ریس جاری ہے ۔یہ ریس سیف علی خان
کی ریس (فلم) سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔سیف علی خان کی ریس میں انٹر ٹینمنٹ ،سسپینس،
ٹریجڈی، گلیمر اور سب سے اہم ایک بھائی کا اپنے بھائی کے لیے دِل میں بغض و
نفرت اور بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔پاکستان میں موجود نگران وزیرِ اعظم کی
ریس میں بھی آج کل یہ سب کچھ بلکہ اِس سے بھی زیادہ نئی ٹیکنا کوجی کے ساتھ
دیکھنے کو مِل رہا ہے۔اِس سیاسی ریس میں بھی بغض ،منافقت،سیاست،سسپینس ،انٹر
ٹینمنٹ وغیرہ کے وہ تما م تر جراثیم پائے جارہے ہیںجو ہر دور کی سیاسی ریس
میں پائے جاتے ہیں۔میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ ” جب ریس میں سب
سے اگلا ہی جیتتا ہے تو پھر یہ پیچھے والے کیوں بھاگ رہے ہوتے ہیں“ خیر ریس
کا پوزیشن ہولڈر آگے ہی ہے بس ذرا اپنے پیٹی بند بھائیوں کی حوصلہ افزائی
اور دکھلاوے کو کچھ دیر کیلئے پیچھے آجاتا ہے عین اُسی طرح جیسے کہ پتنگ کو
ڈور کہ ذریعے کھینچا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اِس قدر ڈھیل دے دی
جاتی ہے کہ وہ آسمانوں میں دور نکل جاتی ہے۔اِس ریس کی ڈوریں بھی ماسٹر
مائینڈ کے ہاتھوں میں ہیں۔خیر میں کِسی اور بحث کی جانب چل پڑا میرا مدعا
تو پپو کے بارے میں ہے ۔بڑی بڑی مشعلیں روشن کر دی گئی ہیں کیوں کہ نگران
سیٹ اپ موم بتی یا چراغوں کی روشنی میں نہیں ملتے۔ نگران وزیر تو خیر ریس
میں آگے ہی ہے۔ابھی تو چناﺅکی ریس بھی باقی ہے۔اِس کالم کی اشاعت تک عین
ممکن ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کا طے شدہ انتخاب کیا جاچکا ہومگر اِس ناچیز
راقم کی مودبانہ گزارش ہے کہ پپو پر خاص نظرِ ثانی کی جائے کیوں کہ میں
جانتا ہوں کہ پپو میں ایک عظیم سیاست دان بننے کے صرف جراثیم ہی نہیں بلکہ
بہت سارے بیکٹیریا،امیبا،اسفنج وغیرہ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
کمیشن الیکشن نگران وزیرِ اعظم کیلئے پریشان ہے یہ پریشانی یقینا بظاہری ہے
کیوں کہ سب جانتے ہیں نگران وزیرِ اعظم جِس نے بننا ہے یا یوں کہیں کہ
جنہیں بنایا جانا ہے وہ ریس میں سب سے آگے ہے۔گزشتہ دِنوں میرے انتہائی
قریبی دوست جسے میرے بہت سے ایسے راز پتہ ہیں جو میں خود سے بھی چھپاتا
پھرتا ہوں (پپو)نے مجھے کہا” یار میں بہت پریشان ہوں اِس زندگی سے بس یار
میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں خودکشی کر لوںگا ۔اب اور نہیں جیا جاتا “
میں نے کہا ”بتا تو سہی آخر بات کیا ہے؟“”کیا بتاﺅں بس اتنا ہی سن لو کہ بے
روزگار ہوں اب تمام پریشانیوں اورمشکلات کا اندازہ خود ہی لگا لو“میں نے
مشورہ دیا” اچھا ایسا کرو نگران سیٹ اپ کی ریس میں شمار ہو جاﺅ اچھے بھلے
ہووزیر بننے کی تمام تر خصوصیات سے لبریز ہو۔میرے کچھ دوست صحافی ہیں میں
اُن سے کہتاہوں وہ جلد از جلد اخبارات اور رسائل میں تمہارا نام اُچھالنا
شروع کر دیتے ہیں ۔ایک دو ٹاک شوز میں بھی بڑی اہمیت ہے میری رات و رات
پولیٹیشن بنا دیتا ہوں ۔سنو نگران سیٹ اپ سے اگر نکل بھی جاتے ہو تو کوئی
غم نہیں الیکشن سر پرہیں اتنی مقبولیت دیکھ کر کوئی نہ کوئی سینے سے لگا ہی
لے گا پیارے“پپو جو کہ انتہائی پتھر کا مجسمہ بنے بنا پلکیں جھپکائے میرا
خطبہ سن رہا تھا بولا ”مگر مجھ میں وزیرِ اعظم یا کوئی بھی وزیر مشیر بننے
کے چراثیم کہاں سے آئے اور نہ مجھ میں سیاسی قسم کی قابلیت یا مہارت کے گُر
ہیں“میں نے کہا”سیاست میں بھلا قابلیت و مہارت کہاں سے ٹپک پڑی۔ بس اب غور
سے میری بات سنو اور ہاں یا نا میں جواب دو آگے کا فیصلہ میں خود کرونگا
“پپو نے سر کو جھکا لیا کہ جیسے وہ میری ہر بات سننے کوبا ادب تیار ہے ۔
میں نے اپنی بات شروع کی ”سنو! سب سے پہلے تمہیں اپنی ذات میں خود پسندی
پیدا کر نا ہوگی ۔اگر تم چاہتے ہو کہ سیاسی میدان میں کچھ کر دکھاﺅ تو سب
سے پہلے”University Of Liar“میں داخلہ لو اگر ایسا کرنے کا وقت بھی نہیں ہے
تو دو چار گھنٹوں کیلئے ایسے ایسے واقعے بیان کرو جن کا حقیقت سے ذرا برابر
بھی تعلق نہ ہو۔سنو جو باتیں میں کر رہا ہوں انہیں پلو سے باندھ لو ۔جلد از
جلد صحافیوں سے رابطے بڑھانا شروع کردو اِن کی دعوتیں کرو“ مگر اتنی دولت
کہاں سے لاﺅ”پپو یار تونے پھر وہی جاہلوں والی بات کی نہ یوں کہتے ہیں اتنی
انویسمنٹ کہاں سے لاﺅ ۔سن جتنا خرچ کرے گا اُس سے 50 گنا ہ زیادہ واپس بھی
تو آہی جانا ہے اس لیے سیاسی کاموں پر خرچ ہونے والی رقم کو انویسمنٹ کہتے
ہیں۔اور سن تو ایسا کر اپنی بوسیدہ زمین پر کنسٹریکشن کے کام کی شروعات کا
بہانا بنا کر آٹھ ،دس بینکوں سے لون(Loan) لے لے “پپو نے حیرانگی سے پوچھا”
ایک ہی زمین پر دس بینکوں سے کیسے لون(Loan) لے سکتا ہوںاور واپس کرنا مشکل
ترین ہو جائے گا “میں نے کہا ”اگر سیاست دان بننا ہے تو یہ کیسے، کیوں ،کب
،کہاں، مشکل،ناممکن وغیرہ سب کو بھولنا ہوگا بس کر گزرو اورذہن سے یہ بات
تو نکال ہی دو کہ مشیر یا وزیر بنکر بھی تمہیں واجبات ادا کرنا ہونگے اور
ہاں اپنے قریبی دوستوں ،عزیزو اقارب کو وہی خواب دیکھاﺅ جو وہ دیکھنا چاہتے
ہیں اُن سے وعدے کرو کہ یہ سب ہو سکتا ہے “ ”اور اگر نہ کر سکا تو“ ” کرنے
کو کہہ کون رہا ہے پپو یار تم نے تو صرف وعدے کر نے ہیں اور وعدہ وہی ہے جو
وفا نہ ہو“۔
” مجھے روپیہ ،پیسے ،دولت سے کوئی سروکار نہیں میں امیر نہیں ہونا چاہتا بس
اتنا کہ دو وقت کی روٹی میسر آجائے باقی سارا پیسہ میں اپنے ہم وطنوں پر
نچھاور کر دونگا “ یہ سنکر میری تو خوشی کی انتہا نہ رہی ” ویری گڈ یہی ،یہی
بیانات چاہیے ہیں بس ،بن گیا تو ہر دل عزیز سیاست دان“ پپو نے مجھے حیرت سے
دیکھا اور بولا ” او میرے دوست یہ کوئی سیاسی بیان نہیں میرے اندر کے حقیقی
خیالات کی ایک جھلک ہے “ پپو سن ”البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ’ بھوکا ،افلاس
زدہ شخص کبھی سیای مشیر یا وزیر ثابت نہیں ہو سکتا ‘ تجھے دوسروں کی بھوک
سے کیا ،سن دیکھ ابھی تو بھوکا ہے، بے روزگار ہے،کھانے کو تیرے پاس کچھ
نہیں ،تن سے ادھ ننگا اور پاﺅں سے پورا ننگا ہے کِسی کو تیرا خیال نہیں
آیا۔تو جانتا ہے کہ تیرا کِسی کو خیال کیوں نہیں آیا؟ “ ” نہیں “ سن
”کیونکہ تو بھی ابھی اِس حالت میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھنا نہیں چاہیے
گا ۔اِس حالت میں تیری نظر بھی کِسی امیر کی جیب پر ٹکی ہوئی ہے اور اِس کی
جیب سے ایک وقت کی روٹی کے پیسے نکلوانے کیلئے تو اُس کی خوش آمد کے انبار
لگانے کو بھی تیار ہو جائے گاخواہ اُس میں ہزاروں عیب ہوں ۔ عین اِسی طرح
جب تو کوئی وزیر مشیر ،امیر و کبیر بنے گا تو عوام کی نظریں تیری بظاہری
شان و شوکت پر ٹک جائیں گی ۔پھر بھلے تو لوڈشیڈنگ کروانا، پیٹرول مہنگا
کروانا ،کرایوں میں اضافے کر وانا ،چاہے سارے اچھے عہدوں پر صرف اپنی جان
پہچان والے اور عزیزو اقارب کو ہی فائز کرناغرض جو مرضی کر وانا تیرے رتبے
،شان و شوکت و دلت کے آگے سب کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔دو چار ظاہر ی اور
آٹھ ، دس خفیہ شادیاں بھی رچابسا لینا ۔غریب کو تو جینے کیلئے دو وقت کی
روٹی ہی کافی ہے سو وہ تو تیری حکومت دے ہی دے گی،بلکہ وہ بھی تیری حکومت
کیا اللہ پاک کی ذات خود ہی غریب کے پیٹ پوجا کا انتظام کر دیتی ہے کیونکہ
اُس نے رزق دینے کا وعدہ جو کر رکھا ہے سو یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ۔یہ شان
و شوکت ،کوٹھیاں،بنگلے، کاریں ،نوکر چاکر ،وزارتیں وغیرہ یہ سب تو سیاست
دانوں کے چونچلے ہیں ۔غریبوں کو اپنی اوقات میں ہی رہنا چاہیے میرے پپو
بھائی۔اب بچارا غریب بھی کار رکھ لے تو ڈرائیور کون بنے گا؟“
پپو نے نے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے شاید آخری سوال کیا ”مگر کیا یہ جو
میں وزیر بنکر ملک و قوم کی دولت جمع کرونگا ،اپنے ہم وطنوں کو دھوکا دونگا
۔یوں میں ملک و قوم کا مجرم نہیں؟“میں نے گہری نگاہوں سے پپو کی جانب دیکھا
اور بولا ” تو بھی پپو یار ہی ہے ،ملک و قوم کا پیسہ جمع کرنا اگر جرم ہے
تو پھر یہ بنک تو سب سے بڑے مجرم ہوئے اور ہاں تو ملک و قوم کا پیسہ ضائع
تونہیں کر رہا نہ اپنے پاس جمع ہی تو کر رہا ہے میں تو کہتا ہوں اپنے پاس
بھی جمع نہیں کرو کبھی بھی انکم ٹیس کی ریٹ پڑ سکتی ہے اور اگر بنکوں میں
جمع کروائے گا تو راز فاش ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ڈر لگا رہے گا کہ کہی
بنک دکیتی ہی نہ ہو جائے بہتر یہی ہے کہ اپنا تمام تر روپیہ پیسہ بیرونِ
ممالک کے بنکوں میں جمع کروانا “”بس بس میں سمجھ گیا اب میں بلکل تیار ہوں
وزیرِ اعطم یا کوئی بھی وزیر بننے کیلئے “”بس ٹھیک ہے تو پھر آج اورا بھی
سے غریبوں سے بالکل کنارہ کشی کرلے، چار دِن کی چاندنی ہے خوش رہ ،دولت جمع
کر ،بڑے بڑے مضبوط محل بنا،موج مستی عیاشی کر ،اور مر جا “۔
پپو معنی خیز مکروہ مسکراہٹ سے لہرایا اور میری ہی جانب حقارت سے دیکھتے
ہوئے کہا ” چل مجھ سے ذرا دور ہو کر کھڑا ہو تجھ میں سے غربت کی بُو آرہی
ہے“ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرا شاگرد کامیاب ہو چکا تھا اور
وزیر و مشیر بننے کے تمام تر اوصاف ظاہر ہونے لگے تھے ۔ |