حکمتِ الہٰی سے دنیائے انسان کے
لئے ہر نیا دن اپنی نئی شان اور آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا رہا ہے اور
تا قیامت ہوتا رہے گا یوں ہر نئے دن کی اپنی الگ حیثیت و اہمیت ہے ۔ لیکن
قوموں کی زندگی میں کچھ ایسے دن بھی مخصوص ہیں جو اپنے پُر خاش دامن میں
خوش بختی اور خوشیوں کے گراں قدر جواہر لئے طلوع ہوتا ہے یوں وہ دن زمانے
میں نمایاں شہرت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے دن عالمِ تاریخ میں سنہری حروف میں
درج کئے جاتے ہیں۔ انسانی عظمت و سرخروئی کے ایسے عہد و پیمان سے وابستہ
ہوتے ہیں جو مستقبل میں ملک و قوم کے تشخص کو اجاگر کرنے کی علامت کے طور
پر یاد رکھی جاتی ہیں۔ ایسے ایام ظاہر ہے کہ خود بخود تو ظہور پذیر نہیں ہو
جاتے بلکہ ان کی تخلیق کے پس منظر میں طویل ترین محنت اور کاوشیں کارفرما
ہوتی ہیں۔اس دن کی یاد منانے میں قومیں نہ صرف اپنے آباﺅ اجدادکے نمایاں
کارہائے کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ انہیں خراجِ تحسین بھی پیش کرتی ہیں۔
بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں 23مارچ 1940ءوہ خوبصورت دن ہے جس کا دامن
پاکستانیوں کی عزت و عظمت کے خوشنما پھولوں سے سجا یا ہواہے۔ اس دن کی
ایمان افروز خوشبو ہر سچے پاکستانی کے دل و دماغ کو ایک تازہ ہوا کا جھونکا
مہیا کرتا ہے۔ ہم اس دن کو ہر سال اپنے قومی دن کے طور پر شاندار طریقے سے
مناتے ہیں۔ اس دن کو منا کر ہم اصل میں علامہ محمد اقبال ؒ اور بانی
پاکستان قائد اعظم محمد جناح ؒ کی قیامِ پاکستان کے لئے جد وجہد مسلسل اور
مشکل حالات میں بھی قوم کی صحیح ترجمانی و رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے پر دل
کی گہرائیوں سے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
یومِ قرار دادِ پاکستان کی اہمیت ہر دل میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ
ایسا دن ہے جب پاکستان کے تصور نے ایک حقیقت کا روپ دھارا کہ دنیا حیران رہ
گئی۔ پاکستان کا قیام بھی اسی نشانِ منزل کا تحفہ ہے جہاں سے ہم سب نے بانی
پاکستان کی قیادت میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔ ہم اور ہماری تاریخ بھی تحریکِ
قیام پاکستان کے جاں نثاروں ، شہیدوں کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔
پاکستان خوبصورت وادیوں، پہاڑوں، سر سبز علاقوں پر محیط ہے جسے اللہ رب
العزت نے دنیا بھر کی تمام ہی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ
ہم اس قرار داد پر ٹھیک طرح سے رواں دواں نہیں ہیں اور نہ ہی علامہ محمد
اقبال ؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے اصول اور ہدایت پر عمل کر رہے
ہیں۔ بلکہ جو حالات آج ہیں اور جو حالات رونما ہوئے ہیں اس سے پاکستان کے
ستاروں کی چمک ماند پڑ رہی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی پہچان بھی
کھو رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان ہی ہماری پہچان اور ہماری اساس کی ضامن بھی
ہے۔ قائد اعظم ؒ پاکستان کو دنیائے اسلام کی جدید فلاحی ریاست بنانے کے
خواہاں تھے جس دھرتی پر ہر پاکستانی کوئی تفریق کے بغیر آزاد ی کی فضا میں
سانس لے سکے ۔ کیا ہم ان کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں ، کیا ان کی سوچ کے
مطابق ہمارے یہاں جمہوریت نافذ ہے۔
23مارچ 1940ءکو لاہور کے وسیع و عریض منٹو پارک میں کئی لاکھ انسانوں کے
سامنے اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے
تقسیم ہند کی جو مشہور قرار داد منظور کی تھی جس نے بعد میں قرارداد
پاکستان کا نام حاصل کیا۔ ہم ہر سال اس اہم روزِ سعید کی یاد تازہ کرتے ہیں
۔اس دن ایک جوش تھا، تاحد نظر لوگ جمع تھے، جنون جو لہو میں شامل ہوکر دوڑ
رہا تھا، آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھی تھے، ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے لوگوں سے
کوئی خونی رشتہ نہیں تھا مگر پھر بھی سب ایک ہی احساس کی گلدستہ میں پروئے
ہوئے لوگ تھے، ان سب کے دل ایک تھے اور ان سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ۔
لے کے رہیں پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
وہاں پر موجود لوگوں کی کوئی زمین نہیں تھی اور اسی زمین کے حصول نے انہیں
ایک کر دیا تھا، ایک قوم کی مانند بنا دیا تھا، اور لیڈر ایسا کہ جو کہتا
تھا منوانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔ اُس
وقت نہ کوئی سندھی تھا، نہ کوئی بلوچی اور نہ ہی کو ئی پنجابی اور پٹھان
تھا اور نہ ہی کوئی مہاجرتھا ، وہ سب صرف اور صرف مسلمان تھے ۔ ایک اللہ
اور ایک رسول کو ماننے والے تھے ۔ یوں ۳۲مارچ کو لاہور میں مسلمانوں کے لئے
ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لئے قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ فیصلے سے
قبول کر لیا گیا ۔
ہم سب نے کبھی کل کے پاکستان اور آج پاکستان میں نمودار ہونے والے حالات کے
بارے میں نہیں سوچا کہ ان مراحل کے درمیان ”پاکستان “ کا کیا قصور ہے؟ ہم
آخر اپنے ملک اور اپنی پہچان کو کیوں بھلانے کے دَر پہ لگے ہیں۔ آج ہم سب
صرف پاکستانی کیوں نہیں ہیں، آج پاکستان اور اس کے عوام کو تمام اقوامِ
عالم میں دہشت گردی کے لیبل سے مزین کر دیا گیا ہے لیکن ہم پھر بھی بیرونی
امداد اور وہاں کی ملازمتوں پر نثار ہو رہے ہیں ۔ ہم پاکستان کو چھوڑ کر
جانا چاہتے ہیں کیونکہ اس نے ہمیں قائد اعظم کے اصول نہیں دیئے، علامہ
اقبال کے خوابوں کی تعبیر نہیں دی، لیکن ہم سب نے اسے کیا دیا ہم یہ جاننا
نہیں چاہتے۔ پہلے پاکستان کے حصول کے لئے زمین تقسیم ہوئی مگر آج خود
پاکستان کی زمین سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھا ن میں بٹ گئی ہے۔ مینارِ
پاکستان تو وہی ہے اور اُسی جگہ پر ہے مگر اس پر چڑھی گرد و غبار کی تہہ
ہمیں یہ باور کرا رہی ہے کہ: ”جو قومیں اپنا ماضی اور اپنی تاریخ بھول جاتی
ہیں تاریخ انہیں بھلا دیتی ہے۔“
اپنا گھر سب کو پیارا ہوتا ہے ، ہم سب اپنے گھر سے محبت رکھتے ہیں، جب بات
اپنے وطن کی ہو تو یہ ہم سب کروڑوں پاکستانیوں کا گھر ہوتا ہے ۔ہمارے
بزرگوں نے پاکستان بنانے کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا مگر آج ہم سب
پاکستان کو کیا دے رہے ہیں ۔ یہ صرف سوچنے کا نہیں بلکہ سوچ کے لئے بھی
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم لوگ کدھر جا رہے ہیں، ہم اپنے رہنماﺅں کے بتائے گئے
اصولوں سے کیوں انحراف کر رہے ہیں، ان کے اصولوں پر عمل کیوں نہیں کر رہے۔
یہ اور اس جیسی کئی باتیں اور اقوال ہیں جن پر ہم سب کو عمل کرنا ضروری ہے
تاکہ وہی جذبہ اور وہی ولولہ ہم پر غالب آجائے۔
جہاں میں اہلِ ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
یقین کیجئے ہمارا ملک عظیم ترین ہے اور یہی ہماری پہچان ہے ، ہماری اساس ،
محبت، عزت اور ہمارا سب کچھ ہے اس لئے اس ملک کی قدر کیجئے ، صرف اور صرف
پاکستان کی ترقی کے لئے سوچیئے اور اسی کے لئے اپنے آپ کو وقف کیجئے۔اپنے
تہذیبی افکار کو زندہ رکھئے، ایمان ، اتحاد اور تنظیم کی دولت کو اپنے دلوں
میں زندہ رکھئے ، اپنے مخلص اور عظیم بانیان کو نہ صرف یاد رکھئے بلکہ ان
کی طرح محنت کرکے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے راہیں ہموار کریں کیا ہمیں
دنیا کی ترقی اور اپنی پستی دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی ہے انسان چاند پر چہل
قدمی کر رہا ہے اورہم آپس کی لڑائیوں میں باہم دست و گریباں ہیں، کیا ایسا
نہیں ہو سکتا کہ ہم سب پاکستانی یہاں امن و امان کے ساتھ پاکستانی بن کر رہ
سکیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قیامِ پاکستان کے مقاصد اور محرکات کی عملی
تعبیر اور اس کی جستجو عطا فرمائے۔ |