23مارچ 1940ءکو لاہور کے منٹو
پارک میں برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت نے مسلم لیگ کے پرچم تلے ایک نئے وطن
کی منزل کا تعین کیا تھا۔ حصول پاکستان کے لئے ان کے عزم میں اتنی نیک نیتی
اور جذبہ تھا کہ صرف سات سال بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کی عظیم
مملکت کے روپ میں ایک حقیقت بن کر ابھر ا۔ آج ان ولولہ انگیز لمحات کو
70دہائیاں گزر چکی ہیں۔ قائد اور اقبال کا پاکستان اب فرقہ ورایت، دہشت
گردی اور بدانتظامی کی شدید لپیٹ میں ہے۔ قیادت کے فقدان نے ہمیں ان منزلوں
اور راہوں سے ہٹا دیا ہے جو 73برس قبل ہم نے متعین کی تھیں۔ آج اس قرارداد
کی یاد میں مینار پاکستان تو کھڑا ہے لیکن اس کی حقیقی روح کہیں نظر نہیں
آتی۔ موجودہ حالات پر نظریں دوڑائیں تو قیادت کے فقدان کے بعد دہشت گردی
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اپنوں کی حرص اور غیروں کی سازشوں نے
ہمیں مختلف طبقوں، فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ آج بہت سی قوتیں ہماری سلامتی کو
نگل لینے کے لئے میدان میں ہیں۔ وہ ہماری پاک سر زمین کو بے یقینی کی گہری
گھٹاﺅں میں دھکیل کر ہماری آزادی اور سکون کوچھین لینا چاہتی ہیں۔ افسوس کہ
مذہب کے نام پریہ قوتیں معصوم لوگوں کی جان سے کھیل رہی ہیں۔ پاکستان میں
دہشت گردی ، تخریب کاری، ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کی نوعیت سے یہ بات تو
عیاں ہے کہ ایسے واقعات کے مرتکب افراد مسلمان ہیں نہ پاکستانی۔ان کا شمار
تو شاید انسانیت کے کسی حقیر درجے میںبھی نہیں کیا جاسکتاکہ انسانیت کی سب
بنیادی شرط ہی انسان دوستی ہے۔ ”جس نے ایک انسان کو قتل کیا ، اس نے پوری
انسانیت کو قتل کیا“ ۔ میرے آقا ﷺ کے اس فرمان کے بعد ہم کس طرح سینکڑوں
انسانوں کی جانیں لینے والوں کو انسانیت کا کوئی بھی درجہ دے دیں۔یہاں
ہرروز درجنوں لاشیں گرتی ہیں۔ گولیوں کا نشانہ بننے والوں کو علم نہیں کہ
انہیں کس جرم کی سزا دی گئی اور انہیں مارنے والے کون تھے۔
دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے واقعات کی وجہ سے ہمارا پاکستان اس وقت تاریخ
کے نازک ترین دور سے گزررہا ہے۔ ہماری قوم نے جنگیں بھی لڑیںہیں لیکن ہماری
سلامتی اورسا لمیت کوجتنانقصان دہشت گردی کے واقعات نے پہنچایاہے، اس کی
مثال نہیں ملتی۔پاکستان پر براہ راست حملہ کرنے والے دشمن کو آج بھی یاد ہے
کہ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان محبت کارشتہ اس کے جارحانہ عزائم کی
راہ میںرکاوٹ بنا۔اسے اب بھی یاد ہے کہ ہماری قوم نے یکجہتی سے اس کی عددی
و اسلحی برتری کے زعم کو خاک میں ملادیا تھا ۔
اب کی بار تو دشمن کا وار براہ راست نہیں۔ وہ تو بالواسطہ پاکستان کی
سلامتی کو پارہ پارہ کردینا چاہتا ہے۔ وہ یہاں پھر وہی کھیل کھیلنا چاہتا
ہے جو 1971ءمیں اس نے ہماری یکجہتی کو نقصان پہنچا کے کھیلا تھا۔بلوچستان
میں کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جہاں دہشت گرد تو کھلے عام اپنی
مذموم کارروائیاں کرتے چلے جارہے ہیں اور جب سیکورٹی ادارے ان پر ہاتھ
ڈالتے ہیں تو پھر محرومیوں اور زیادتیوں کی بات شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستان
میں حالیہ بدامنی پھیلانے والوں کواپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے دوسرے
اتحادیوں کابھی ساتھ حاصل ہے۔ پاکستان کے دشمن ہمیں آپس میں دست و گریبان
کرکے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ان کا مقصد فوج اور عوام میں ایک گہری خلیج پیدا
کرنا ہے اور دونوں کے درمیان موجود رشتے کو ختم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے
ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کے ذہنوں میں فوج کے خلاف نفرت کے
بیج بوئے جارہے ہیں ۔
دوسری جانب ہماری دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا کر ہماری مسلح افواج کی طاقت
کو کمزور کیا جارہا ہے۔ اس طرح دشمن پاک فوج کے خلاف ہمارے عوام میں زہر
گھولنے کے ساتھ ساتھ انہیں براہِ راست حملوں کے ذریعے بھی نقصان پہنچا رہا
ہے جس سے اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دہشت گردوںکا اصل ٹارگٹ کیا
ہے۔یقینا ان قوتوں نے پاکستان کو ایک گہرے تاریک کنویں میں دھکیلنے کی ایک
مذموم سازش تیار کرلی ہے۔وہ ایسے مکروہ اقدامات کے ذریعے عوام میں خوف اور
بے چینی کی لہر پیدا کردینے کے متمنی ہیں۔ وہ پاکستان کی معیشت کو تباہ و
برباد کردینا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان پر بغیر قبضہ جمائے یہاں عراق،
افغانستان اور فلسطین جیسا مذموم کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ
یہاں نفرت کی آگ پھیلا کر پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ ان کی تمنا
ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کراس کے ایٹمی اثاثوں کے غیرمحفوظ
ہونے کی ایسی تصویر پیش کی جائے کہ دنیا بے چین ہوجائے۔ مغربی ذرائع ابلاغ
تو پہلے ہی اپنے اس مذموم مشن کی تکمیل کے لئے دنیا کے ذہنوں میں زہر گھول
رہے ہیں۔ کبھی پاکستان کو دنیا کی خطرناک مملکت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے
تو کبھی دہشت گردوں کی آماجگاہ۔ کبھی سول وار کے خطرے پر زوردیا جاتا ہے تو
کبھی اس کے (خدانخواستہ) حصے بخرے ہونے کا راگ الاپا جاتا ہے۔ بہرحال اصل
حقائق یکسر مختلف ہیں۔
پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی یہ سازشیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتیں
کیونکہ قوم اصل حقائق سے واقف ہوچکی ہے۔ وہ پاکستان کے دشمنوں اور ان کی
سازشوں کو بھانپ چکی ہے۔وہ افواج پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں سے
بھی باخبر ہوگئی ہے۔یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہے۔اگر اس بار ہم نے قیادت کے
بحران پر قابو پا لیا، اگر عوام نے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھا، اگر
میڈیا نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ریٹنگ کی بجائے قومی مفادات کو
ترجیح دی اور اگر ہم نے اپنے انفرادی مفادات کی بجائے اجتماعی مفادات کا
خیال رکھا تو کوئی وجہ نہیں کہ دشمن کے یہ تمام ہتھکنڈے ناکام ہوجائیں۔ گو
کہ رات طویل ہوگئی ہے لیکن عوام کی آس بالکل نہیں ٹوٹی وہ تو نئی صبح کے
انتظار میں بیٹھے ہیں جس کا سورج بس طلوع ہونے ہی والا ہے جو ہمیں نئے
پاکستان کی نوید دے گا جو تعصب ، فرقہ واریت، لاقانونیت اوردہشت گردی سے
بالکل پاک ہوگا۔ انشاءاللہ! |