گذشتہ سال کے واقعات اور رواں
سال کے چند مہینوں پر نظر ڈالنے سے شدید مایوسی ہوتی ہے۔معاشی ترقی کی چند
برسوں میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔ کرپشن کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ
لیڈروں پر سے اعتماد اٹھنے لگا ہے۔ حکومت کی ساکھ الگ متاثر ہوئی۔ پارلیمنٹ
کو فیصلے لینے میں کافی جد و جہد کا سامنا رہا۔ حکومت پیرالائز نظر آئی۔
پورے پانچ سال سیاسی بحران ہی رہا جس کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال
دگرگوں دیکھنے کو ملا۔ جوڑ توڑ کی سیاست نے بھی ملک کو کافی نقصان پہنچایا۔
تمام تانے بانے کو ملایا جائے تو اس نتیجے پر بآسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ
ان چند سالوں نے عوام کو سوائے مایوسی کے اور کچھ نہیں دیا۔ اور اگر دیا
گیا تو مہنگائی دی، کرپشن کے لاتعداد کیسز دیئے گئے، قتل و غارت گری ملی،
دھماکے دیئے گئے، لوڈ شیڈنگ کا تحفہ ملا، اور نہ جانے کیا کیا! اس کا مطلب
یہ نہیں کہ چند برسوں نے ہمیں خوشی کے مقابلے میں غم زیادہ ملے۔ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ رواں سال کیسا گزرے گا۔ میں کوئی نجومی تو ہوں نہیں اور نہ
ہی کسی قسم کی پیش گوئی میں دلچسپی رکھتا ہوں مگر اپنے سامنے میں جو ٹرینڈ
دیکھ رہا ہوں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ رواں سال کا آدھے حصے میں
خوشی اور غم کا ایکویشن کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوگا۔ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ
نئی حکومت مئی میں قائم ہونے کو ہے ۔ ویسے تو عوام بیدار اور آواز بلند
کرنے والے ہوگئے ہیں ۔ بیدار عوام اپنے ووٹ کے ذریعے دیکھیں کیسی حکومت
لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ نئی آنے والی حکومت کو وقت پر صحیح فیصلہ کرنا
ہوگا تاکہ عوام کو ان سے بندھی آس ٹوٹنے نہ پائے۔ عوام کو امید ہے کہ یہ
سال امیدوں سے بہتر سال ہوگا۔
مجھے یقین ہے کہ ملک کے لوگوں میں بڑھتی ہوئی بیداری نے سیاست کے مکینوں کو
بھی جاگتے رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اور ہر پارٹی اپنے اپنے منشور میں
عوامی بھلائی کے لئے وعدوں کا ایک مکمل ٹوکری رکھ کر بیٹھے ہیں۔ مگر اب
لوگوں نے سب چلتا ہے (یا سب اچھا ہے) والے فارمولے کو چھوڑنا شروع کر دیا
ہے۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ اب عوام مکمل بیدار ہیں ۔ لیڈروں کے لئے چاہے یہ
بُری خبر ہو لیکن جمہوریت کے لئے یہ بڑی اچھی خبر ہے۔ جمہوریت صحیح سمت میں
چلے اس کے لئے عوام کا بیدار ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بیدار عوام حکومت سے
حساب مانگ سکتے ہیں۔ پورے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں بدعنوانی، کرپشن اور
امن و امان کا موضوع بڑے زور شور سے بحث و تنقید کی زد میں رہا۔ مگر آج کی
تاریخ تک یہ تمام ابلیسی مسائل حل نہیں ہوئے۔ لاشیں آج بھی گِر رہی ہیں فرق
صرف اتنا ہے کہ کوانٹیٹی میں کمی آگئی ہے۔ اللہ کرے کہ نگرانوں کے دور میں
یہ معاملہ ختم کیا جا سکے ۔
اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کا انتخاب تو ہونا چاہیئے لیکن موجودہ طریقہ جو
ہمارے یہاں رائج ہے کئی وجوہ سے غلط اور محتاج اصلاح کا متمنی ہے۔ اسلام ان
لوگوں کو حکمرانی کے لئے اہل سمجھتا ہے جو اس کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں
اور عہدہ منصب سے اس بناءپر خائف ہوں کہ امانت کا حق بھی ادا کر سکیںگے یا
نہیں۔ اس کے برعکس موجودہ طریقہ کار و انتخاب اقتدار کو ایک مقدس امانت
قرار دینے کے بجائے حریصانِ اقتدار کا کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ مروجہ طریقہ
کار انتخاب میں انتخابات جیتنے کے لئے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اوّل سے آخر
تک رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے ، سبز باغ دکھانے کے لئے، جوڑ توڑ نعرہ
بازی ، دھونس دھمکی ، یہ ساری چیزیں اسلام کی نظر میں ناروا ہیں اور یہ غلط
روش قوم کے بنیادی حقوق کوسبوتاژ کرتی ہیں۔ ایوان میں آکر بجائے حکمتِ عملی
کے ساتھ کام کرنے کے سب اچھا ہے کا نعرہ لگایا جاتا ہے جبکہ نا سمجھ عوام
بھی اس بات کو سمجھ رہی ہوتی ہے کہ اب کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ امن و امان کی
وجہ سے مالکان اپنی ملکی انڈسٹریز ، کارخانے دوسرے ملکوں میں شفٹ کر رہے
ہیں جس سے بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ غریب کے
گھر کا چولہا جلنا مشکل ہوگیا ہے۔ پھر بھی سب اچھا ہے؟ سینکڑوں لوگوں کے
گھروں کے چراغ گل ہو چکے ہیں اور اب ان گھرانوں میں کمانے والا دستیاب نہیں
ہے، پھر بھی سب اچھا ہے؟ لوگ اغوا ہو رہے ہیں اس بارے میں سپریم کورٹ فیصلے
سنا رہی ہے مگر عملدرآمد ناپید، پھر بھی سب اچھا ہے؟ تنخواہیں مختصر اور
مہنگائی کا عذاب اپنی حدوں کو پار کر چکا ہے ، پھر بھی سب اچھا ہے؟ آخر یہ
کھیل عوام سے کب تک کھیلا جا تا رہے گا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ، دیکھیں کہ
شاید نئی حکومت اس قابل ہو جو عوام کی دکھوں کا مداوا کرنے میں پہل کرے۔ آس
و یاس کی امیدوں کے ساتھ عوام اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے والے ہیں۔
خدا اس ملک کے عوام پر خوفِ خدا رکھنے والا حکمراں لائے ۔
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
سیاسی مبصرین اور بعض مشاہدین انتخابات کی قیاس آرائیوں میں محو ہیں اور ہر
روز نِت نئی فارمولے بتا رہے ہیں ، ایسے میں سیاست کے آئندہ مکینوں کو ان
فارمولوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا تاکہ حکومت میں آنے کے بعد انہیں فیصلے
کرنے میں آسانی ہو سکے۔ آج کل تو بس سیاسی افرا تفری ہی دیکھنے میں آرہا ہے
کیونکہ انتخابات بہت ہی قریب ہیں۔ سیاست میں رشتوں کا بدلنا اور نظریاتی
جامہ تبدیل کرنا ہمارے چونکہ عام سیاسی دستور رہا ہے سو وہ بھی عروج پر ہے۔
معاشی ترقی کی شرح کا گراف بھلے ہی تباہی کی طرف گامزن ہو مگر سب اچھا ہے
کا ستون اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ لیکن حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے ۔
اقتصادی ترقی کی رفتار عملی طور پر نظر نہیں آ رہا اور صورتحال انتہائی
ناگفتہ با ہے۔ اگر غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری (جو کہ اب نام
کو ہی رہ گئی ہے) کو ہٹا دیا جائے تو ہماری اپنی ملکی معیشت کچھ بھی نہیں۔
نئی سرمایہ کاری کا نام و نشان نظر نہیں آتا کیونکہ سرمایہ کاری کرنے والے
پُر امن حالات چاہتے ہیں جو ہمارے یہاں مشکل سے ہی ملتا ہے۔ یوں نئی سرمایہ
کاری کا گراف بھی بہت مایوس کن ہے جس کی وجہ سے نئے روزگار پیدا نہیں ہو
رہے۔ دوسری طرف غیر ملکی قرضوں کا انبار لگایا جا چکا ہے اور کہا یہ جا رہا
ہے کہ ہمارے یہاں پیدا ہونے بچہ بھی مقروض ہو چکا ہے۔ ایسے صورتحال میں
اصلاحات کی امیدوں کی جگہ بحران کا گروتھ ، گرتی ہوئی ساکھ ، بلند ہوتے
مہنگائی کا گراف، مہنگا قرض، کم ہوتی روپے کی قدر، بھاری نقصان اور بہت ہی
کم روزگار کے مواقع ، یہ سب مل کر پاکستان کے لئے اس پرانی خراب اقتصادی
معاملے کو اور بھی گھمبیر بنا رہی ہے جن سے نجات فی الحال دیکھنے میں نہیں
آرہا ہے۔ شاید نئی حکومت اور اس کے کارندے اس قابل ہوں جو ان تمام مسائل سے
عہدہ برآں ہو سکیں۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کا قول ہے کہ جہاں روٹی مزدور کی تنخواہ سے مہنگی
ہو جائے وہاں دو چیزیں سستی ہو جاتی ہیں، اوّ ل عورت کی عزت اور دوم مرد کی
غیرت۔ خدا نہ کرے کہ وہ دن اس ملک میں آئے۔ کیونکہ ہم سب ہی غیرت مند قوم
ہیں اور ہر قسم کے حالات اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔ اس لئے امیدوں کا تانا بانا بنتے رہیں اور خدائے بزرگ و برتر سے
گناہوں کی معافی مانگتے رہیں۔ انشاءاللہ ! ہمارے ملک کے حالات بدلیں گے
ضرور۔ |