حقیقت پر مبنی اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سیاست ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے پاکستانی سیاست کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جو بھی اس سیاست میں داخل ہوتا ہے ایک دفعہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کروڑ پتی بن چکا ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ کیا ہے؟ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں احتساب کا نہ ہونااور احتسابی اداروں کا حکومت وقت کے زیر اثر ہونا ہے اور اگر کہیں احتساب ہو بھی جائے تو ناجائز کمائی ہوئی دولت کے بل بوتے پر بہت آرام سے بچ نکلناہیں دوسرے لفظوں میں انصاف کو خرید لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ انصاف صرف اور صرف غریب لوگوں کے لئے ہے اور امیر اور دولت مند کے لئے انصاف اس کے گھر کی لونڈی ہے پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور اراکین پارلیمنٹ پر ہمیشہ سے اصل اثاثے چھپانے کا الزام رہا ہے جو کہ کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ وہ جماعتیں جو ملک پر حکمرانی کر چکی ہیں اور جن کے ٹکٹ کے امیدوار سے لاکھوں روپے کی گارنٹی لی جاتی ہے اور پارٹی فنڈ اس کے علاوہ ہوتا ہے صرف اس بات کے لئے کہ اسے پارٹی کا ٹکٹ دیا جائے گا اور اس حساب سے دیکھا جائے تو پورے ملک میں دیے جانے والے ٹکٹ ہزاروں میں ہوتے ہیں اور ان سے ایک خطیر رقم سیاسی پارٹیوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن بہت سی پارٹیاں ان کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کرتی اور اگر کوئی جماعت اثاثے ظاہر کر بھی دے تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر جس کی وجہ سے ان سیاسی پارٹیوں پر لگنے والے کرپشن کے الزامات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے حالانکہ الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعتوں اور اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے اثاثوں کی سالانہ تفصیلات ایک آئینی تقاضا ہے جس کو ہر حال میں پورا کرنا پڑتا ہے اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتیں ہر سال اس مشق کو دہراتی ہیں لیکن ان میں اکثر وہ تفصیلات الیکشن کمیشن کو دی جاتی ہیں جو کہ جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اب ان سیاسی پارٹیوں کے گوشواروں پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا بلکہ اکثر لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ جو آدمی یا جس سیاسی پارٹی کے لوگ دو دو کروڑ روپے تک کی مالیت کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوں جن کے آگے پیچھے چاہیے ہزاروں لوگ جمع رہتے ہوں وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ان کی حفاظت پر کئی افراد مامور ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کی آمدن یا ان کی جائیداد لاکھوں میں ہو ان کی جائیداد تو کئی سو کروڑوں پر مشتمل ہوتی ہے اگر ان کے صیحح اثاثوں کی چھان بین کا کوئی معتبر سا طریقہ وضع کر لیا جائے تو یقینا بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اس طرح سے ان لوگوں سے وصول ہونے والے انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں میں اضافہ وہ سکتا ہے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکتا ہے کہ اتنی زیادہ دولت ان لوگوں نے کہاں سے جمع کی اور جب یہ اسمبلی میں نہیں تھے تو اس وقت ان کی کیا پوزیشن تھی اور اب جب یہ اقتدار میں ہیں تو ایسے کون سے زرائع ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں اور اتنی دولت نظر آنے کے باوجود یہ اس کو الیکشن کمیشن یا متعلقہ فورم پر ظاہر نہیں کر رہے اور اس کے باوجود معزز کہلوا رہے ہیں اور ان کی نسبت اگر کوئی غریب اس طرح کیے اثاثے بنا لے تو ہمارے قومی محکمے اس کی کھال اتار لیتے ہیں اثاثوں کی تفصیلات ہمیشہ ایک متنازعہ عمل رہا ہے اربوں اور کھربوں روپے کے اثاثوں کی مالک سیاسی جماعتیں اور اراکین پارلیمنٹ اصل اثاثوں کا عشر عشیر بھی ظاہر نہیں کرتے سیاسی جماعتوں کی قیادت کے حوالے سے بھی ایک تاثررہا ہے کہ ہمیشہ ان کے اثاثوں کی تفصیلات مشکوک ہی رہی ہیں کیونکہ اکثر قیادت کی بیرون ممالک میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں ہیں جو کہ متعلقہ حکام کے علم میں ہیں مگر ان پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی کیونکہ اقتدار میں بیٹھے لوگ بہت ہی بااثر ہیں یہاں تک کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے سال-2012 2011 کے لئے جاری کی گئیں سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کی تفصیلات میں بھی ابہام دیکھنے میں آیا تھاجبکہ اس کے بعد بھی کسی پارٹی نے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی زخمت گوارا نہیں کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس صرف چار لاکھ 35 ہزار روپے کے اثاثے تھے جبکہ مسلم لیگ نواز کے پاس تین کروڑ 35 لاکھ،قاف لیگ کے پاس 5 کروڑ پندرہ لاکھ روپے کے اثاثے تھے جبکہ ایم کیو ایم نے ایک کروڑ 75 لاکھ کے اثاثے ظاہر کئے جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی بھی غریب نکلیں جن کے پاس بالترتیب صرف بیس لاکھ 75 ہزار روپے اور چودہ لاکھ اکیس ہزار روپے کے اثاثے تھے سب سے غریب سیاسی جماعت شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ نکلی جس کے پاس صرف 57 ہزار روپے کے اثاثے تھے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان جماعتوں کے سیکرٹریٹ کی بلڈنگز جن پوش علاقوں میں واقع ہیں وہاں پراپرٹی کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور وہ کون سے زرائع ہیں کہ جنھوں نے ان اثاثوں کے مطابق اتنی غریب پارٹیوں کو اتنے مہنگے علاقوں میں پارٹی کے آفسس قائم کرنے میں مدد کی ہو گی کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بھی سرمایہ دار جب دیکھتا ہے کہ فلاں پارٹی کی پوزیشن بہت اچھی ہے تو اس کی جیت کے لئے اپنی طرف سے سرمایہ کاری کرتا ہے تا کہ کل کو جب وہ پارٹی اقتدار میں آئے تو اس کی ،کی ہوئی انوسٹمنٹ اس کے کام میں معاون ثابت ہو سکے اس طرح کے لوگوں کی حوصلہ شکنی کے لئے الیکشن کمیشن کو اپنا غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہو گا اور اثاثوں کی تفسیلات کی جانچ پڑتال کا ایک منظم اور مضبوط نظام بنانا ہو گا اور سیاسی لوگوں کے بیرون ممالک میں اثاثوں کو بھی عوام پر ظاہر کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ عوام کو بھی پتا چل سکے کہ ان پر حکمرانی کرنے والوں کے دولت کمانے کے زرائع کون سے ہیں اثاثوں کی تفصیلات کو محض ایک کاغذی کاروائی بنا دیا گیاجبکہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی پارٹیاں اپنے اثاثوں کی تفسیلات عوام کے سامنے لاتی ہیں اور اگر کوئی پارٹی ان کو چھپائے تو اس کے سربراہان مستعفیٰ بھی ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاملہ زرا لٹ ہے جس سے طاہر ہوتا ہے کہ اگر قوم کی نمائندہ جماعتیں اور اراکین پارلیمنٹ ہی اگر اثاثوں کی تفصیلات میں غلط بیانی شروع کردیں تو قانون پر عمل درآمد کون کر ئے گااس طرح گوشوارے اور اپنے زرائع آمدن چھپانے سے اور الیکشن کمیشن پر ظاہر نہ کرنے اور الیکشن کمیشن کی کوئی واضح کاروائی نہ کرنے پر صاف شفا ف انتخابات بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہے اس لئے انتخابی امیدواروں کے اثاثوں کی جانچ پڑٹال کے لئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جانی چاہیے جو کہ ہر امیدوار کی مکمل سیکرونٹی کر کے الیکشن کمیشن کو رپورٹ بھیجے اس کے بعد اس کے کاغذات نامزدگی قبول کیے جائیں اس طرح کرنے سے ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو سیاست کو کاروبار سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے پاکستان کے عوام آج بے شمار بحرانوں کا شکار نظر آتے ہیں .
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227092 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More