بظاہر تو پاکستان الیکشن کی تیاری میں صروف
نظر آتاہے۔ مگرالیکشن کے لیے جو یک طرفہ پی پی پی نواز سیٹ اپ بنایا گیا ہے
اس کے بعد الیکشن یک طرفہ تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔اول تو الیکشن کمشنر
فخرالدین جی ابراہیم پی پی پی کے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون رہ چکے
ہیں۔پھر عبوری وزیرِ اعظم کھوسو بھی پی پی پی کے وزیر اور اُس کے اپائنٹ
کردہ شریعت عدالت کے جج رہ چکے ہیں۔ نواز لیگ کی خاموشی اور بے بسی ناقابل
فہم ہے۔ آخر وہ اس قدر دبو اور بُزدلانہ رول کیوں پلے کررہی ہے؟تمام عہدوں
پر پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ افسران کام کررہے ہیں۔ پھرعوام کے مفادات کا
تحفظ کون کرے گا؟کیاسپریم کورٹ اندھا ہوچکا ہے کہ اسے پی پی پی نواز انتظام
نظر نہیںآرہاہے۔ سچی بات ہے کہ اپوزیشن نواز لیگ کے بس کا روگ نہیں۔ وہ تو
بس اقتدار میں شرکت اور مک مکا کے قابل ہیں۔ عبوری حکومت کی ضرورت اس لیے
ہوتی ہے کہ برسراقتدار پارٹی ہر اہم ضلع اورتحصیل میں اپنے منظورِ نظر
افسران مقرر کرتی ہے۔تاکہ وہ اس کے حق میں دھاندلی کرسکے۔ مخالفین کاراستہ
روکنا ‘ ان کی بسیںضبط کرنا الیکشن میں انہیں ووٹ کاسٹ کرنے سے روکناجیسے
کام ان ہی افسران کے سبب ممکن ہوتے ہیں۔عبوری حکومت غیر جانبدار اور دیانت
دار افسر مقرر کرتی ہے۔ لیکن کھوسو نہ صرف پیپلز پارٹی کے ہمدرد ہیں بلکہ
ان کی ضعیفی ان کے کام میں بڑی رکاوٹ ہوگی کیوں کہ ان کی عمر 82 برس سے
متجاوز ہوچکی ہے۔ ہمارے افسروں کی ہوس اقتدار ختم ہی نہیں ہوتی خواہ ان کا
پیمانہ عمر لبریز ہی کیوں نہ ہونے والا ہو۔سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم
کیوایم نے چالاکی سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کا رول ادا کرتے ہوئے
اپنی مرضی کا کیئر ٹیکر چیف منسٹر بنالیااور اس طرح مخالفین کے برسراقتدار
آنے کا ہر امکان ختم کردیا۔
اس طرح صاف نظر آتا ہے کہ الکشن میں کھلی دھاندلی ہوگی اور غلط نتائج آئیں
گے اور کوئی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس لیے یا تو فوج آجائے گی یا اس
کی نگرانی میںقومی حکومت قائم کی جائے گی۔وہ سادہ لوح پاکستانی جو الیکشن
میں نجات کی امید دیکھ رہے ہیں ‘ بہتر ہو گا کہ اب بھی ہوش میں آجائیں:
وطن کی فکر کرناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیںآسمانوں میں
وطن عزیز میں آج کل جس قدرجبرواستحصال ہے اور خود پاکستانی اپنے بھائیوں کے
مفادا ت بیچ ہی نہیں رہے بلکہ ان کے قتل وغارت گری میں بھی ملوث ہیں اس کے
بعد یہ توقع کرنا کہ مغربی طرز کے انتخابات سے سب کچھ صحیح ہوجائے گا اور
ملک میں امن و سکون اور خوش حالی آجائے گی ‘ احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کو تو ان کے مفادات نے اندھا کررکھا ہے۔
مگر ان انقلابی دینی جماعتوں کی عقل پر کیسے پتھر پڑگئے ہیں جو نیم کے درخت
سے آم اگنے کی توقع کررہی ہیں۔ان جماعتوں کی بصیرت کیوں کر کور چشمی میں
تبدیل ہوگئی؟ دراصل یہ قربانی دینے سے بچنا چاہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ
خوش نما نعروں کے ذریعے ان کا کام چل جائے گا۔سب سے زیادہ افسوس جماعت ِ
اِسلامی کی کوتاہ بینی پر ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد کی کھوکھلے نعروں کے
ذریعے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش بری طرح ناکام رہی ہے۔ جماعت اپنا
ووٹ بینک بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔اور اب منور حسن بھی اُسی ناکام پالیسی
پر عمل کررہے ہیں۔کاش وہ ایک ہی غلطی باربار دہرانے کی حماقت سے گریز کرتے۔ |