شہر میں امن و مان کی کیا
صورتحال ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن اس صورتحال میں شہر کی
نمائندگی کے نام نہاد دعوے داروں کا کیا کردار ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ
نہیں ہے۔ رینجرز، پولیس شہر بھر میں ٹارگٹیڈ آپریشن کررہے ہیں لیکن نتیجہ
وہی ڈھاک کے تین پات۔ وجہ یہ ہے کہ سیاسی تنظیم کی آڑ میں مافیا چلانے
والوں نے شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے ۔بھتہ خوری، بوری بند
لاشیں، اغوا، قتل ، ڈکیتی، پہلے شہر بھر کی گلیوں میں گیٹ اور اب بیرئرز،
حد تو یہ ہے کہ محلے کی اندورنی گلیوں تک میں رکاوٹیں لگائی گئیں ہیں اور
اس طرح شہر کو نو گو ایریا بنا دیا گیا ۔اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ نام
نہاد سیاسی تنظیم دراصل مافیا نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایک بار پھر
شہریوں کو استعمال کیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے اپنے
غیر قانونی اسلحہ کی ترسیل اور اس کو ڈمپ کرنے کے لیے شہریوں کی گاڑیوں کو
استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ مؤقر اور معروف ’’روزنامہ امت ‘‘ کی آج بروز
ہفتہ ۳۰ مارچ کی اشاعت میں پہلے ہی صفحے پر یہ تین کالمی خبر چھپی ہے جو کہ
ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔
’’متحدہ قومی موومنٹ کے دہشتگردوں نے گلیوں اور فلیٹوں میں کھڑی ہونے والی
گاڑیوں میں ہتھیار چھپانے شروع کردیے ہیں ۔ گاڑی مالکان سے روت کو زبردستی
چابیاں لے کر ان کی گاڑیوں میں اسلحہ ڈمپ کردیتے ہیں۔ لائنز ایریا میں
رینجرز کے آپریشن کے دوران علاقہ مکینوں کی گاڑیوں سے ہتھیار ملے ہیں۔
ذرائع کے مطابق متحدہ کے دہشت گردوں کی جانب سے گاڑی مالکان سے رات کو
گاڑیوں کی چابیاں لے لی جاتی ہیں اور ہتھیار کے کٹ بیگ ان میں رکھ کر دہشت
گرد علاقوں میں ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔جب کوئی سرچ آپریشن ہوتا ہے تو گھروں کی
تلاشی لی جاتی ہے، اس طرح گاڑیوں میں رکھا ہوا اسلحہ بچ جاتا ہے۔ ذرائع کا
کہنا کہ نارتھ کراچی، لانڈھی ، کورنگی، نارتھ ناظم آباد،لائنز ایریا ااور
ملیر میں متحدہ دہشت گردوں کی جانب سے کھڑی گاڑیوں میں اسلحہ ڈمپ کیا جاتا
ہے اور صبح کو اسلحہ نکلا کر اس گاڑی کی جگہ اپنی جا رینٹ اے کار کی گاڑی
کھڑی کرکے اس میں منتقل کردیا جاتا ہے۔رینجرز کی جانب سے مخصوص گھروں کے
بجائے ہر مکان کی تلاشی کے بعد متحدہ دہشت گردوں نے گاڑیوں والی حکمتِ عملی
بنائی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز رینجرز کے لائنز ایریا میں سرچ
آپریشن کے دوران گلیوں کے باہر کھڑی گاڑیوں سے ہتھیار ملے ہیں۔ مذکورہ
ہتھیار متحدہ کے دیہشت گردوں نے علاقہ مکینوں کی گاڑیوں میں چھپائے تھے۔امت
کو کورنگی سیکٹر کے ذرائع نے بتایا کہ متحدہ دہشت گردوں کو اپنے ساتھ
ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ ہتھیار کسی قریبی
جگہ پر رکھیں تاکہ نہ تو ہتھیار پکڑے جائیں اور نہ ہی وہ گرفتار ہوں۔ ذرائع
نے مزید بتایا ہے کہ لانڈھی سکیٹر آفس پر چھاپے کے دوران سلیم انقلابی کی
غلطی کی وجہ سے بھاری تعداد میں ہتھیار پکڑے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
سلیم انقلابی کو چھڑانے کی متحدہ کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اسے
ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘‘
لانڈھی میں رینجرز کے آپریشن کے دوران رینجرز کو شناختی کارڈز سے بھری ہوئی
دو بوریاں بھی ملی ہیں۔ روزنامہ جنگ کراچی کی جمعہ ۲۹ مارچ کی اشاعت میں
صفحہ اول پر ایک دو کالمی خبر لگی ہے ۔ اس خبر کے مطابق ’’رینجرز نے ٹارگٹ
کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری آپریشن میں گذشتہ شب لانڈھی کے
مختلف علاقوں سے ایک ’’ایک تنظیم‘‘ سے تعلق رکھنے والے ۲۳ کارکنوں کو مختلف
چھاپوں اور تلاشیوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ اس موقع پر رینجرز حکام کو
تلاشی کے دوران ملے والی شناختی کارڈ سے بھری ہوئی دو بوریوں کی برآمدگی پر
انتہائی حیرت ہوئی جبکہ رینجرز حکام کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تلاشیوں کے
دوران اسلحہ کی بھاری تعداد کے علاوہ لیپ ٹاپ ، کمپویٹر اور اسلحہ کی فہرست
بھی برآمد ہوئی ہے۔ جس سے رینجرز حکام کو غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے میں
اہم کامیابی متوقع ہے۔
یہاں جنگ اخبار کی اپنی پالیسی کے مطابق ایم کیو ایم کا نام ظاہرنہیں کیا
ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شناختی کارڈز کی بوریاں اور اسلحہ ایم کیو ایم کے
لوگوں سے برآمد ہوا ہے۔ ان خبروں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایم
کیو ایم شہر کراچی کی کتنی خیر خوا ہ ہے۔ جب کہ شناختی کارڈ کی بوریوں کے
ملنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ متحدہ نے انتخابات میں دھاندلی کا پروگرام بنا
لیا ہے ۔ اب یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ملنے والے شناختی کارڈ جعلی ہیں یا
لانڈھی کورنگی کے مکینوں سے زبردستی حاصل کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہاگر
متحدہ نے انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تو پھر اس میں دھاندلی کا پروگرام
بنا لیا ہے۔
آخری بات یہ کہ امت اخبار کو جعلی اور جھوٹا کہنے والوں نے آج تک امت اخبار
کے خلاف کوئی کیس نہیں کیا۔ نہ ہی کبھی اس کے خلا ف کوئی مظاہرہ، کوئی ریلی
نکالی گئی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امت اخبار کی خبریں جھوٹی نہیں
ہوتی ہیں۔ |