حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں
ایک انصاری عورت میرے پاس آئی اس نے حضور ﷺ کا بستر مبارک دیکھا کہ ایک
چادر ہے جسے دوہرا کر کے بچھایا ہوا ہے (پھر وہ چلی گئی) اور اس نے میرے
پاس ایک بستر بھیجا جس کے اندر اون بھری ہوئی تھی۔ جب آپﷺ میرے پاس تشریف
لائے تو اسے دیکھ کر فرمایا اے عائشہؓ !یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ
!فلاں انصاری عورت میرے پاس آئی تھی اس نے آپؐ کا بستر دیکھا۔ پھر اس نے
واپس جا کر میرے پاس یہ بستر بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا اے عائشہؓؓ ! یہ واپس
کر دو۔ اﷲ کی قسم! اگر میں چاہتا تو اﷲ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے
پہاڑ چلا دیتا۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اون کا کپڑا پہنا اور پیوند والا جوتا
استعمال فرمایا اور کھر درے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور بشع کھانا کھایا۔ حضرت
حسنؒ سے پوچھا گیا کہ بشع کھانا کون سا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موٹے
پسے ہوئے جو جنہیں حضور ﷺ پانی کے گھونٹ کے ذریعہ ہی نگلا کرتے تھے۔ حضرت
اُم یمن ؓ فرماتی ہیں میں نے آٹا چھان کر حضور ﷺ کے لیے ایک چپاتی پکائی
اور (حضور ؐ کی خدمت میں پیش کی) حضور ؐ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ
کھانے کی ایک قسم ہے جسے ہم اپنے علاقہ( حبشہ) میں پکایا کرتے ہیں تو میرا
دل چاہا کہ میں اس میں سے آپؐ کے لیے ایک چپاتی بناؤں۔ حضور ﷺ نے فرمایا
نہیں چھان بورے کو اسی آٹے میں واپس ملا کر گوندھو (اور پھر اس سے میرے لیے
روٹی پکاؤ۔)
حضرت ابو رافعؓ کی بیوی حضرت سلمی ؓ فرماتی ہیں حضرت حسن بن علیؓ، حضرت
عبداﷲ بن جعفرؓ اور حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ
ہمارے لیے وہ کھانا تیار کریں جو حضور ﷺ کو پسند تھا۔ میں نے کہا اے میرے
بیٹو! میں پکاتو دوں گی لیکن آج تمہیں وہ کھانا اچھانہیں لگے گا(خیر تم
لوگوں کا اصرار ہے تو میں پکا دیتی ہوں)۔ چنانچہ میں اٹھی اور جو لے کر
انہیں پیسا اور پھونک مار کر موٹی موٹی بھوسی اڑ ا دی پھر اس سے ایک روٹی
تیار کی پھر اس روٹی پر تیل لگایا اور اس پر کالی مرچ چھڑکی پھر اسے ان کے
سامنے رکھا اور میں نے کہا حضور ﷺ کو یہ کھانا پسند تھا۔
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ ہم لوگ حضور ﷺ کے ساتھ باہر نکلے۔ آپ
انصار کے ایک باغ میں تشریف لے گئے اور زمین میں کھجوریں چن کر نوش فرمانے
لگے اور مجھ سے فرمایا اے ابن عمرؓ! کیا ہواتم نہیں کھاتے؟ میں نے کہا یا
رسول ﷺ ! ان کھجوروں کے کھانے کو میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ حضور ؐ نے
فرمایا لیکن میرا دل تو چاہ رہا ہے اور یہ چوتھی صبح ہے جو میں نے کچھ نہیں
کھایا۔ اگر میں چاہتا تو میں اپنے رب سے دعا کرتا تو وہ مجھے کسریٰ اور
قیصر جیساملک دے دیتا۔ اے ابن عمر ؓ ! تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب تم
لوگ ایسے رہ جاؤ گے جو ایک سال کی روزی زخیرہ کر کے رکھیں گے اور یقین
کمزور ہو جائے گا۔ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں اﷲ کی قسم! ہم ابھی وہاں ہی تھے
کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
ترجمہ اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے۔ اﷲ ہی ان
کو (مقدر ) روزی پہنچاتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ
جانتا ہے۔
پھر آپﷺ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے مجھے نہ تو دنیا جمع کرنے کا اور نہ
خواہشات کے پیچھے چلنے کا حکم دیا۔ لہذا جو آدمی اس ارادے سے دنیا جمع کرتا
ہے کہ بقیہ زندگی میں کام آئے گی توا سے سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی تو اﷲ کے
ہاتھ میں ہے (نہ معلوم کتنے دن باقی ہیں) غور سے سنو! میں دینارودرہم بھی
جمع نہیں کرتا اور نہ کل کے لیے کچھ بچا کر رکھتا ہوں۔
قارئین آج کا کالم چند ایسی چیزوں کی طرف نشاندہی کرے گا جو ہمارے معاشرے
میں پائی جاتی ہیں اور جن کی طرف سے ہم دھیان دیئے بغیر لاپروائی سے گزر
جاتے ہیں اگر تھوڑی سی اصلاح کر لی جائے تو یقین جانیے نہ صرف معاشرتی سطح
پر کافی ساری معاملات بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ ملکی معیشت پر انتہائی مثبت
اور گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہوم اکنامکس نام کا ایک شعبہ آزاد کشمیر
اور پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں موجود ہے ۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ اور
دنیابھر کے ترقی یافتہ ممالک میں فوڈ انڈسٹری اس وقت دنیا کی دوسری بڑی
صنعت ہے لیکن ہمارا پیارا ملک پاکستان جہاں گزشتہ پانچ سال ’’روٹی،کپڑا اور
مکان‘‘ کے نام پر ایک عوامی حکومت برسر اقتدار رہی اس کی برکتوں اور
فضیلتوں کا عالم یہ رہا کہ 2008میں جو آٹا 12روپے فی کلو تھا آج 40روپے فی
کلو سے تجاوز کر چکا ہے اور روٹی کے لیے لوگ قتل و غارت گری،خود کش دھماکو
، چوریوں اور ڈاکوں کے ذریعے پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حضرت
عمرؓ کے دور حکومت میں جب ایک چور کو عدالت میں لایا گیا تو پتہ چلا کہ
بھوک کی وجہ سے اس نے چوری کی اور اس علاقے میں قحط جیسی صورت حال تھی تو
حضرت عمر ؓ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ اس چور کا ہاتھ کاٹنے کی
بجائے اس کو روٹی دو ۔ آج آزاد کشمیر اور پاکستان میں بلامبالغہ بھوک اور
قحط کی وہی کیفیت ہے کہ 80%سے زائد عوام کی اکثریت کچن کے اخراجات پورے
کرنے سے قاصر ہے اور عوامی جماعتوں سے لے کر مذہبی تنظیموں تک کوئی بھی
حضرت عمر ؓ کا سچا پیرو کار دکھائی نہیں دیتا۔ روس کے بارے میں تاریخ میں
یہ بات رقم ہے کہ ملک میں قحط کی وجہ سے لاکھوں لوگ جب سڑکوں پر نکل آئے تو
روسی ملکہ نے اپنے مشیروں سے پوچھا کہ روس کی عوام احتجاج کیوں کر رہی ہے
تو مشیر وں نے جواب دیا کہ یہ لوگ بھوکے ہیں انہیں روٹی نہیں ملتی تو ملکہ
روس نے حیرانگی سے پوچھا ’’اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ ڈبل روٹی
کیوں نہیں کھاتے‘‘ بعدازاں اسی روس کے شاہی خاندان کے ایک ایک فرد کو چھوٹے
چھوٹے بچوں سمیت زبح کر دیا گیا۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو
وقت کے فرعونوں اور اﷲ کے نافرمانوں کا انجام بتاتی ہیں اﷲ ہمارے حال پر
رحم فرمائے آمین۔
قارئین آزاد کشمیر میں میرپو ر میں ’’کالج آف ہوم اکنامکس اینڈ فائن آرٹس
‘‘ کے نام سے ایک منفرد ادارہ گزشتہ کئی سالوں سے قائم و دائم ہے ۔ اس
ادارے میں آزاد کشمیر بھر کی طالبات ہوم اکنامکس سے متعلقہ پانچ شعبوں میں
سپیشلائز کرتی ہیں اس ادارے سے ہزاروں طالبات فارغ التحصیل ہو چکی ہیں۔ آج
کل اس ادارے کی چیئرپرسن پروفیسر مسز نسرین طارق ہیں جو انتہائی جانفشانی
سے ادارے میں مختلف شعبہ جات کو ترقی دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ نفیس گروپ
آف کمپنیز ایک ایسا نیک نام ادارہ ہے جو گزشتہ پچاس سالوں سے برطانیہ اور
آزاد کشمیر ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی مہیا کر رہا ہے اور اس ادارے کے
بانی سربراہ حاجی محمد سلیم میرپور میں دس کروڑ روپے سے زائد کی رقم اپنی
ذاتی گرہ سے خرچ کر کے ’’کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘ کے نام سے کشمیر
کا امراض قلب کے علاج کا سب سے بڑا دارہ قائم کر چکے ہیں جو گزشتہ دس سالوں
سے لاکھوں غریب مریضوں کی مدد کر چکا ہے حاجی محمد سلیم کے چھوٹے صاحبزادے
رافع سلیم بھی سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ رواں ہفتے
میرپور میں چیئرپرسن ہوم اکنامکس کالج پروفیسر نسرین طارق، پروفیسر اسماء
صغیر اور ان کی ٹیم نے نفیس گروپ آف کمپنیز کے ڈائریکٹر رافع سلیم سے رابطہ
کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہوم اکنامکس کی طالبات کی حوصلہ افزائی
کے لیے کیک بنانے کا ایک مقابلہ کروایا جائے اور اس مقابلے کو نفیس گروپ
سپانسر کرے۔ رافع سلیم نے اپنے والد محترم حاجی محمد سلیم کی طرح اس نیک
نیتی کے ساتھ اس مقابلے کو سپانسر کرنے کی حامی بھر لی کہ وہ طالبات جنہیں
فوڈ انڈسٹری تک رسائی نہیں اور وہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کا جذبہ
رکھتی ہیں ان کی مدد کی جائے تاکہ چراغ سے چراغ جلانے کا سلسلہ جاری رہ سکے
اور دنیا کے اندھیروں میں کچھ تو کمی واقع ہو۔ آپ کو اس تقریب کا کچھ احوال
بھی بتاتے چلیں -
کالج آف ہوم اکنامکس اینڈ فائن آرٹس میں کیک بنانے کامقابلہ منعقد ہوا۔ جس
میں میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی سینکڑوں طالبات نے شرکت
کی ۔ مقابلے کو نفیس گروپ آف کمپنیز نے سپانسر کیا ۔مقابلے میں سولہ طالبات
نے مختلف ذائقوں کے کیک بنائے ۔تقریب کی مہمان خصوصی وزیر سماجی بہبود
فرزانہ یعقوب تھیں۔ تقریب سے دیگر مقررین ڈاکٹر محمد سرور وائس چانسلر
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالو جی،راقم ، پروفیسر نسرین طارق چیئر
پرسن ہوم اکنامکس کالج ، پروفیسر عا صمہ ،اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ تقر
یب میں رجسڑار مسٹ پر فیسر طاہر قیوم ، ڈین سائنسزڈاکٹر مشتاق ، ڈین آرٹس
پروفیسر چوہدی منیر ، ڈائریکٹر ورکس عرفان حمید ، پروجیکٹ ڈائریکٹر شیخ
شجاعت جلیل احمد ، ڈائریکٹر پلائنگ پروفیسر مرزا شبیر احمد جرال ، ڈائریکٹر
اسٹیٹ میجر ماجد حسین ، سیکرٹری ٹو وائس چانسلر داؤد علی صدیقی ، پی آر او
مرتضی محمود ،سابق چیئر مین ادارہ ترقیات میرپور چوہدی حنیف ، ڈویثر نل
ڈائریکٹر کالجز پروفیسرشہنا ز اعجاز ، پرنسپل غازی الہی بخش گرلز کالج
میرپور پر وفیسر انجم افشاں نقوی ، کشمیر پریس کلب کے جنرل سیکرٹری سجاد
حیدر جرال ، سینئر صحافی خالد محمود انجم اور مسٹ یونیورسٹی کے تمام
ڈئریکٹرز اور شعبہ جات کے سربراہان سمیت طالبات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت
کی ۔وزیر سماجی بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب نے کہا ہے کہ آزاد
کشمیر کی عوامی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ انٹر پرینور شپ کو ترقی دیتے ہوئے
کشمیری عوام کو اس قابل بنا یا جائے کہ وہ نوکریا ں ڈھونڈنے کے بجائے لوگو
ں کے لیے نوکریاں پیدا کریں ۔کشمیری قوم پوری دنیا میں اپنی صلاحیتو ں کا
لوہا منوا رہی ہے اور میرپور سے لے کر راولاکوٹ تک اور باغ سے لے کر مظفر آ
باد تک پور ا کشمیر انتہائی محنتی اور دیانت دار پیشہ ور افرادی قوت کے
حامل افراد کا ایک ایسا خوبصورت گلدستہ ہے کہ جس کی خو بصورتی انفردیت بھی
رکھتی ہے اور پوری دنیا اس کی معترف بھی ہے ۔ دنیا بھر میں آباد لاکھو ں
کشمیری تارکین وطن کی خدمات لا ئق تحسین ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے
میرپور کا لج آف ہوم اکنا مکس اینڈ فائن آرٹس مسٹ کے زیر اہتمام منعقدہ
ـــ’’ کیک بنائیں ‘‘ ( Make A Cake Competition) کی تقریب سے خطاب کرتے
ہوئے کیا ۔ وزیر سماجی بہبود فرزانہ یعقوب نے نفیس گروپ آف کمپنیز کو خراج
تحسین پیش کیا کہ جنہوں نے اس ادارے میں اتنی زبردست تقریب اور مقابلے کو
سپانسر کرتے ہوئے طالبات کے لیے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی صلا حیتو ں
کا اظہار کر سکیں ۔ فرازانہ یعقوب نے کہا کہ آزاد کشمیر میں ہم نے پہلے بھی
یہ کوشش کی ہے کہ معاشرے کہ وہ طبقات جو کسی مسئلے کی وجہ سے مالی مشکلات
میں گھرے ہوئے ہیں انہیں اپنے قدمو ں پر کھڑا کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کارو
بار شروع کرنے کیے لیے بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں اسی سلسلے میں لائیو
سٹا ک اور زراعت کے شعبے میں محدود مدت کے لیے بلا سود قرضے دینے کا سلسلہ
جاری ہے اور ایک نئی سکیم کے تحت مستحق اور بیوہ خواتین کو بیس بیس انڈے
دینے والی مر غیا ں فراہم کی جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں سائنسی
معلومات بھی دی جاتی ہیں ۔ ’’ کیک بنائیں ‘‘ ( Make A Cake Competition)
مقابلے میں ماجدہ کو ثر نے پہلی ، حنا طارق نے دوسری اور عروج سعید نے تیسر
ی پو زیشن حاصل کی ۔ نفیس گروپ آف کمپنیز کی طرف سے لیاقت عباسی نے بیس
سوالات پر مشتمل Human Nutrition سے متعلق کوئز کمپٹیشن کے دوران درست
سوالات کے جوابات دینے والی طالبات اور اساتذہ میں کیش انعامات تقسیم کیے
۔فریش فلاور کمپیٹیشن میں ردا میر نے پہلی ، آمنہ صغیر نے دوسری اور اقراء
شہزاد نے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ کیک بنانے کے مقابلے کی آرگنائزر پروفیسر
اسماء صغیر اور پروفیسر تہمینہ تبسم تھیں جبکہ کوئز کمپیٹیشن اور فلاور
کمپیٹیشن میں پروفیسر رخسانہ خان اور پروفیسر رفعت نگینہ نے آرگنائزرز کے
فرائض انجام دیے ۔ پروفیسر اقبال اور سردار شکیل خان ڈائریکٹر سماجی بہبود
نے معاونت کے فرائض کے سر انجام دیئے۔
قارئین یہ تو تمام احوال ہے جو بتاتا ہے کہ یہ مقابلہ کس طریقے سے ہوا اور
کیا کیا باتیں کی گئیں اب کچھ گزارشات راقم اپنے عوامی انداز میں عوامی
حکومت کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے ۔ کالج آف ہوم اکنامکس اینڈ فائن آرٹس
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بننے سے قبل ایک خود مختار
حیثیت رکھتا تھا اور اس کی ڈگری بی ایس سی آنرز اور ایم ایس سی آنرزکہلاتی
تھی بجائے اس کے کہ اس ادارے کو کالج سے ترقیات کرتے ہوئے یونیورسٹی کی
حیثیت دی جاتی اس کے ساتھ ترقی معکوس کی کاروائی ڈالتے ہوئے اسے کالج سے
بھی کم درجہ دیتے ہوئے پہلے مرحلے میں میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ
ٹیکنالوجی کا ایک شعبہ بنا دیا گیا اور بعدازاں اگلا کارنامہ یہ انجام دیا
گیاکہ اس کی ڈگری کو سائنسز سے نکال کر آرٹس کا لیبل لگا دیا گیا۔ یہ دو
حرکتیں اس نوعیت کے قومی جرائم ہیں کہ اگر کوئی عقل و فہم رکھنے والی حکومت
اس طرف توجہ دے تو یقین جانیے یہ جرائم کرنے والے مجرموں کو ’’ٹنگ‘‘کے رکھ
دیا جائے۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان اور وزیراعظم چودھری
عبدالمجید انتہائی ویژن رکھنے والے سیاست دان ہیں ہم آج کے کالم میں ان سے
گزارش کرتے ہیں کہ خدارا میرپور کالج آف ہوم اکنامکس اینڈ فائن آرٹس کے
معاملات کو غور سے دیکھا جائے اور اس ادارے کو مسٹ سے علیحدہ کرتے ہوئے
دوبارہ خود مختار حیثیت دی جائے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس ادارے کو بھی
ترقیاب کرتے ہوئے ’’ہوم اکنامکس یونیورسٹی ‘‘ درجہ دیا جائے کیونکہ دنیا
بھر کی ترقی یافتہ اقوام فوڈ انڈسٹری پر خصوصی توجہ دیتی ہیں اور فوڈ
انڈسٹری کے ساتھ ساتھ اس ادارے میں پڑھائے جانے والے دیگرتمام مضامین بھی
’’ہوم انڈسٹری ، ہوم اکنامکس،کاٹیج انڈسٹری، ٹیکسٹائل انڈسٹری‘‘اور دیگر
اہم ترین صنعتوں کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں ہمیں امید ہے کہ آزاد
کشمیر کی عوامی حکومت، عوامی صدر اور عوامی وزیراعظم راقم کے اس عوامی
مطالبے پر کسی بھی قسم کا برا منائے بغیر کشمیری قوم کے مفاد میں بہتر
سوچتے ہوئے کوئی اچھا فیصلہ کریں گے۔
قارئین اب آتے ہیں دیسی مرغیوں کی جانب جن کا تعلق آزاد کشمیر کی ہوم
منسٹری یا خواتین خانہ کے ساتھ ہے ۔ آزاد کشمیر کی وزیر سماجی بہبود و ترقی
نسواں فرزانہ یعقوب ایک نوجوان ، ترقی پسند،تعلیم یافتہ اور انسان دوست
شخصیت ہیں ان کے والد گرامی اس وقت آزاد کشمیر کے صدر ہیں اس کے باوجود
محترمہ فرزانہ یعقوب انتہائی دھیمے ، سنجیدہ، شستہ اور شائستہ انداز میں
اپنی وزارت کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ کالج آف ہوم اکنامکس میں ہونے والے
تقریب کے دوران راقم نے ان سے خصوصی انٹرویو کرتے ہوئے چند باتیں پوچھیں تو
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ انقلابی ویژن کی حامل بھی ہیں ۔ محترمہ فرزانہ
یعقوب راقم کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ آزاد کشمیر
کی بیوہ اور مستحق خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے خود کفالت
سکیم کے تحت انڈے دینے والی بیس بیس مرغیاں تقسیم کی جا رہی ہیں اور اس
سکیم کے تحت ایک خاندان چھ ہزار روپے سے لے کر نو ہزار ماہانہ کما سکتا ہے۔
محترمہ فرزانہ یعقوب نے بتایا کہ آزاد کشمیر بھر میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی یہ
دیسی مرغیاں تقسیم کی جا رہی ہیں اور خواتین کو ان دیسی مرغیوں کی خوراک
اور بیماری کی صورت میں ادویات کے بارے میں خصوصی تربیت دی جا رہی ہے۔
انٹرویو کے دوران وائس چانسلر میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
ڈاکٹر سرور اور کالج آف ہوم اکنامکس کی چیئرپرسن پروفیسر نسرین طارق کے
علاوہ دیگر ذمہ دار لوگ بھی موجود تھے۔ پروفیسر نسرین طارق نے معصومیت سے
وزیر سماجی بہبود فرزانہ یعقوب سے پوچھا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جن
خاندانوں کو آپ بیس بیس دیسی مرغیاں بانٹ رہی ہیں وہ ان سے انڈے حاصل کرنے
کی بجائے ان مرغیوں کو روسٹ کر کے کھا نہ جائیں اس سوال پر فرزانہ یعقوب
سمیت یونیورسٹی کے تمام ذمہ داران ہنسنے پر مجبور ہو گئے۔
قارئین نفیس گروپ آف کمپنیز اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے، ہر گھر میں
موجود ہوم منسٹری مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے، کالج آف ہوم اکنامکس جو ہوم
منسٹری اور ملکی انڈسٹری کو پریشانیوں سے نکال سکتا ہے اس وقت خود
پریشانیوں کا شکار ہے اور محترمہ فرزانہ یعقوب وزیر سماجی بہبود ڈیڑھ کروڑ
روپے مالیت کی دیسی مرغیاں آزاد کشمیر کی مستحق خواتین میں بانٹ رہی ہیں ہر
کسی کی نیت نیک ہے اﷲ ہمیں اچھے کام کرنے کی توفیق ،صلاحیت اور سوجھ بوجھ
بھی عطا فرمائے آمین۔
بقول چاچا غالب یہاں ہم یہ کہتے چلیں ۔
حیراں ہو، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
چھوڑانہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
جانا پڑا رقیب کے درپر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو میں
پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں
قارئین ہمیں امید ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان، وزیراعظم
چودھری عبدالمجید اور دیگر تمام ذمہ داران جو آزاد کشمیر ترقی یافتہ اور
خود کفیل دیکھنا چاہتے ہیں وہ کالج آف ہوم اکنامکس میرپور کو یونیورسٹی کی
حیثیت سے ترقی دے کر اپلائیڈ سائنسز اور انڈسٹری کو آزاد کشمیر میں قدم
جمانے کا سنہری موقع ضرور فراہم کریں گے۔ کیونکہ ہم نے یہ نوٹ کیا کہ
موجودہ صدر اور وزیراعظم تعلیم کے حوالے سے روشن خیالات رکھتے ہیں اور
گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے دوران متعدد یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا قیام ان
کی اچھی کارکردگی کا واضح منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ملزم نے وکیل سے کہا کہ ’’آپ بالکل نوجوان وکیل ہیں اور میرا کیس انتہائی
پیچیدہ ہے میں آپ کو کیس دیتے ہوئے ڈر رہا ہوں ‘‘
نوجوان وکیل نے انتہائی اعتماد نے جواب دیا ’’جناب آپ بالکل فکر نہ کریں
مقدمے کا فیصلہ ہونے تک میں کافی تجربہ کار اور بوڑھا ہو چکا ہو ں گا‘‘۔
قارئین ہم نے کالج آف ہوم اکنامکس اور فوڈ انڈسٹری کا یہ مقدمہ تو لے لیا
ہے اﷲ مجھے اور اس کیس کے منصفوں کو زندگی دے اور جلد از جلد اس کا فیصلہ
ہو جائے۔ |