دُبئی میں سولر انرجی پلانٹ کا افتتاح

جمشید خٹک

دُبئی ،ابو ظہبی، اجمان ، الفجیرہ ، شارجہ ، اُم القوین ، راسلخمیہ سات ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات تیل سے مالا مال ایک خوشحال ملک ہے ۔جس کی کل آمدنی 271.2 ارب ڈالر ہے ۔اور فی کس آمدنی 49000 ڈالر ہے ۔متحدہ عرب امارات کی کل آبادی 82 لاکھ جس میں 19 فی صد اماراتی ، 23 فی صد عربی اور ایرانی ، 52 فی صد جنوبی ایشیا اور دوسرے ایشیائی ، 6 فی صد دوسرے غیر ممالک کی اقوام پر مشتمل ہے ۔پورے ملک کارقبہ 32278 مربع میل ہے ۔ابو ظہبی رقبے کے لحاظ سے پورے ملک کا 87 فی صد ہے ۔جبکہ اجمان سب سے چھوٹا اور کل رقبے کا صرف 0.3 فی صد ہے ۔کل برآمدات 300 ارب ڈالر اور درآمدات 220 ارب ڈالر ہیں۔کرنسی کافی مستحکم ہے۔2008 میں ایک ڈالر کے عوض 3.673 اماراتی درہم کے برابرتھا۔جبکہ 2012 میں بھی ایک ڈالر 3.733 کے برابر تھا۔

ابو ظہبی کا شمار دُنیا میں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے ۔خام تیل کے ذخائر اور گیس کافی مقدار میں پائی جاتی ہے ۔خام تیل کے ذخائر کی مجموعی تعداد 198 ارب BBL اور قدرتی گیس کی پیداوار 51.28 ارب کیوبک میٹر ہے ۔اتنے انرجی وسائل کے باوجود دُبئی میں سولر انرجی کے پلانٹ کی تعمیر بہتر حکمت عملی کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔

متحدہ عرب امارات کے حاکموں نے تیل کے کنویں خشک ہو نے کے بعد مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے متبادل انرجی کے ذخائر کو بڑھاتے ہوئے دُنیا کے سب سے بڑے سولر انرجی پلانٹ کا افتتاح کیا ۔یہ پلانٹ ابو ظہبی سے 120 کلومیٹر دور ایک صحرا میں تعمیر کیا جارہا ہے ۔یہ ایک ایسے ملک میں کیا گیا ۔ جس کے پاس اس وقت وافر مقدار میں تیل اور گیس موجود ہے ۔لیکن مستقبل میں پیش آنیوالے بحران کیلئے ابھی سے پیش بندی کردی گئی ہے۔ اس پلانٹ پر کل 600 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے ۔اس منصوبے کی تکمیل سے 100 میگا واٹ کی بجلی پیدا کی جا سکے گی۔جو 2000 مکانوں کی بجلی کی ضروریات کو پورا کریگی۔امارات کے ماہرین دعویٰ کرتے ہیں ۔ کہ سال 2020 تک ملک کی 7 فی صد بجلی کی ضروریات سولر انرجی سے مہیا ہوگی ۔اس پلانٹ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بھی کمی آئیگی ۔یہ ایک زبردست پلاننگ ہے ۔جس کی تقلید کرنا خاص کر ہمارے ملک جیسے انرجی بحران کے شکار ممالک کیلئے نہایت ضروری ہے ۔ پاکستان میں سولر پاور ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔سولر پاور پلانٹ بنانے کا عمل انٹرنیشنل رنیوبل انرجی چین کے تعاون سے شروع کیا جائے گا۔ 2012 میں پاکستان نے پہلی دفعہ اسلام آباد میں سولر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔اس پلانٹ سے حاصل کردہ بجلی اسلام آباد کے دو دفتروں کے ضروریات کو پورا کریگی۔خیال ہے کہ 2013 کے دروان 50 سے 100 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنیوالے مزید پلانٹس لگا ئے جا ئیں گے۔گو یہ سولر انرجی سے پیداوار کل طلب کے لحاظ سے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ۔لیکن ابتدا تو ہو گئی ہے ۔ دیکھتے ہیں ۔ہم قدرت کی طرف سے عطا کیے گئے نعمت سے کتنا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ۔پاکستان میں اس وقت تجارتی بنیادوں پر سولر انرجی کی پیداوار صفر کے برابر ہے ۔جبکہ پاکستان اس وقت انرجی کے شدید بحران کا شکار ہے ۔ملک کی کل بجلی کی پیداوار ی گنجائش 18167 میگا واٹ ہے ۔جبکہ موسم سرما میں بمشکل 10 ہزار میگا واٹ کی بجلی میسر ہوتی ہے ۔آج کل بجلی کا شارٹ فال تقریباً 600 میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے ۔پاکستان میں بھی متبادل انرجی کی ترقی کیلئے ایک بورڈ کا قیام عمل میں لا یا گیا ہے ۔جس کے ذمے سولر انرجی ، ونڈ انرجی ، بائیو گیس انرجی کے منصوبوں کو عملی پہنانا تھا۔لیکن آج تک ان منصوبوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ترقی یافتہ ممالک کی تو بات نہیں کرینگے ۔پڑوسی ممالک میں بجلی کی پیداوار کو دیکھ کر رشک آتا ہے ۔تقریباً تمام پڑوسی ممالک بجلی میں خود کفیل ہیں ۔ایران کی کل بجلی کی پیداوار 63403 میگا واٹ ہے ۔آئندہ 10 سالوں میں ایران میں 122000 میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جائیگی ۔ بھارت میں سال 2013 تک (G.W) 211.766 بجلی کی پیداواری گنجائش موجود ہے ۔جو دُنیا میں بجلی کے پیداوار کے لحاظ سے اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے ۔بھارت میں کل بجلی کی پیداوار میں 57 فی صد کو ئلے کا ہے ۔جبکہ چین ، ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا میں بجلی کے پیداوار میں کوئلے کا بڑا حصہ ہے ۔پوری دُنیا میں بجلی کے مانگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔بھارت میں 2011 تک 300 ملین شہری بجلی کے بنیادی سہولت سے محروم رہے ۔بھارت نے ونڈ پاور اور سولر انرجی میں کافی ترقی کی ہے ۔بھارت ونڈ پاور سپلائی میں دُنیا میں پانچویں نمبر پر ہے ۔ 2010 میں ونڈ پاور بجلی سے پیدا کرنے کی گنجائش ٹوٹل بجلی کے پیداوار میں 6 فی صد ہے ۔بھارت میں ونڈ بجلی پیدا کرنے کے کام کی ابتدا 1990 سے ہواتھا۔چین میں بجلی کی پیداوار 4.722 کھرب K.W.H ہے ۔جو پیداوار ی لحاظ سے دُنیا میں دو سرے نمبر پر ہے ۔چین میں بجلی کو ل ، پانی ، ونڈ کیسا تھ سولر سے بھی پیدا کی جارہی ہے ۔ 2011 میں چین میں G.W 3.3 بجلی پیدا کی جارہی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق چین میں سولر انرجی کی پیداوار 2020 تک 1800 میگا واٹ تک پہنچ جائیگی۔جبکہ پاکستان میں موجودہ وقتوں میں بمشکل 8 ہزار میگاواٹ کی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے ۔یہ بجلی کا بحران ایک ایسا نقصان ہے ۔ جو زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے ۔اس سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہورہا ہے ۔واپڈاکی طرف سے یہ تسلی دی جارہی ہے ۔کہ رواں سال کے وسط تک تقریباً 400 میگاواٹ پن بجلی کے منصوبے مکمل کر لئے جائینگے۔جبکہ اگلے پانچ سالوں کے دوران 5 ہزار میگا واٹ پن بجلی قومی نظام میں شامل کی جائے گی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ رسد اور طلب کے اعداد وشمار نہیں بتاتے ۔کہ اگلے پانچ سال میں اوسطاً فی سال بجلی کی طلب میں کتنا اضافہ ہوگا۔یہ تو ہو نہیں سکتا۔کہ بجلی کی طلب نہیں بڑھے گی۔یہ بھی عندیہ دیا جارہا ہے ۔کہ 2020 تک مزید 14 ہزار میگاواٹ بجلی قومی نظام کا حصہ بنے گی۔لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں ۔کہ 2020 میں بجلی کی کل ملکی طلب کتنی ہوگی ۔اُس شرح سے ظاہر ہے کہ طلب بھی بڑھے گی ۔جس کا مطلب یہ ہوا۔کہ یہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رہیگا۔وہ اس لئے کہ رسد میں اسی شرح سے بجلی میں

ا ضافہ نہیں کیا جارہا ہے ۔جس شرح سے طلب میں اضافہ ہورہا ہے ۔جب تک رسد وطلب کا تجزیہ کرکے اہداف مقرر نہ کئے جائیں۔لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں آسکتی ۔2020 تک تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں میں 969 میگاواٹ نیلم جھلم ، 106 میگا واٹ گولن گو ل ، 4500 میگا واٹ دیامیر بھاشا ڈیم ، 1410 میگا واٹ تربیلہ تو سیع منصوبہ ، 4320 میگا واٹ داسو، 7100 میگا واٹ بونجی ، 740 میگا واٹ منڈا ، 84 میگا واٹ کر م تنگی یہ ایسے منصوبے ہیں ۔ جو اس وقت صرف کاغذوں پر ہی نظر آتے ہیں ۔مستقبل قریب میں تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں ۔ایک لمبا انتظار ہے ۔بقول غالب ’’ کو ن جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ‘‘
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.