پنجابی زبان کے ممتاز تخلیق
کاراور عالمی ادبیات کے نباض میاں دلدارحسین 14۔فروری2013کو لاہور میں خالق
حقیقی سے جا ملے ان کی عمر تریسٹھ سال تھی ۔ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ
ہے جس کے باعث پاکستانی ادبیات کے فروغ کی مساعی کو شدید ضعف پہنچے گا ۔وہ
اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستا ن ادب تھے ۔ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا
انھوں نے تفسیر ،حدیث ،سیرت النبیﷺ اور تاریخ اسلام کی اہم کتابوں کا
مطالعہ کر رکھا تھا ۔وہ لاہور سے شائع ہونے والے پنجابی زبان کے ادبی مجلے
”لکھاری “کے چیف ایڈیٹر تھے ۔ 1980میںانھوں نے اپنے بڑے بھائی الحاج میاں
اقبال زخمی کے ساتھ مل کر شاہدرہ لاہور سے رجحان ساز ادبی مجلے ”لکھاری “کی
اشاعت کا آغاز کیا۔الحاج میاں اقبال زخمی کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا اوران
کا شمار عالمی شہرت کے حامل پاکستانی ادیبوں اوردانش وروں میں ہوتا تھا۔دو
سال قبل الحاج میاں اقبال زخمی نے جب داعیءاجل کو لبیک کہا تو میاں دلدار
حسین اپنے بڑے بھائی کی دائمی مفارقت کے باعث دل گر فتہ رہنے لگے ۔یہ غم ان
کے دل میں ایسا بیٹھا کہ ان کی جان لے کر نکلا۔امجداسلام امجد نے کہا تھا:
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
میاں دلدار حسین دلدار کا تعلق ادیبوں کے اس طبقے سے تھا جو مزدوری کر کے
رزق حلال کماتے ہیں ۔وہ احسان دانش اور تنویر سپرا کی طرح دن بھر تو مزدوری
کرتے اوررات کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتے تھے ۔ میاں دلدارحسین شاہدرہ
لاہورمیں واقع بائیسکل بنانے والی ”رستم سہراب“فیکٹری میں ملاز م تھے اور
شاپ میں کام کرتے تھے ۔جس محنت ،لگن اورفرض شناسی سے انھوں نے اپنے فرائض
منصبی ادا کیے اس کا ہر شخص معتر ف تھا۔وطن ۔اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ
ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس جر ی تخلیق کار نے ہوائے جور و ستم میں بھی حوصلے
،امید ،صبر و تحمل اوراستقامت سے کا م لیا۔ان کی زندگی میں کئی نشیب وفراز
آئے لیکن کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔علم دوستی اور ادب پروری ان کا
شیوہ تھا۔ان کے بھائی الحاج میاں اقبال زخمی اور بھتیجے ڈاکٹر ارشد اقبال
ارشد نے انھیں عالمی کلاسیک کے تراجم سے واقفیت دلائی۔اس لحاظ سے دیکھا
جائے تو وہ انھیں پاکستان کی قومی زبان ،علاقائی زبانوں کے علاوہ عربی ،فارسی
اورانگریزی ادبیات کے بارے میں کامل آگہی تھی ۔
مجلہ ”لکھاری“نے ان دو بھائیوں کی ادارت میں کامیابی کے نئے باب رقم کیے ۔اگرچہ
”لکھاری “پنجابی زبان کا مجلہ تھا لیکن اس میں عالمی ادبیات کے شاہ کارادب
پاروں کے پنجابی تراجم تواتر کے ساتھ شائع ہوتے تھے ۔اردو زبان وادب کے
نامورادیبوں کے اسلوب پر بھی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہتا۔مجلہ
”لکھاری“کے زیر اہتمام شائع ہونے والے پانچ نعت نمبرپوری دنیا میں مقبول
ہوئے ۔پنجابی زبان میں نعت گوئی کے فروغ و ارتقا میں میاں دلدار حسین نے
گہری دلچسپی لی ۔پاکستان میں منعقد ہونے والی ادبی کانفرنسوں ،مشاعروں اور
تنقیدی نشستوں میں شرکت کرتے ۔ ہر شخص کے ساتھ اخلاق اوراخلا ص سے لبریز
برتاﺅ ان کی شخصیت کاامتیازی وصف تھاان سے مل کر زندگی سے پیا ر ہو جاتا ۔وہ
توحید و رسالت کے پروانے تھے ۔عشق رسول ﷺان کے ریشے ریشے میں سماگیا
تھا۔نعت گوئی کی روحانی محافل کاانعقاد ان کی زندگی کا اہم ترین پہلو
تھا۔اللہ کریم اس سچے عاشق رسولﷺکو جواررحمت میں جگہ دے ۔ان کی یاد تا ابد
دلوں کومرکز مہر و وفا کرتی رہے گی ۔دلوں کو درد اوروفا سے آباد رکھنے کے
لیے رفتگاں کی یاد ایک مرہم کے مانند ہے جو دائمی جدائی دینے والوں کے درد
لا دوا کے لیے نا گزیر ہے ۔انھوں نے روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا جب تک
دنیا باقی ہے وہ جاری رہے گااوران کا نام افق ادب پر ہمیشہ ضو فشاں رہے گا
۔بہ قول محسن بھو پالی :
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور
روشنی کی طرح سفرمیں ہیں |