سعودی عرب کا سنہری اقدام ! برما
کے مسلمانوں کیلئے خوبصورت سنگ میل ہے
برما کے شہر میانمار کے مسلم آبادی والے علاقے میک تلا میںصرف مسلمانوں کے
گھروں کو لوٹ کر آگ لگادی گئی ان کی املاک کو نقصان پہنچایاگیا اور لوٹ لیا
گیا۔ 20 مارچ2013 کو یہ گھناﺅنی حرکت دنیا کے سب سے پرامن کہلانے والے بدھ
کے پیروکاروں نے کی اور اس دہشت گردی کی لپیٹ میں اس علاقے میں موجود13 میں
سے دس مساجد کو آگ لگاکر شہید کیا گیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا
انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے چار اساتذہ سمیت 28 طلبہ کو
بھی قتل کرکے کے جلادیا گیا اور ا ن میںمشہور عالم نورالحق کے صاحبزادے
حافظ محمد احتشام کو بھی نذر آتش کردیا گیا اس موقع پر پولیس کے جوان بھی
موجود تھے جو کہ یہ وحشت ناک تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے اور شہری اپنی
جانیں بچاکر فرار ہوئے اور قریبی گاؤں نے جاکر پناہ لی-
یہ کوئی نئی بات نہیں عرصہ دراز سے اس قسم کی پریکٹس جاری ہے اور برما کی
نام نہاد حکومت آنکھیں موندے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور ان بے غیرت
بدھوں کوکوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اگلے
روز بھی مزید پانچ مساجد کو شہید کردیا گیا ۔ غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں
نے بھی اس بات کی گواہی دے دی ہے کہ یہ سب کارگزاری بدھوں کی ہے جو کہ
مشتعل ہوکر مختلف ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ لگائی گئی آگ
کو بجھایا بھی نہ جائے-
حسب معمول علما کرام نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے اور دوسری مسلم دنیا کے
حکمرانوں عوام اقوام متحدہ اور او آئی سی کی بے حسی سرد مہری اور چشم پوشی
سے مسلم امہ میں شدید مایوسی کی لہر ہے مسلمانوں میں غیرت حمیت اور عزت
نامی حس کہیں جاکر کسی کونے میں منہ چھپا چکی ہے اور اس مسئلے پر پاکستان
کا رویہ ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ مسلم دنیا میں پاکستان کی اہمیت ایک
مسلمہ حقیقت ہے اور حکومت پاکستان کا یہ رویہ پاکستانی حکمرانوں کی مسلم
دوستی کی قلعی کھولتا ہے اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پاکستانی حکمران
صرف اورصرف ملکی دولت لوٹنے اپنی جیبیں بھرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں انہیں
مسلم امہ بالخصوص پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کا رتی برابر بھی احساس
نہیں-
لیکن ! مجھے اس وقت نہایت خوشی محسوس ہوئی کہ سعودی عرب ایک ایسا ملک جوکہ
کسی کے لین دین میں نہیں ہوتا اپنے قوانین و قواعد پر سختی سے کاربند رہنے
والے ملک نے ایک عظیم مثال قائم کی جب 24 مارچ کو سعودی حکومت نے میانمار
کے مظلوم مسلمانوں کی آبادی کاری کا فیصلہ کیامکہ کے گورنر پرنس خالد
الفیصل نے اعلان کیا کہ برما کے دو لاکھ پچاس ہزار تارکین وطن کو مفت اقامہ
فراہم کیا جائیگا انہیں طبی سہولیات اور تعلیمی مواقع کے ساتھ ساتھ روزگار
بھی فراہم کیا جائیگا۔گورنر مکہ نے یہ شاندار روایت برما کے مسلمانوں میں
اقامہ جات کی تقسیم کے موقع پر کہی تھی جو کہ رہائشی اصلاح کی ذمہ دار
کمیٹی کے ہیڈکوارٹر میں واقع کودائی بس پارکنگ ایریا میں منعقد کی گئی تھی-
اقامہ جات کی تقسیم کی تقریب خالد الفیصل کی تقریر سے نہایت ہی جذباتی
ہوگئی تھی انہوں نے بڑے جذبانی انداز میں کہا کہ ”میری زندگی یہ بے
حدخوبصورت لمحات ہیں جب کہ میں بڑی تعداد میں اپنے مسلم بھائیوں کو دیکھ
رہا ہوں جو اس شہر مقدس میں اپنی زندگیوںکے معیارکو بہتر بنانے کےلئے کئی
برسوں سے فروکش ہیں ہم ان قیمتی لمحات کو یادگار بنانے کے متمنی ہیں۔ برما
کے مسلمانوں کے رہائشی موقف کا یہ خصوصی پروجیکٹ ساری دنیامیں اپنی نوعیت
کا منفرد تجربہ ہے“ انہوں نے یہ بھی کہا میرے احساسات اور تاثرات کو اس وقت
مزید تقویت اور فرحت محسوس ہوئی جب خادم الحرمین شریفین شاہ عبداللہ نے
علاقہ کا امیر بننے کے بعد میری پہلی درخواست پر بلا تامل ہامی بھرلی ۔
شاہ عبداللہ نے فی الفور غیر منظم اضلاع میں رہنے والے تارکین وطن کے
رہائشی موقم کو درست کرنے کے احکامات جاری کئے اور تین اضلاع کی ترقی کے
حوالے سے ایک وزارتی کمیٹی بھی قائم کردی پہلے ہی پانچ دنوں میں2000 سے
زائد برمی باشندوں چار سالہ مفت اقامہ کا اندراج کیا گیااور یہ منصوبہ لانگ
ٹرم ہے اور تقریبا 5 لاکھ پناہ گزینوں کو رہائش کا قانونی حق دیاجائےگا اور
انہیں وہاں آباد کرنے کے کام بھی کیا جائے گا، اس منصوبے کا افتتاح1.8 بلین
سعودی ریال سے تعلیمی پروجیکٹس جس میں بوائز اینڈ گرلز سکولوں کا قیام اور
جدید سہولیا ت سے مزین کرنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ برما کے مسلمانوں
کیلئے ایک نہایت ہی خوبصورت اور اہم سنگ میل ثابت ہوگا-
دوسری مسلم امہ اور بالخصوص پاکستانی حکومت کو اس سے سبق لینا چاہئے اور
مسلمانوں کی بھلائی اور فلاح کیلئے کام کرنا چاہئے- |