حضرت مولانامحمد یوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ
جب حضرت خالد ؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے دل
میں تمنا تھی کہ میں اللہ کے راستہ میں شہید ہو جاﺅں۔ لہذا جن جگہوں میں
جانے سے شہادت مل سکتی تھی میں ان تمام جگہوں میں گیا لیکن میرے لیے بستر
پر مرنا ہی مقدر تھا۔ لا الہ الا اللہ کے بعد میرے نزدیک سب سے زیادہ امید
والا عمل یہ ہے کہ میں نے ایک رات اس حال میں گزاری تھی کہ ساری رات صبح تک
بارش ہوتی رہی اور میں ساری رات سر پر ڈھال لیے کھڑا رہا اور صبح کو ہم نے
کافروں پر اچانک حملہ کر دیا۔ پھر فرمایا جب میں مر جاﺅں تو میرے ہتھیار
اور گھوڑے کو را خیال کر کے جمع کر لینا اور انہیں اللہ کے راستہ میں بطور
سامان جنگ کے دے دینا۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو حضرت عمر ؓ ان کے جنازے
کے لیے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ خاندان ولید کی عورتیں حضرت خالد ؓ
کے انتقال پر آنسو بہا سکتی ہیں نہ تو گریبان پھاڑیں نہ چیخیں چلائیں۔
حضرت محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کا وصال ہو گیا تو حضور ﷺ
کے دفن ہونے سے پہلے حضرت بلال ؓ نے اذان دی۔ جب انہوں نے (اذان میں) اشھد
ان محمد رسول اللہ کہا تومسجد میں تمام لوگ رو پڑے۔ جب حضور ﷺ دفن ہو گئے
تو ان سے حضرت ابو بکر ؓ نے کہا اذان دو تو حضرت بلال ؓ نے کہا کہ اگر آپ
نے مجھے اس لیے آزاد کیا تھا تاکہ میں آپ کے ساتھ (زندگی بھر) رہوں تو پھر
تو ٹھیک ہے۔ (آپ کے فرمانے پر میں آپ کے ساتھ رہا کروں گا اور اذان دیتا
رہوں گا) لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا تو مجھے اس ذات کے
لیے یعنی اللہ کے لیے چھوڑدیں جس کے لیے آپ نے مجھے آزاد کیا تھا حضرت ابو
بکر ؓ نے کہا میں نے تو تمھیں محض اللہ ہی کے لیے یہ آزاد کیا تھا۔ حضرت
بلال ؓ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ کے بعد میں اب کسی کے لیے اذان دینا نہیں
چاہتا ہوں حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا اس کا تمھیں اختیار ہے۔ پھر حضرت بلال
ؓ مدینہ ٹھہر گئے جب شام کی طرف لشکر جانے لگے تو حضرت بلال ؓ بھی ان کے
ساتھ چلے گئے اور ملک شام پہنچ گئے۔ حضرت سعید بن مسیب ؒ کہتے ہیں کہ جب
حضرت ابوبکر ؓ جمعہ کے دن منبر پر بیٹھے تو ان سے حضرت بلال ؓ نے کہا اے
ابو بکرؓ! حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا لبیک۔ حضرت بلالؓ کے لیے۔ حضرت بلال ؓ
نے کہا آپ مجھے اللہ کے راستے میں جانے کی اجازت دے دیں۔ وہاں ہی ان کا
انتقال ہوا۔
قارئین 2013کے انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور اگر کسی قسم کی تبدیلی واقع
نہ ہوئی اور کوئی ”سرپرائز“ سامنے نہ آیا تو مئی کے مہینے میں الیکشن ہوں
گے جن میں کروڑوں پاکستانی اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے نئی قیادت کا انتخاب
عمل میں لائیں گے قومی زندگی کے گزرے ہوئے ماہ و سال دیکھیے کہ کس بنیاد پر
ہم نے یہ ملک حاصل کیا اور آج کلمے کے نام پر بننے والی دنیا کی سب سے بڑی
اور پہلی اسلامی نظریاتی سلطنت کا کیا حال ہو چکا ہے؟ دل کے دکھڑوں کو رونے
کا مقصد نہ تو مرثیہ خوانی کرتے ہوئے اپنا اور آپ کا وقت ضائع کرنا ہے اور
نہ ہی حاصل گفتگو بات برائے بات اور کلام برائے کلام ہے بلکہ ہماری دلی
خواہش ہے کہ آج کی اس بحث سے ہم کچھ نتائج اخذ کریں۔ مسلمانان برصغیر نے
آخر پاکستان نام کی یہ سلطنت کیوں بنائی کلمے کے نام پر آخر کیوں لاکھوں
مسلمان کٹ گئے ، لاکھوں عصمتیں پامال ہو گئیں ، خاندان کے خاندان مٹ گئے
لیکن مسلمانان ہند نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں علامہ محمد
اقبال ؒ فرزند کشمیر کے خواب کو اپنے خون کے ذریعے عملی شکل دے دی۔ یہاں تک
تو کہانی کامیابیوں کی تصویر پیش کرتی ہے لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ نظریاتی
اور فکری بنیادوں پر تخلیق کی گئی یہ ریاست اپنے مقاصد سے ہٹ گئی یہاں ہم
قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اس قول کو ضرور آپ کے سامنے دوہرائیں گے کہ جس
میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں اور میں نے انہی سے
کام لینا ہے یہ کھوٹے سکے کون تھے اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی پراسرار
وفات کے پیچھے کس کس شخصیت کی کون کون سی سازش کن کن مقاصد کے تحت کارفرما
تھی مورخ آج بھی ان سوالوں کے جوابات تلاش کر رہا ہے اور یقین رکھیے کہ
تاریخ تمام سر بستہ رازوں سے ایک دن پردہ ہٹا کر رہتی ہے اور اس کیس میں
بھی تمام پردے وقت کے ساتھ ساتھ ہٹ جائیں گے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح
کی تحریریں آج بھی ان کے بھائی قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے حوالے سے کئی
دل شکن باتوں اور قومی مجرموں کی طرف بھی اشارے کرتی ہیں اور ان کی تحریروں
کو دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طرح ”غیر رسمی ایف آئی آر“کہا
جائے تو بے جا نہ ہو گا آخر ایسا کیوں ہوا کہ نواب زادہ لیاقت علی خان کو
راولپنڈی کمپنی باغ کے مقام پر انتہائی مشکوک انداز میں شہید کیا گیا اور
اس کے بعد پس پردہ موجودتمام قاتلوں اور سازشیوں کو چھپائے رکھنے کے لیے
ظاہری قاتل کو موقعے پر ہی مار دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کوکوئے یار سے
سوئے دار تک لے جانے والی قوتیں کون سی تھیں ۔ جنرل ضیاءالحق کو دس سال تک
امیر المومنین کی حیثیت سے تسلیم کرنے والی قوتوں نے آخر ایسا کیا دیکھا کہ
اپنے سفیر سمیت اسی امیر المومنین کو پاکستان کی عسکری تاریخ کے سب سے بڑے
سانحے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس حادثے میں عساکر پاکستان کی
اعلیٰ ترین قیادت بھی شہید ہو گئی۔ آخر ایسا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے دختر
مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کو نواب زادہ لیاقت علی خان ہی کے مقام شہادت پر
خون میں نہلا دیا گیا۔ ان سب سوالوں کے جوابات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ایک طرف تو فکری سطح پر انکل سام کا غلام نام نہاد دانشور طبقہ گزشتہ کئی
عشروں سے اہل پاکستان کو اس نفسیاتی شکست سے دو چار کرنے کی کاوشیں کر رہا
ہے کہ پاکستان ایک انتہائی کمزور ملک ہے، پاکستان امریکہ اور دیگر جی ایٹ
اور جی ٹونٹی ممالک کے مقاصد کی تکمیل کیے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ
سکتا اور سب سے خطرناک بات جو یہ طبقہ گزشتہ پندرہ سالوں سے ”رٹو طوطے یا
را طوطے“کی طرح دھرا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت پاکستان کی نسبت
بہت بڑا ہے، بھارت کی معیشت ہم سے سو گنا زیادہ مالیت رکھتی ہے اور ہمیں
چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ بھارت ہی کی شرائط ”غلامانہ دوستی“ قبول کرتے
ہوئے برخوردرانہ رویہ اختیار کر لیں ۔ بھارت اور امریکہ نواز یہ نام نہاد
دانشور طبقہ کروڑ وں پاکستانیوں کو ذہنی شکست خوردگی سے دو چار کرنے کی
بھرپور کوشش کر رہا ہے ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جب دنیا روس اور امریکہ کا
ایک وسیع و عریض میدان جنگ بنی ہوئی تو اس دور میں اس نام نہاد طبقے کے بھی
دو حصے تھے ایک حصہ خود کو ترقی پسند مزدور دوست دھڑا کہتا تھا اور دوسرا
طبقہ اول الذکر کو خدا سے انکاری کافر کہہ کر سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت
کرتا تھا یہ دونوں طبقات رہتے تو پاکستان میں تھے لیکن ان کی پرورش ان کے
آقا کیا کرتے تھے جو ظاہری بات ہے روس اور امریکہ تھے۔ امریکہ نے افغانستان
پر روسی یلغار کے بعد امیرالمومنین جنرل ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کے
لیے اپنی تجوریوں اور اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں کے دروازے کھول دیئے اور
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹرز کی کتابوں میں وہ تمام واقعات تحریر ہیں کہ کس
طریقے سے مجاہدین کے لشکر تیار کیے گئے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو کس
طریقے سے استعمال کیا گیا اور آخر میں جا کر افغانستان میں موجود وارلارڈز
کو منہ مانگی قیمتوں پر خریدتے ہوئے افغانیوں کو دنیا کے خطرناک ترین اسلحے
سے لیس کرنے کے بعد دنیا بھر کے اشتراکیوں کے والد محترم روس کو پچھاڑنے کا
تمام بندوبست کیا گیا۔بائے پولر ورلڈ جو پہلے پھر بھی دنیا کے تمام مظلوم
اور ترقی پذیر ممالک کے لیے گوارا تھی روس کے حصے بخرے ہونے کے بعد یونی
پولر بن گئی اور انکل سام یعنی امریکہ دجال بن کر پوری دنیا میں دندنانے
لگے اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق تیل، گیس، معدنیات اور دنیا بھر کی
دولت کی ہوس میں مبتلا چچا سام دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زائد انسانوں کا
قتل عام براہ راست جنگوں کے ذریعے کر چکے ہیں جبکہ باالواسطہ طور پر موت کے
گھاٹ اترنے والے مظلوم انسانوں کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کر چکی ہے اس سب
بحث کا مقصد کیا ہے آئیے اس کی طرف چلتے ہیں عالمی منظر نامے پر آخر
پاکستان کی حیثیت کیا ہے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے جواں مرد وں کے
ممالک کی صف میں مملکت پاکستان کیا حیثیت رکھتی ہے ، رنگ رنگیلے خوش حال
چوہدریوں کی بیٹھک میں کسی گاﺅں کے مقروض ہاری جیسا پاکستان آخر کیا حیثیت
رکھتا ہے؟ اگر ہم نام نہاددانشور طبقے کی باتوں کو تسلیم کر لیں کہ پاکستان
ایک وقعت، بے معنی اور بے حیثیت ریاست ہے تو آخر کیوں امریکہ ،
یورپ،اسرائیل اور بھارت سمیت تمام عالمی قوتیں یک زبان ہو کر بقول ترقی
پسند ذہنی غلاموں کے اس ”بے حیثیت ریاست “ کی مل کر مخالفت کر رہے ہیں
کیونکہ یہ ایک ظاہری بات ہے کہ اسی فرد یا ملک کی افراد یا ممالک مل کر
مخالفت کرتے ہیں جسے وہ اپنے سے طاقت ور سمجھتے ہوئے اپنے اقتدار کا دشمن
گردانتے ہیں تو اس مخالفت اور اتحادی قوتوں کا مل کر پاکستان کے خلاف
سازشیں کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ مملکت کوئی معمولی ریاست نہیں ہے ویسے
تو اپنے ایمان کی روشنی میں ہم برملا طور پر اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ
پاکستان دنیا کا وہ واحد عظیم اسلامی ملک ہے کہ جس کی بنیادوں میں 27رمضان
المبارک کی شب لاکھوں مسلمانان برصغیر اپنے خون کے ذریعے قربانی کی انمٹ
داستان رقم کی تھی اور لاکھوں عصمتیں کلمے کی بنیاد پر بننے والے اس ملک پر
قربان ہو گئی تھیں۔ یہ قربانیاں اس نوعیت کی ہیں کہ ہمیں شرم آئے یا نہ آئے
اللہ رب العزت کو ضرور لاج آتی ہے اور آج تک ہماری قومی قیادت کی غداریوں
کے باوجود اگر یہ سلطنت قائم و دائم ہے تو اس کی وجہ اللہ پاک کا خصوصی کرم
اور ان شہداءکے خون کی برکت ہے ہم جھوٹے ہیں لیکن وہ شہید سچے تھے اور اپنے
ایمان کی روشنی میں ہم یہ پیش گوئی بھی کرتے ہیں کہ وہ وقت بہت قریب ہے کہ
جب پاکستان پوری دنیا کی قیادت کرے گا انشاءاللہ۔
قارئین اس وقت انکل سام ، اسرائیل بھارت اور دنیا بھر کی استعماری قوتیں
اپنے اپنے مفادات کی جنگ سرزمین پاکستان پر لڑ رہی ہیں پاکستان کو ایک سازش
کے تحت ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“کے ایک جھوٹے سلوگن کے ذریعے قبائلی
علاقہ جات میں ایک بے مقصد جنگ میں الجھا کر دلدل میں اتارنے کی کوشش کی
گئی ہے۔ اس کی وجہ پر تھوڑا سا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس افغانستان کو
امریکہ نے خود اسلحے سے لیس کر کے روس کو توڑا تھا آج وہی افغانستان امریکہ
کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنی بچی کھچی عزت بچانے ہوئے خطے سے
نکلنے کی کوششیں کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد جن میں سے سب سے
بڑا مقصد واحد اسلامی جوہری ملک پاکستان کو کمزور کرنا ہے حاصل کرنے کی
کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ
سرزمین پاکستان پر بلیک واٹر، سی آئی اے ،موساد، را،خاد،کے جی بی اور دیگر
سیکرٹ سروسز کے ہزاروں ایجنٹس دندناتے پھر رہے ہیں۔ عساکر پاکستان، آئی ایس
آئی اور دیگر محب وطن قوتیں مل جل کر پاکستان دشمن ان تمام سازشوں کا
مقابلہ کر رہی ہیں۔
قارئین ہم آپ سے محسن پاکستان فخر امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی چند
باتیں شیئر کریں گے۔ ہم نے ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین
پروگرام”لائیو ٹاک ود جنید انصاری“میں استاد محترم راجہ حبیب اللہ خان کے
ہمراہ جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا اس
انٹرویو میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے محسن
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی در ددل سے راقم اور ہمارے راہبر راجہ حبیب
اللہ خان کے درجنوں سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے بتایا تھا کہ آج بھی اگر
ملک کو ان کی ضرورت پڑتی ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں مختلف
چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے انہیں میدان عمل میں آنے کی دعوت دی جاتی
ہے تو وہ انتہائی خلوص سے بلامعاوضہ اس عظیم مملکت کے لیے کام کرنے کے لیے
تیار ہیں۔ توانائی کا بحران دور کرنے کے لیے یا مختلف سائنسی ایجادات کرنے
کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ ان کے پاس پوری ٹیم موجود ہے جو
بغیر کسی لالچ اور معاوضے کے پاکستان کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ جنید بھائی ہمارے ساتھ
وہ سلوک مت کیجئے گا جو پہلے میرے ساتھ کیا گیا ہمارے ساتھ دھوکہ مت کیجئے
گا۔ ان کی اس بات میں اتنا درد اور سچائی تھی کہ الفاظ کی سواری پر دنیا
بھر کی داستانیں بیان کرنے والے ہم دونوں ساتھی گونگے ہو گئے۔ راقم اور
استاد محترم راجہ حبیب اللہ خان نے محسن پاکستان سے سوالات کا سلسلہ جاری
رکھا تو علامہ اقبال ؒ کے شاہین ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی باتوں میں باوجود
شدید بیماری کے عزم، حوصلہ اور امید کی روشنی واضح طور پر دکھائی دے رہی
تھی ہم نے ان سے استدعا کی کہ وہ دنیا بھر میں پروگرام سننے والے کشمیریوں
اور پاکستانیوں کو کوئی پیغام دیں تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے
یہ سنہری پیغام دیا کہ انتخابات کے موقع پر ہر پاکستانی اپنا انتہائی قیمتی
ووٹ سوچ سمجھ کر استعمال کرے یہ ووٹ تو ایک دن ڈالا جائے گا لیکن غلط
فیصلوں کا نتیجہ پوری پاکستانی قوم پانچ سال بھگتے گی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کا یہ بھی کہنا تھا کہ عسکری میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ناقابل
تسخیر ہو چکا ہے لیکن معاشی میدان میں پاکستان کو شکست دینے کی سازشیں جاری
ہیں اور اگر غلط انتخاب کے نتیجے میں کوئی ایمان فروش کسی فیصلہ ساز جگہ پر
پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کی آن و شان ایٹمی پروگرام کو بھی
نیوٹرالائز کیا جا سکتا ہے۔ بقول اقبال ؒ ہم کہتے چلیں
تو ابھی رہگذر میں ہے قید مقام سے گزر!
مصرو حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر!
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حورو خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر!
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلندبال دانہ و دام سے گزر!
کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گرز!
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر!
قارئین محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایمان افروز گفتگو سے راقم اور
استاد محترم راجہ حبیب اللہ خان نے چند نتائج اخذ کیے پہلی بات تو یہ کہ
”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ نامی درجنوں ممالک کا افغانستان میں لگایا
جانے والا خونی میلہ در اصل امت مسلمہ کی قیادت کی اہلیت رکھنے والے ایٹمی
پاکستان کی جوہری قوت چوری کرنے کا ایک ڈرامہ اور سازش ہے، دوسری بات یہ کہ
قیام پاکستان سے لے کر اب تک تمام عالمی قوتیں مل جل کر پاکستان کو تباہ
کرنا چاہتی ہیں اس مقصد کے حصول کے لیے کہیں پر تو پاکستان کے سیاستدانوں
کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا اور کہیں پر انقلاب کا جھانسہ دے کر
فوجی جرنیلوں کو اقتدار میں آنے کی دعوت دی گئی اور تیسری بات جو سب سے اہم
ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ایسے نام نہاد دانشور طبقے کو امریکہ اور دیگر
انسانی خون پر پلنے والی جونکیں فنڈنگ فراہم کر رہی ہیں جو اہل پاکستان کے
سواداعظم کو فکری سرحد پر شکست خوردگی سے دوچار کرنے کے لیے عجیب و غریب
نظریات پھیلا رہے ہیں ان سب قوتوں کا نشانہ اس وقت عساکر پاکستان اور ہمارے
ملک کی آن و شان آئی ایس آئی اور دیگر قومی سلامتی کے ادارے ہیں۔ پوری قوم
کو چاہیے کہ 2013کے انتخابات میں اس قیادت کو سامنے لائے جو اس عظیم ریاست
کی فکری اساس کے مطابق لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں بننے والی
مملکت کو اس کے اصل راستے پر لے جا سکے۔
آخر میں خلاف روایت ایک سچا تاریخی واقعہ آپ کی نذر ہے
ایک اجلاس میں سامعین پرامید تھے کہ علامہ اقبالؒ کوئی فصیح و بلیغ تقریر
کریں گے لیکن علامہ اقبالؒ نے صرف چند منٹ تقریر کی اور یہ لطیفہ سنا کر
بیٹھ گئے
”جنگ عظیم کے ایام میں ابلیس کے چند مرید اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ
فارغ بیٹھاہوا سگار پی رہا ہے جب اس سے اس بیکاری کا سبب دریافت کیا گیا تو
اس نے جواب دیا۔
آج کل میں فارغ ہوں اس لیے کہ میں نے اپنا سارا کام برطانوی وزارت کے سپرد
کر رکھا ہے“
قارئین ہمیں یوں لگتا ہے کہ آج کل ایک مرتبہ پھر ابلیس بیکار بیٹھ کر سگار
پی رہا ہے اور اس نے اپنا تمام کام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سپرد کر
دیا ہے۔ |