برصغیر میں پاکستان کے نام سے
ایک آزاد ریاست کاقیام بیسویں صدی کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ کے محرکات
کی تہ میں ایک مضبوط آئیڈیالوجی کارفرماتھی دنیا میں یہ پہلاملک ہے جس کے
قیام کا کوئی خاص پس منظر اور خاص نظریہ ہے۔
یوم پاکستان کے موقع پر بڑے بڑے جلسوس اور ریلیوں کا انقعاد کیا گیاتاکہ
آنے والی نسلوں کو پاکستان حاصل کرنے کا مقصد بتایاجائے۔اس سلسلے میں ہو نے
والی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں ایک جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔
لاہور میں پاکستان تحریک انصاف نے مینار پاکستان کے سائے تلے سیاسی میدان
سجایا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عوام سے 6 وعدے کیے۔
کہ وہ ہمیشہ قوم سے سچ بولیں گے، وہی کہیں گے جو وہ کر سکتے ہوں، انتخابات
جیتنے کے بعد ان کی حکومت عوام پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرے گی۔ ان کی
کبھی کوئی دولت اور جائےداد ملک سے باہر نہیں ہو گی۔ ان کا جینا مرنا
پاکستان کے لئے ہے، وہ کبھی ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ وہ نہ کبھی اقتدار
سے خود فائدہ اٹھائیں گے نہ دوستوں اور رشتے داروں کو اٹھانے دیں گے۔ عوام
کے ٹیکسوں کا پیسہ حکومتی محلات پر خرچ نہیں ہوں گے اور پاکستانیوں کے ساتھ
بیرون ملک جو ظلم ہوتا ہے وہ اور ان کی جماعت اس کے خلاف کھڑی ہو گی۔
پاکستان میں ظلم ختم کرنے کے لئے جہاد کریں گے، یہ نظام نہ چلنے کی وجہ یہ
ہے کہ ہمارے ملک میں ظلم کا نظام ہے۔ مجھے پاکستانیوں کی فکر ہے اس لئے میں
سیاست میں آیا تھا آج پاکستان کو تباہ کیا جارہا ہے اس لئے میرے ساتھ ملک
کر نیا پاکستان بنائیں لو گ کہتے تھے پارٹی الیکشن کراے گے تو پارٹی تباہ
ہو جائے گی ۔وغیرہ وغیرہ
منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری، منور حسن اور شیخ رشید احمد
سمیت اہم سیاسی شخصیات نے عمران خان کو فون کر کے کامیاب جلسہ پر مبارکباد
دی۔ چودھری شجاعت حسین نے عمران خان کو کامیاب جلسے کی مبارکباد دی۔ اور
کہا ہے کہ عمران خان کے چھ دعووں کی حمایت کرتا ہوں۔
سینیٹر پرویز رشید‘ اقبال ظفر جھگڑا‘ احسن اقبال اور مشاہد اللہ خان نے
جلسے اور عمران خان کی تقریر پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلم لیگ
(ن) کی مقبولیت عمران خان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے اور وہ صرف
بڑھکیں مار کر اپنی مایوسی کو چھپا رہے ہیں۔ جہانگیر بدر‘ منظور وٹو‘ ثمینہ
خالد گھرکی اور تنویر اشرف کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی باتیں
کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
مولانا عبدالغفوری حیدری اور مولانا امجد خاں کا دعویٰ ہے کہ 31 مارچ کو
مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں مینار پاکستان پر جے یو آئی (ف) کا جلسہ
کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔
الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کا باقاعدہ طورپر شیڈول جاری کردیا ہے
جس کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے انتخابات11مئی کو ہونگے۔ یہ با
ت انتہائی خوش آئند ہے کہ جمہوری حکومت پانچ سال پورے ہونے کے بعد قومی اور
صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک دن ہی ہورہے ہیں۔الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری
کردیا ہے جس کے تحت امیدواروں کے کوائف بھی چیک کیے جائیں گے۔وقت انتہائی
مختصر ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ ایف بی
آر،نادرا،سٹیٹ بینک اور نیب کی کلین چٹ کے بغیر کوئی بھی امیدوار الیکشن
نہیں لڑ سکے گا اس لئے امیدوار بھی بعد کی پریشانی سے بچنے کیلئے پہلے ہی
تمام کوائف اکٹھے کرلیں۔ مخالفین نے بھی اعتراضات کرنے ہیں اس لئے وہی
امیدوار ٹکٹ کیلئے اپلائی کریں جن کا ماضی بے داغ ہو اور انہوں نے کسی قسم
کی کرپشن نہ کی ہو اس لئے صاف اور شفاف الیکشن کیلئے سیاستدان اور تمام
سیاسی پارٹی الیکشن سے تعاون کریں تاکہ بروقت اور پر امن الیکشن وقت پر
ہوسکیں۔
دوسری طر ف الیکشن کمیشن کی طرف سے آئندہ عام انتخابات کا باقاعدہ طورپر
شیڈول جاری ہوتے ہی سیاسی جماعتوں کا ایک نیا مطالبہ سامنے آگیا ہے کہ ایم
کیوایم نے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ الطاف حسین کہتے ہیں
کہ متعدد انتخابی حلقوں میں تبدیلیاں ہمارا ووٹ بنک تقسیم کرنے کی سازش ہے۔
الیکشن سے محض چند روز قبل غیرآئینی فیصلہ مسلط کیا گیا۔ غیرقانونی اور
غیرآئینی عمل کیخلاف احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے۔ ایم کیو ایم اپنے جمہوری
حق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیگی۔
جماعت اسلامی نے بھی کراچی کی نئی حلقہ بندیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کر
دیا۔ محمد حسین محنتی کہتے ہےں کہ نئی حلقہ بندیاں محض نمائشی اقدام ہے۔
بعض قوتیں ٹھپہ مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوتی ہیں۔ فیصلے سے ان
قوتوں کو بائیکاٹ کا بہانہ مل جائیگا۔
پیپلز پارٹی نے بھی کراچی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں
کومسترد کرکے عدالت میں جانے کا اعلان کردیا۔ پیپلزپارٹی کے کراچی کے جنرل
سیکرٹری نجمی عالم او رسیکریٹری لطیف مغل کہتے ہیں کہ الیکشن سے چندروز قبل
حلقہ بندیوں کا کوئی جواز نہیں ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدالت میں
چیلنج کریں گے۔
یوم پاکستان کے موقع پر بڑے بڑے جلسوس اور ریلیوںمیں ووٹ ،ووٹ کے نعریوں کی
آوازیں بلند ہوتی رہیں ۔لیکن سیاستدانوں کی طرف سے یوم پاکستان پر کوئی
روشنی نہیں ڈالی گئی۔
لگتا ہے کہ اب محب وطن سیاستدان ہی نہیں رہے ۔اب صرف صرف محب وطن قوم سے
ووٹ حاصل کرنے کیلئے تاریخی یوم کا سہارالیاجارہاہے۔ایمانداراورمحب وطن
سرکاری غیرسرکاری لوگوں پر الزامات لگنا سیاستدانوں معمول بناگیاہے۔ ہزاروں
داستان ہیں کہ ایمانداراورمحب وطن نوجوان اور راہنماوں پر الزامات کی بارش
کر نے والے سچ نہیں بولتے اور وقت آنے پر سب سامنے آجا تاہے۔کیا اب بھی ا
یسا ہی ہوگا؟ |