانکہ یہ کوئی خاص بات نہیں دنیاکے اکثر ممالک
جہاں جمہوریت ہے وہاں ہر چار یا پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں اور عوام
اپنی مستقبل کی حکومت کو ووٹ کے زریعے منتخب کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے بانی
پاکستان قائداعظم محمد علی جناع اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ہم سے
بہت جلد جدا ہوگے لہذا پھر بدعنوان اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن بیٹھے،
اُس میں سرکاری افسران، فوجی جنرل اور بدعنوان سیاستداں سبھی شامل ہیں۔
1973 کے متفقہ آئین کے بعد ملک کا نام "اسلامی جمہوریہ پاکستان" ہوگیا لیکن
صرف چار سال بعد1977 میں ضیاالحق نے شب خون مارا اور پاکستان اگلے گیارہ
سال تک صرف نام کی حد تک "اسلامی جمہوریہ پاکستان"رہا۔ جمہوریت تو اس آمر
کے آنے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ساتھ ساتھ اس نے مذہب کا بھی ناجائزاستمال کیا
اور ملک آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی طرف چلا گیا جس کا آج ہم سب شکار ہیں۔
مگر یہ سب کیونکر ممکن ہوا اس کا سیدھا جواب ہے ہمارئے سیاستدان اس کے
ذمیدار ہیں۔ 1977 میں بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں سیاستدانوں نےفوج
کو مداخلت کی دعوت دی۔ ضیاالحق کی موت کے بعد 1988 سے 1999 تک دو دو مرتبہ
بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں اور یہ ایک دوسرئے کی حکومت ختم
کرنے کے درپے رہے۔ مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ ،لوٹ کھسوٹ،بے روزگاری ،غربت و افلاس
،بدا منی ،کرپشن جیسے تحفے ان دونوں حکومت ہی کی دین ہیں ۔ نواز شریف 1997
میں دو تہائی اکثیریت حاصل کرنے پراپنی کامیابی کو ہضم نہ کرپائے اور انہوں
نے اپنے دوسرئے دور میں اقراباپروری کی انتہا کی ہوئی تھی، دوسرئے اب وہ
کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، ان کے ہی دور میں سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔
وہ ایک صدر، ایک چیف جسٹس اور ایک آرمی چیف کو گھر بھیج کر یہ سمجھ بیٹھے
کہ وہ ہی عقل کل ہیں۔ اکتوبر 1999 میں ان کے ہی ایک غلط فیصلے نے جنرل
پرویز مشرف کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا۔ مشرف حکومت کی طوالت کے
ذمیدار بھی بدعنوان سیاستداں ہی تھے۔
جب بینظیر بھٹو 2007 میں دہشت گردی کا شکار ہوئیں تو عام پاکستانیوں کی
ہمدردیاں اُن کے ساتھ ہوگیں ۔فروری 2008کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے
آصف زرداری کی قیادت میں ایک بار پھر "روٹی، کپڑا اور مکان" کا نعرہ لگایا
اور بینظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے عام لوگوں کی ہمدردی کا پورا پورا
فائدہ اٹھایا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ عوام کی اکثریت نے پیپلز
پارٹی کو ووٹ دیئے اور عوام کی یہ ہمدردی عوام کو ہی بہت مہنگی پڑگئی۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران زرداری حکومت نے بدترین کرپشن، بری گورننس، طویل
لوڈشیڈنگ، غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ کیا اور قومی
ملکیتی ادارے تباہ کیے۔ آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا
نے ملکر کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ
توڑڈالے ۔ آج جب پانچ سال کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کی مدت پوری
ہوگی ہے تو صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے لیڈران اس بات پر خوشی سے
پھولے ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت نے پانچ سال تک ایک جمہوری حکومت کو چلایا
جبکہ دوسری طرف پاکستان کے عوام بھی بہت خوش ہیں کہ ایک انتہای بدعنوان
حکومت سے ان کی جان چھوٹی۔ آج مرکز اور چاروں صوبوں میں نگراں حکومت کا
قیام عمل میں آچکا ہے اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی ہوچکا ہے یہ
پاکستان اور پاکستانی عوام کےلیے ایک خوشی کی بات ہے۔ آج چھیاسٹھ سالہ
پاکستان جو چھیاسٹھ ارب ڈالر کا مقروض ہے، چھیاسٹھ ہی سال بعد پہلی مرتبہ
جمہوریت کے تسلسل کے عمل سے گزررہاہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے
جہاں کی معاشی صورتحال کے اعداد و شمار گذشتہ ایک دہائی سے بد سے بدترین کی
جانب اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے
ایک ایسے مشکل دور سے گزر رہا ہے جب اسے دہشت گردی ، توانائی کی قلت، بگڑی
ہوئی امن و امان کی صورتحال اور سیلابوں سے ہونے والی تباہی جیسے مسائل سے
نمٹنا ہےاسکے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بھی روکنا ہے تاکہ عام آدمی کی
حالت زندگی بہتر ہوسکے۔
چھیاسٹھ سال کی تاریخ ہمارئے سامنے ہے ایسا ہوا ہی نہیں کہ ایک کے بعد
دوسری سیاسی حکومت آتی ۔ یہ پہلا موقعہ ہوگا لہذا پاکستان کے عوام کے اوپر
ایک بھرپور ذمیداری ہے اور اگر وہ اپنی ذمیداری ٹھیک طرح ادا کرتے ہیں تو
انشااللہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہوگا۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو
یقینی بنانا ہوگا کہ ہم سب لازمی ووٹ دینگے۔ اسکے علاوہ اس مرتبہ ووٹ دیتے
وقت ہمیں تعصب، فرقہ پرستی اور برادری کو بھی نظر انداز کرنا ہوگا۔ پاکستان
کی اکثریت ہمارئے گاوُں اور پس ماندہ علاقوں میں ہیں اور یہ جاگیردار طبقہ
وہاں سے ہی فاہدہ اٹھاتا ہے، یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم تعصب، فرقہ پرستی
اور برادری سسٹم کے خلاف ایک بھرپور آواز اٹھایں۔ ویسے تو الیکشن کمیشن بھی
اس مرتبہ بہت سخت طریقے سے امیدواروں کی تفتیش کرئے گا لیکن ہمیں بھی
دیکھنا ہوگا:
- ہر پارٹی کا ماضی ہمیں لازمی دیکھنا ہے
- پارٹی کا منشور
- پارٹی کی قیادت کا ذاتی کردار
- کس پارٹی کے پاس کس کس شعبے کے ماہرین ہیں
ایک بات یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے ممبر کا اصل کام ملک کی خارجہ، داخلی،
معاشی، تعلیمی ، دفعاعی ، تجارتی اور قانونی پالیسیاں بناناہے، جبکہ صوبائی
اسمبلی کے ممبرکا کام داخلی، معاشی، تعلیمی ، تجارتی اور قانونی پالیسیاں
بناناہے ان دونوں میں سے کسی ایک کی بھی زمیداری یہ نہیں کہ محلے کےروڈ
بنوائے یا گلیاں محلے صاف کروائے، یہ کام بلدیاتی نمائدوں کا ہے۔ لہذا ہم
نے اگر ان باتوں پر عمل کرلیا تو امید ہے کہ ہمارئے اگلے پانچ سال بہتری کی
طرف ہونگے۔ سقراط نے کہا تھا کہ "جب ہمیں لکڑی کا کام ہوتا ہے تو ہم ایک
اچھے لکڑی کا کام کرنے والے کا انتخاب کرتے ہیں، اور جب ہمیں لوہے کا کام
ہوتا ہے تو ایک اچھا لوہار کا انتخاب کرتے ہیں، تو پھر جب ہمیں کسی کو
حکمراں بنانا ہو تو ہم اچھے حکمراں کا انتخاب کیوں نہ کریں"- ہمیں یہ موقعہ
پہلی بار مل رہا ہے اور ہم سب کچھ ایک مرتبہ میں ہی ختم نہیں کرسکتے لہذا
آخر میں بی بی سی پر لکھے وسعت اللہ خان کےایک مضمون "جمہوریت کا جانگیہ"
کے آخری حصہ کو پڑھ لیں :
"آپ تو جانتے ہیں کہ کہیں بھی زمین میں بورنگ کرکے پانی کا نلکا لگایا جائے
تو اس میں سے بہت دیر تک کیچڑ نکلتا رہتا ہے ۔پھر گدلا پانی آنے لگتا ہے
اور اگر آپ نلکہ مسلسل ہلاتے رہیں تو آدھے پونے گھنٹے بعد صاف پانی گرنا
شروع ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کا نلکا بھی ایسے ہی کام کرتا ہے۔کیچڑ سے گھبرانا
نہیں چاہیے۔ اگلے الیکشن میں یہی کیچڑ گدلا پانی بن جائے گا اور اس سے اگلے
الیکشن کے بعد یہی پانی پینے کے قابل ہوجائے گا۔ جہاں پینسٹھ برس سہی وہاں
دس برس اور سہی۔۔۔"
آئیے ہم سب ملکر اپنے ملک کو ایک اچھے مستقبل کی طرف گامزن کریں تاکہ ہماری
آئندہ نسلیں ایک اچھے پاکستان کو دیکھیں۔ اللہ تعالی پاکستان اور ہم سب کا
حامی و ناصر رہے۔ آمین |