بی جے پی کی جانب نریندر مودی کو
وزیر اعظم چنے جانے پر ہندوستان کی عوام کو گھرا صدمہ پہونچا ہے ۔لوگ سبھا
الیکشن ابھی دور ہیں لیکن اس کی تیاری زور و شور سے کرنے کے مقصد سے آناََ
فانناََ میں اس کا انجام دیا گیا ۔ہمیں دکھ ہے اس بات کا کہ اب دنگائیوں پو
وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ سیکولرزم کا معنی بدل دیا ہے بی جے پی نے۔ مندور
مسجد کے مددے کو نشانا بنا کر بی جے پی کو لوگ سبھا الیکشن جیتنا ہے۔ عوام
چاہے تو دنگائیوں اور بلوائیوں کا بائکاٹ کرکے پاک و پاکیزہ وزیر اعظم بنا
سکتی ہے جس سے ملک ترقی کرے گا۔ ۔۔۔۔۔
تعارف
نریندر مودی 17 ستمبر 1950 ءکو پیدا ہوئے۔ان کا پورا نام نریندر دامودر داس
مودی ہے۔نریندر مودی مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کا نام : مول
چند دامودر داس مودی ہے اور والدہ کا نام : ہیرا بےن تھا ۔نریندر موتی چھ
بھائی بہن میں تیسرے نمبر کے تھے ۔نریندر مودی نے گریجویشن تک تعلیم حاصل
کی۔یہ میں بچپن سے ہی ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ تھا ۔نریندر مودی نے بچپن
میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر چائے کی دُکان کھولی ۔محنتی مزاج ہونے کے
سبب آپ کی چائے کی دُکان خوب چلی اور آپ نے بہت زیادہ ترقی کی۔
کالج کے زمانے میں نریندر مودی آر۔ ایس۔ ایس کے پرچارک رہے اور پھر شنکر
سنگھ واگھےلا کے ساتھ مل کر گجرات میں اپنی یونین کو مضبوط کرنے کا کام
انجام دینے لگے۔ واگھےلا اس وقت گجرات کے بڑے رہنما مانے جاتے تھے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے نریندر مودی کی صلاحیتوں کو
پہچانا اور گجرات کے ساتھ ساتھ ہماچل پردیش کا بھی کام ان کے کندھوں پر ڈال
دیا ۔اور انھوں نے بہت ہی محنت و لگن سے اس کام کو بخوبی انجام دیا۔
ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟
2001 ءسے لگاتار گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے والے نریندر مودی میں آج
ہندوستان کے ہندﺅںکی عوام اپنا مستقبل تلاش رہی ہے۔ ہندوستان کی عوام کو
گزشتہ چند برسوں میں اتنا لوٹا گیا ہے کہ انگریزوں کو اپنے آپ سے شرمندگی
محسوس ہو رہی ہوگی۔ آج ہندوستان کے سیاست داں یہاں کا کالا دھن باہر کے
ملکوں میں چھپا آئے ہیں۔ لیکن واپس لانے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ہندوستان
کی بدقسمتی ہے کہ کوئی وزیر آعظم عوام کی پریشانیوں کو دور نہیں کر پا رہا
ہے۔اس ملک کو بہت سے وزیر آعظم ملے۔ان میں سے کچھ اس ملک کو اپنی جائداد
سمجھ کرغربت اور غریبی دور کرنے کے نام پر اپنا بینک بیلنس بھر رہے ہیں۔
صحیح اور غلط وزیر آعظم کا پتہ لگانے کے لئے ہمیں ماضی کی تاریخوں کو پوری
ایمانداری سے پڑھنا اور سمجھنا ہوگا، اور پھر فیصلا کرنا ہوگا۔ جبکہ حال
میں جو ہو رہا ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں ۔محترم جناب منموہن سنگھ ہندوستان کے
وزیر آعظم ہونے کے باوجود اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے ہیں یعنی ”ڈاکٹر
منموہن سنگھ کو بلی کا بکرا بنائے ہوئے ہیں“ وزیر آعظم کی کرسی سونپ دی گئی
ہے ۔ لیکن اس میں قصور ہمارا بھی ہے کیونکہ ہم یعنی عوام ان کی چالو سے نظر
انداز ہیں اور لگاتار انہیں ووٹ دیتے آئے ہیں ۔
اب بات کرت ہیں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی تو ہمیں یہ لگتا ہے کہ
ہندوستان سے غریبی کم ہو جائے ، روزگار کے لئے ہر شعبہ میں نوکری مل جائے
گی، مہنگائی ختم ہو جائےگی، خرید و فروخت پر ٹیکس نہیں لگے گا۔ ٹرین
،بس،ہوائی جہاز کا کرایا کم ہو جائے گا، اسکول کالج کی فیس سستی ہو جائیں
گی ، تنخواہیں بڑھ جائیں گی،بدعنوانی ختم ہو جائے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔یہ
ہمارا حسیں خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔یہ ہماری کم عقلی ہے جو الیکشن
کے وقت سہی فیصلہ کرنے سے قاثر رہتے ہیں ۔جس کا انجام ہمیں ہی بھگتنا پڑتا
ہے۔جبکہ ملک جس سیاست سے چل رہا ہے ویسے ہی چلے گا۔چاہے وزیر آعظم کوئی بھی
ہو۔عوام کے نصیب میں سنہرے پلوں کے خواب سجائے جاتے ہیں۔جو کہ یہ حقیقت سے
پرے ہیں۔ اب با کرتے ہیں نریندر مودی کی تو ہو سکتا ہے مذہب و ملت کے جوش
میں آکر وہ الیکشن جیت جائے اور بی جے پی انھیں وزیر آعظم بنا بھی دے ۔تو
نریندر مودی جی جگہ جگہ مسجدیں توڑ کر مندر تعمیر کروائے گے۔ گجرات میں
مسلمانوں کی نسل کشی کریں گے۔بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو ہندوستان سے کھدیڑ
دیں گے اور جو بچ جائیں گے انھیں ہلاک کر دیا جائے گا۔میری ناقص عقل ایسا
سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ لیکن عوام کی پریشانی جیوں کی تیوں بنی رہے
گی۔مہنگائی، بدعنوانی، پٹرول وڈیزل کی قیمت میں اضافہ ،سب کچھ ویسا ہی رہے
گا۔ برائے مہربانی ہندوستان کے مختلف مذہب کی عوام دھرم کے نام پر ٹکڑوں
میں تقسیم نہ ہوئیے۔ اللہ ،بھگوان، عیسیٰ مسیح سب کا گھر ایک ہے۔ہم سب کا
مالک ایک ہے۔مندر میں پوجا کرے یا مسجد میں عبادت کرے،گرودوارے میں دعا کرے
سب کی منّتِ دعائیں صرف ایک ہی مالک کے دربار میں پہونچے گی جسے ہم مختلف
مذاہب کی عبادت گاہوں سے کرے۔ کوئی بھی مذہب کسی بھی عبادت گاہ کو مسمار
کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا اللہ اور بھگوان خوش ہوگا۔
بی جے پی نےنریندر مودی کو گلے لگا کر اڈوانی کو کیا فراموش
1مارچ 2013 جمعہ سے مجلس عاملہ کی میٹنگ چل رہی تھی۔اس میٹنگ میں جس طرح
نریندر مودی کے کارناموں کا ذکر کیا جا رہا تھا اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو
رہی تھی کہ بی جے پی اڈوانی سے زیادہ نریندر مودی کو اہمیت دے رہی ہے ان کی
کیا منشا ہے مجھے نہیں معلوم لیکن مجلس عاملہ کی میٹنگ میں یہ بات صاف طور
سے دیکھی جا رہی تھی کہ سب کی مرضی یہی ہے کہ اگلا وزیر اعظم نریندر مودی
کو ہی ہونا چاہیے۔ ان میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو ایک وزیر اعظم میں ہونا
چاہیے۔
پارٹی کے صدر یعنی راج ناتھ سنگھ کی اگر بات کی جائے تو وہ پہلے دن سے ہی
مودی کے مرید نظر آئے۔ بات بات پر گلے لگانا ،تعریفوں کے پُل باندھنا میڈیا
کی مہربانی سے سارے ملک کی عوام نے ضرور دیکھا ہوگا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ
مسلسل بڑھتا ہی جا رہاتھا۔ قومی کونسل کے اجلاس میں مودی چھائے رہیں۔ راج
ناتھ سنگھ نے جس جوشیلے انداز سے ا سٹیج پر مودی کو مالا پہناکر گلے لگایا۔
وہ اپنے میں ایک یاد گار لمحہ تھا جسے سب نے دیکھا ۔
اس اجلاس میں ملک کے تقریباََ2200 کارکنوں نے حصہ لیا۔زیادہ تر لیڈرنریندر
مودی کے حق میں ووٹ کرتے نظر آئے۔ یہ ہندوستان کی گہری سیاست ہے جس کسی
نیتا کا سلیکشن کرنا ہوتا ہے اس کے فیور میں ووٹ کرنے کا درس پہلے ہی دے
دیا جاتا ہے پارٹی ممبران کو۔اجلاس کے مدد نظر سب پر یہ بات عیاں ہو گئی
تھی نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے پر بی جے پی پوری طرح سے تیار ہے۔جبکہ
کئی سینئر کارکنوں نے مودی کے حق میں نعرے بھی لگا ڈالے۔
دوست کون
راج ناتھ سنگھ نریندر مودی
کی تعریفوں کی مالا جپتے ہوئے نظر آئے اور جوش میں یہ بھی بتا گئے کہ یہ بی
جے پی کے پہلے ایسے لیڈر ہیں جو کہ عوام کے دلوں پر راج کرتے اکثریت سے
وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب رہیں۔ جبکہ کانگریس جیسی بڑی پارٹی نے مودی کو
ہرانے میں اپنی ساری طاقت لگا ڈالی تھی۔ باوجود اس کے مودی نے جیت کی تاریخ
رقم کی۔
سابق مرکزی وزیر سی پی ٹھاکر نریندر مودی
کی تعریفوں کا بکھان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دہائی کے اندر گجرات کی
حکومت کے مدد نظر اس نے اتنی ترقی کی ہے کہ یہاں کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ اس
ریاست نے ترقی اور حکومت کے نئے معیار بنا دیے ہیں سچائی تو یہ ہے کہ گجرات
کی ترقی پورے ملک کے لئے ایک مثالی نمونہ بن گئی ہے۔
اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشیاری
نے مودی مہم کو جاری رکھتے ہوئے ان کے حق میں ووٹ دیا۔ بی جے پی کی سیاست
کو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے کافی فائدہ ہوگا ۔
سینئر لیڈر ارون جیٹلی
پھر تعریفوں کے اس دور میں کیوں پیچھے رہتے انھوں نے بھی کھل کر مودی کی
تعریف کرنا شروع کی۔ جبکہ مودی مہم کو لے کر ان کا رویہ سوالوں کے گھیرے
میں ضرور لا کر آ کھڑا کر چکا ہے۔
” جیٹلی نے ایک میڈیا انٹرویو میں واضح طور پر قبول کیا ہے کہ وزیر اعظم کے
عہدے کے لئے نریندر مودی سب سے مضبوط دکھائی پڑرہے ہیں۔ جیٹلی کے اس بیان
نے بی جے پی کے خیمے میں کہرام مچا دیا۔
لوک سبھا کی اپوزیشن لیڈر سشما سوراج
نے مودی مہم میں کچھ نہیں کہا ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سشماسوراج وزیر اعلیٰ
کی امیدواری کی دوڑ میں شمار کی جا رہی تھی لیکن پارٹی کے لیڈران کے مطابق
نریندر مودی سب کو ہتاش کرتے ہوئے پہلے پائدان پر پہونچ چکے ہیں۔
دشمن کون؟
کیشو بھائی پٹیل اور نریندر مودی کے دشمن کیوں ہیں
گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل اور نریندر مودی کی دشمنی کے
چرچے عام ہو چکے ہیں۔ میڈیا کے بات مانیں تو کیشو بھائی پٹیل ہر وہ کوشش
کرنا چاہتے ہیں جس سے کہ وہ گجرات کے اقتدار کو پھر سے حاصل کر پانے میں
کامیاب ہوں۔جبکہ اگر ماضی کی بات کی جائے تو ایک زمانے میں نریندر مودی اور
کیشو بھائی پٹیل کے قریبی دوست مانے جاتے تھے کیشو بھائی پٹیل ہمیشہ سے
کہتے آئے ہیں کہ نریندر مودی کے پاس پیسہ ہے اور میرے پاس عوام ہے۔
سنجے جوشی اور نریندر مودی کے بیچ ٹکراﺅ کیوں ہوا؟
ایک زمانے میں نریندر مودی اور سنجے جوشی دونوں دوست تھے۔اب سے پہلے نریندر
مودی گجرات میںبی جے پی کی تنظیم کے جنرل سکریٹری بنے اور اس کے بعد سنجے
جوشیجنرل سکریٹری بنائے گئے۔ نریندر مودی کے دشمن کے طور پر وہ زیادہ وقت
تک ان کے سامنے نہیں ٹکپسکیں۔ سنجے جوشی مودی کی ضد اور سخت رویہ کی وجہ سے
پارٹی سے نکال پھینکے گئے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مودی اس وقت سے جوشی سے
ناراض ہیں جب کیشو بھائی پٹیل بی جے پی میں رہتے ہوئے مودی سے لڑ رہے تھے
اور جوشی پٹیل کی حمایت میں کھڑے تھے۔
شنکرسنگھ واگھےلامیں کیا ہوا تھا؟
مودی کی طرح گجرات میںبی جے پی کے ایک طاقتور لیڈر رہیں جبکہ ان دنوں
واگھےلا کانگریس کے لیئے کام کرتے دیکھے جا سکتےہیں کیشو بھائی پٹیل
کےاقتدار کے وقت میں نریندر مودی کے بڑھتے اثرات کے سبب واگھےلا نے بغاوت
کر دی تھی جس کی وجہ سے سنجے جوشی کو مودی کی جگہ ریاست کی بی جے پی کی
تنظیم کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔نریندر مودی اور واگھےلا کی دشمنی اس وقت
سے چلی آ رہی ہے۔
ہرےن پانڈیاکی حقیقت کیا ہے؟
گجرات کے سابق وزیر داخلہ کے عہدے پر ہرین پانڈیا کام کر چکے ہیں۔ ایک
زمانے میں وہ نریندر مودی کے انتہائی قریبی دوست شمار کئے جاتے تھے۔ نریندر
مودی کی مدد کی وجہ سے ہی ہرین پانڈیا کو پہلا اسمبلی کا ٹکٹ ملا تھا۔ بعد
میں پانڈیاکیشو بھائی پٹیل اور سنجے جوشی کے آپس میں ایک دوسرے کے حامی ہو
گئے تھے اور نریندرمودی کے سیاسی دشمن۔
ہندوستان کا چمکتا ہوا ستارہ ہیں: نریندر مودی
ہندوستان کو نریندر مودی کے طور پر ایک قابل، ایماندار اور تیزترارلیڈر مل
گیاہے۔ جو ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو نست و نعبود کر دے گا۔صحیح کہوں
تو ایک شیر آنے کو ہے ۔
نریندر مودی کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ گودھرا سانحہ کے ملزم
ہیں۔یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں ۔بلکہ حقیقت یہی ہے اگر وزیر اعلیٰ چاہتے تھے
تو اتنا بڑا حادثہ گجرات میں نہ ہوا ہوتا ۔جبکہ میڈیا نیوز چینل پر پل پل
کی خبر سب کو مل رہی تھی ۔پولیس اور دنگائیوں کو حکومت کی جانب سے کھلی
چھوٹ تھی۔ ذکیہ جعفری کے گھر خوفناک موت کا تانڈو ہوا جس کی چشمدید ذکیہ
جعفری ابھی زندہ ہے جن کے شوہر کو بڑی بے دردی سے مار دیا گیا ۔انصاف کی
گہار کرنے والی محترمہ جعفری کو انصاف نہیں مل پا رہا ہے کبھی ایس آئی ٹی
رپورٹ کے پیج غائب کئے جاتے ہیں تو کبھی بے حودا سوالوں کے گھیرے میں جکڑا
جاتا ہے ۔ یہ سب صرف اس لئے کیا گیا تاکہ گجرات سے مسلمانوں کا نام و نشان
مٹایا جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت رونے والے صرف ایک فرقے سے تعلق
رکھتے ہیں۔ ”وہ صرف مسلمان ہیں“
اب آئیے ذرا گودھرا کے بارے میں تفصیل سے بات کر لیتے ہیں۔ گودھرا کے
اسٹیشن پر ٹرین میں آگ کس نے لگائیں اور کیوں لگائیں؟
کیا مسلمان ہونا جرم تھا ۔ شری رام کے مندر کی تعمیر کا حصہ بننے والے
وہشیانہ حرکت کیوں کر بیٹھے ؟ یہ ان کا قصور تھا؟ کیا مسلمانو ں کو
ہندوستان جیسے ملک میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے؟کبھی مسجد کو قبصہ کیا جاتا
ہے اور کار سیوک کو بھاری تعداد میں لے جاکر مسجد کو مسمار کیا جاتا ہے۔ اب
اگر تکلیف ہو تو رونے کا بھی حق نہیں۔کیونکہ اکثریت میں مسلمان ہندوﺅں سے
کم ہے ۔ ان کا قصور کیاتھا؟ کیا ان کو مارنا، ٹرین کو جلانا کس فرقے کی
پلانگ تھی؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پلانگ کے تحت مسلمانوں کو گجرات سے ختم
کرنے کا تعین تھا ۔اسی وجہ سے کارسیوکوں نے چائے کی اسٹال پر بزرگ انسان کے
ساتھ طوفان بدتمیزی کی ،جس میں اسکی لڑکی کوطوفان بدتمیزی کا ذریعہ بنایا
اسے جبراََ ٹرین میں گھسیٹا ۔سچ کہوں تو کیا اتنے بڑے ریلوے اسٹیشن پر
پولیس سو رہی تھی۔ آخر کیوں ؟لفظ بدل کر کہوں تو پولیس نے کارسیوکوں کو
کھلی چھوٹ دے رکھی تھی ۔مسلم محلے میں گھروں میںگھُس کر بدتمیزی لوٹ پاٹ حد
یہ ہے کہ ہر گھناﺅنا جرم کیا جا رہا تھا کیونکہ جناب محترم نریند مودی مسلم
سماج سے نفرت کرتے ہیں ۔ وہ انسانیت کے تقاضے کو بھول گئے ۔گجرات کو اپنے
باپ کی جاگیر سمجھ بیٹھے اور فساد کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی اور طاقت
بھی فراہم کی ۔کیونکہ انھیں کسی کا خوف نہیں تھا۔ یہ ہے نریندر مودی کا
اصلی چہرہ جسے ہر سیاست داں اچھی طرح جانتا ہے اب جب کہ ایک فرقہ سے تعلق
رکھنے والا پورے ملک سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی قسم کھا چکا ہے جسے عمل
میں لانے کے لئے جن سنگھ آر ایس ایس اور فسادیوں کا ساتھ ملا چکا ہے اب ذرا
سوچئے وزیر آعظم بننے کے فوراََ بعد جناب نریندر مودی جی سب سے پہلے فہرست
بنوائے گے کہ کس گلی محلے اور شہر میں مسلمانوں کے کتنے گھر ہیں پھر چُن
چُن کر مسلم نسل کشی جیسے قانون کو عمل میں لا کر ہندوستان سے مسلمانوں کو
نست و نعبود کر دیا جائے گا۔ انجام اُس وقت ساری ہندوحکومت ایک ہو جائے گی
اور جو نہیں ہوگی اسے مجبور کیا جائے گا۔
جھگڑے گھر میں ہو یا باہر ، پڑوسی سے ہو یا رشتہ دار سے، مذہب و ملت کے نام
پر ہو یا قوم پرستوں نام پر ۔ ہر جھگڑے کی اپنی وجہ ہوتی ہے،اسی طرح ہر
مسئلے کا حل بھی ہوتا ہے۔ اور آس پاس کے لوگ ماحول کو قابو کرنے کی کوشش
کرتے ہیں ۔جھگڑے کو روکنے میں آس پاس کے افراد کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے
۔لیکن اگر یہی جھگڑا مذہب و ملت کا ہو تو خواہ حکومت کسی بھی فرقے سے تعلق
رکھتی ہو اسے چاہیے کہ کٹّر وادی رویہ کو ترک کرکے دور اندیشی سے ماحول کو
قابو کرنے کی حد درجہ کوشش کرے اور اگر حکومت ایسا نہیں کرتی ہے یعنی
فسادات پر قابو نہیں پاتی ہے توسارے جھگڑے کا دارومدار اس حکومت پر خود
بخود آجاتا ہے کہ وقت رہتے فساد روکا جا سکتا تھا ۔کیونکہ وزیر اعلیٰ کے
پاس فُل پاور ہوتا ہے وہ ہی سارے محکمہ کے بڑے افسران کو حکم صادر کر سکتا
ہے یہ کیسے ممکن ہے وزیر اعلیٰ کے حکم کی بے حرمتی ہو ۔میری ناقص عقل یہ
ماننے کو قطعی تیار نہیں کہ گجرات میں 2002کے فسادات میں اگر مودی جی چاہتے
تو سخت قانون نافض کرکے حالات کو قابو میں کر لیتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔تو
اب آپ خود ہی بتائیے عوام اگر ا مودی حکومت کو فساد کا داعی مان رہی ہے تو
کیا غلط ہے۔
کیونکہ جھگڑے کو کسی بھی صورت میں جائز اور صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا۔
ہندوستان میں پہلے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں اور ان جھگڑوں پر مختلف
سیاسی پارٹیوں نے سیاست بھی کی ہے لیکن گجرات کا فساد صرف مندر اور مسجد کے
ٹکراﺅ سے شروع ہوکر آج 13سال بعد اسی جگہ آ کھڑا ہوا ہے بس فرق صرف اتناہے
کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات کی زور و شور چناﺅ پرچار کرنے کے لئے بی جے
پی کو شطرنج کی بسات پر بڑا موہرا پھینکنا تھا جس کی بنا پر عوام کا
اکثریتی ووٹ بی جے پی کو وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچا سکے ۔حقیقت جانیے بی
جے پی نے ایک تیر سے دو کمان چھوڑے ۔
۱۔ عوام کو مندر تعمیر کرنے کی لالچ دے کر ووٹ حاصل کرنا
۲۔ 2014کے پارلیمانی انتخابات پر اپنا قبضہ جمانا ۔(بی جے پی کے اس کھیل
میں کاٹھ کا پٹّو نریندر مودی بنے ہوئے جنہیں اقتدار کی لالچ ہے۔
کافی حد تک بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہی ۔الیکشن دور ہے اس کی
تیاری بھی کرنی ہے اور تواور وزیر اعظم کس کو بنایا جائے گا پارٹی نے اس کا
بھی اعلان کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے نئے وزیر اعظم کو کتنا
پسند کرتی ہے۔
جبکہ اگر فساد کی حقیقت جانے تونقصان صرف عوام کا ہوتا ہے ۔ہلاک عام ہوتا
ہے گھر بار ساز و سامان مظلوم عوام کا لٹتا ہے ۔
فسادات میں کل 1044 افراد ہلاک ہوئے۔( 790 ) مسلمان
( 254 )ہندو
(2548 )زخمی
( 223 ) لاپتہ
( 919 ) عورتیں بیوہ ہوئیں
( 606 ) بچے یتیم ہوئے
سات سال بعد لاپتہ لوگوں کو مردہ شمار کر لیا گیا اس اعتبار سے ہلاک ہونے
والوں کی تعداد 1267 ہو گئی۔
یہ اعداد و شمار سرکاری دستاویز سے لئے گئے ہیں
جرم کیسے ثابت ہو؟
گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر فسادات سے جڑے سوالوں کی تو یہاں پر
جیسا کہ ابھی تک کہا جاتا ہے فسادات کے الزام ابھی تک کسی عدالت میں ثابت
ہونا تو دور، ان پر ابھی تک کوئی FIR بھی نہیں ہوئی ہے،تو میں اس بارے میں
بس اتنا ہی کہوں گی ”جس کی ڈھپلی اس کا راج“ یعنی راون کی لنکا میں آگ کون
لگائے گا ۔وزیر اعلیٰ نریندر مودی ۔ گجرات کی باگڈور کس کے ہاتھ میں ،پولیس
کس کے لئے کام کرے گی ظاہر ہے نریندر مودی کے لئے۔ آئی اے ایس ، اور پی سی
ایس افسر کس کے حکم پر کام کریں گے۔ عدالت میں کس کی حکومت کے لوگ بیٹھے
ہونگے۔ ظاہر ہے ہر جگہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کا حکم نافذ ہوگا ۔
اب آپ خود بتائیے نریندر مودی کوگھیرنے کے لئے ان پر جرم ثابت کرنے کے کون
سا محکمہ کام کرے گا کیسے ان کو مجرم ثابت کیا جائے گا۔کون سی کوششیں پر
کام کیا جا ئے گا۔
ذکیہ جعفری کی مدد کے لئے کتنے ہی . NGO آ جائے کتنی ہی ایس آئی ٹی رپورٹ
تیار کی جائے سی بی کی مدد سے کتنے گھنٹے ان سے پوچھ گچھ کی جائے لیکن
نتیجہ صفر نکلے گا ۔کیونکہ محترم نریندر جی تخت نشین ہیں۔لگاتار تیسری بار
بھی وہ وزیر اعلیٰ بنے کیونکہ مسلمانوں کو گجرات سے ختم کرنے کے نام پر
ہندﺅں سے ووٹ مانگتے آ رہے ہیں۔
مرکز کی جانب سے تمام ایس آئی ٹی اور سی بی آئی اور گجرات کے تمام معاملات
کی سپریم کورٹ کی طرف سے خود نگرانی یہ عام مسلمان کی سمجھ سے پرے ہیں۔ چور
کے گھر کیسے چوری ہو سکتی ہے ۔لفظون کو بدل کر کہوں کہ چور اور پولیس کا
کھیل کھیلنے والے اور سزا دینے والے ایک ہی چہرے ہیں ۔
ختم شد |