یہ ان دنوں کی بات ہے،جب پاکستان
ائیر فورس کے مایہ ناز شاہین ایم ایم عالم ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی کی
زندگی گزار رہے تھے،لوگوں سے ملنے جلنے سے بہت زیادہ احتراز برتتے
تھے،اِدھر اُدھر آنا جانابھی بہت کم تھا، سروس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی
مذہب کی تبلیغ کے لیے وقف کررکھی تھی،اکثر اوقات عبادات میں لگے رہتے
تھے،باقی اوقات اپنے بیڈ روم میں کتابوں،رسائل و جرائد اور اخبارات کے ہجوم
میں گزارتے تھے،انہی دنوں پاکستان کے ایک معروف صحافی ان کے ہا ں تشریف
فرما تھے،ان صحافی کا ایم ایم عالم سے دیرینہ تعلق تھا،ایم ایم عالم ان کو
اپنی زندگی کے بیتے دنوں کی کارگزاری سنارہے تھے،باتوں کے دوران پاکستان کے
یہ قابلِ فخر سپوت کہنے لگے :”وہ لمحہ میری زندگی کا افسوس ناک ترین لمحہ
تھا،جب میری ریٹائرمنٹ کے بعدبنگلہ دیشی حکومت نے مجھے آفر کی تھی کہ آپ
ہمارے ہاں آجائیں،ہم آپ کو اپنا کمانڈر انچیف بنائیں گے،مگر میں نے دوٹوک
الفاظ میں ان کو جواب دیدیا کہ میں پاکستان کے ساتھ جینا مرنا پسند کروں
گا۔“اس کے بعد وہ دکھ اور افسوس کے ساتھ کھوئے کھوئے لہجے میں کہنے لگے:”
پتا نہیں!انہوںنے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں پیسوں کی خاطر بک جاﺅں گااور ان
کو ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میری حب الوطنی پہ شک کریں۔“یہ واقعہ مجھے انہی
سینئرصحافی نے سنایا تھا،جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے عالم صاحب اپنے قد
سے بہت بلند اور اونچے لگے ،جو بلاشبہہ ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں،لیکن
بدقسمتی سے ہمیںان کی حب الوطنی پہ” شک“ تھا۔
جی ہاں محترم قارئین! ہمیں ان کی حب الوطنی پہ شک تھا،ہماری محسن کشی کی
روایت نے ان کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے مفروضے جنم دیئے،ان کے بارے
میں آج تک یہی کہا جاتاہے کہ وہ بنگالی تھے،چونکہ پاکستانیوں کے لیے’
’بنگالی “ہونا قابلِ نفرین ہے،لہذا انہیں مخالف عناصر کی طرف سے یہ گالی
دیکر یہ احساس دلایا جاتا رہا کہ وہ ایک نیچ مخلوق ہیں،یہ بھی کہا جاتا ہے
کہ انہیں بنگالی ہونے کی وجہ سے 1971ءکی جنگ میں جہاز نہیں دیا گیا
تھا،مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وہ ”بچے کچھے پاکستان“کے ہوکر رہ گئے
تھے،مگرپھر بھی انہیں بنگالی غدار کہا گیا،اس کے بعد یہ کہا گیا کہ وہ
قادیانی تھے،اسی وجہ سے انہیں ائیر فورس سے نکالا گیا،اس کے بعد ان کی جو
مصروفیات رہیں،انہیں انتہا پسندانہ سرگرمی ڈکلیئرکیا گیا۔
میں ان کے بارے میں ان ”الزامات“کی بوچھاڑ سنتا ،دیکھتا اور پڑھتا ہوں تو
میں خود بڑا حیران رہ جاتا ہوں، سوچنے لگتا ہوں کہ بھلا کوئی اپنے قومی
ہیرو کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتا ہے؟پہلی بات وہ بنگالی ہرگز نہیں تھے،وہ
کلکتہ میں پیدا ہوئے،وہاں سے 14سال کی عمر میں متحدہ پاکستان کے مشرقی
حصہ(ڈھاکہ) کی طرف ہجرت کی،وہیں سے تعلیم حاصل کی،وہیں پلے بڑھے اور ظاہر
ہے،انسان جس جگہ زندگی کا ایک بڑا حصہ گزاردے،وہاں کی زبان سے تو واقفیت
ہوہی جاتی ہے ،اسی لیے وہ بنگلہ زبان جانتے ضرور تھے،لیکن اس کا مطلب یہ
نہیں کہ وہ بنگالی تھے،جبکہ وہ اصل میں بہاری تھے ،دوسری بات! یہ کہنا تو
سراسر اپنے محسن کے ساتھ زیادتی ہے کہ انہیں1 197کی جنگ میں حصہ لینے نہیں
دیا گیا تھا،یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے آرڈر تھا کہ
جتنے بھی بنگالی آفیسرز ہیں،انہیں میدانِ کارزار سے دور رکھا جائے،یہ قطعی
بے بنیاد بات ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران انڈیا مشرقی پاکستان کا
رَن وے پہلے ہی تباہ کرچکا تھا،مگر ایم ایم عالم نے اس وقت اپنے سینئرز سے
یہ کہا تھا کہ مجھے طیارہ اڑانے کی اجازت دی جائے،میںاسی ادھیڑ بن کا شکار
رَن وے سے ہنٹر اُڑاکر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔ایم ایم عالم کا
جذبہ قابلِ داد ضرور تھا ،مگر ایسے پیشہ وارانہ معاملات میں جذبہ
نہیں،زمینی حقائق دیکھے جاتے ہیں،تکنیکی طور پرایسا کرنا خودکشی کے مترادف
تھا،اسی وجہ سے ان کو طیارہ اُڑانے کی اجازت نہیں ملی تھی،اس کے علاوہ اور
تو کوئی وجہ نہیں تھی،حالانکہ اسی جنگ میں ہماری فوج کے کئی بنگالی آفیسر
نے جانفشانی کے ساتھ حصہ لیا تھا،جن کی بعد میں پروموشن بھی ہوئی،بنگالی
کہہ کر بے پَر کی اُڑاناسراسرعصبیت کی علامت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نظریاتی افراد کے ساتھ ہمیشہ اپنے کولیگز کے ساتھ اَن بَن
رہتی ہے،سوعالم صاحب نے بھی اپنے نظریات کی بنیاد پرپاک فضائیہ کی ہائی
کمان سے ٹکر لی ہوئی تھی،بھٹو کے زمانے میں ان کے اپنے سینئرز کے ساتھ
اختلافات پیدا ہوگئے تھے،جس کے بعد ان کے لیے حالات سازگار نہیں رہے
تھے،اسی وجہ سے انہوںنے ازخود ریٹائرمنٹ لے لی تھی،جبکہ دوسری جانب ان کی
ریٹائرمنٹ کی یہ وجہ مشہور کی گئی کہ وہ قادیانی تھے اور کسی قادیانی کو
اتنی اہم پوسٹ (ائیر کموڈور،وَن اسٹار)پر نہیں رکھا جاسکتا،اس لیے انہیں
معزول کیا گیا،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان پر ریٹائرمنٹ لینے کے لیے دباﺅ
ڈالا گیا تھا،لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ از خود کسی دباﺅ کے بغیر علیحدہ
ہوگئے تھے،یہ ایک بہت لمبی رُوداد ہے اور شاید پبلک فورم پر آنا مناسب بھی
نہیں۔
بھٹو کے زمانے میں جب قادیانیت کے خلاف تحریک عروج پر تھی،تب بھی یہ بڑے
جوش و جذبہ سے اس میں حصہ لیتے تھے،پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے ان کو
غیرمسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے بعد بھی وہ ہرمحاذ میں خاتم المرسلین ﷺ کے
ختم نبوت کے عقیدہ کی خاطر سرگرم رہے،مسجدوں میں جاجاکے ولولہ انگیز بیانات
کیا کرتے تھے،اب آپ خود بتایئے!وہ انسان جو دینِ محمدی کا پاسبان تھا،وہ
قادیانی کیسے ہوسکتا ہے؟اس کے بعدجنرل ضیاءکے دور میں افغان جنگ کو وہ
بالکل درست اور جائز سمجھتے تھے، وہ وہاں مجاہدین کو تربیت بھی دی، چونکہ
وہ اقبال کے اسلامی اخوت کے فلسفہ سے متاثرتھے، اسی ناطے ہر ایسے کام میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے،اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم
سے وہ بڑے بڑے مجمعوں سے مخاطب ہوا کرتے تھے ،اسی زمانے سے انہوں نے شلوار
قمیض مستقل طور پر زیبِ تن کرنا شروع کردیا تھا،اکثر اوقات افغان ٹوپی بھی
پہناکرتے تھے،ان کی باتوں میں اسلامی اخوت کاجذبہ اورعالمِ اسلام کے دفاع
کا جوش و خروش جھلکتا تھا،فلسطین ،کشمیر اورعالم اسلام کے دیگر قضیوں پر ان
کا دل خون کے آنسو رویاکرتا تھا،چونکہ ملکی ناگفتہ بہ صورتحال میں ان کی
اخلاقی مدد کرنے کو بھی کوئی نہیں تھا، اسی وجہ سے یہ اپنے سیاسی،عسکری اور
مذہبی قیادت سے سخت نالاں تھے،میڈیا یرغمال،سیاست دان مُہرے اور عوام
کولہوکے بیل کی طرح اپنے سرکل میں گھومتے رہتے والے....!تو اس شاہین کو پھر
کسی سے کوئی امید نہیںرہی تھی،وہ خدا کی ذات پہ تکیہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے
لیے گوشہ ¿ گمنامی کی سکونت اختیارکرلی تھی۔
بہرحال،ان سے اختلافات ہوسکتے ہیں،لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک کامل
مردِ مومن،محب وطن پاکستانی اور شریف النفس انسان تھے،کلکتہ کی زمین میں
پیداہونے والا،ڈھاکہ میں لڑکپنبِتانے والا یہ شاہین اپنی جوانی کے ایام میں
پاک سرزمین کی فضاﺅں میں راج کرتا رہا،ادھیڑ عمری میں ختم نبو ت کی
پاسداری،مسلم امہ کے درد بانٹتا اور دمشق کی فضاﺅں کی نگہبانی کرتارہا،وہ
ایک ایسے مردِ قلندر تھے،جن کے سینہ میں ملت کا غم پنہاں تھا۔
(نوٹ:مزیدلکھنے کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا،لیکن گزشتہ کالم کے بعدکچھ
انکشافات پر مبنی دستاویزات بھی ملی ہیں ،دو اور نہایت اہم باتیں بھی رہ
گئی ہیں،ان پر اگلے کالم میں کچھ لکھوں گا۔) |