طلوعِ شمس اور غروبِِ آفتاب کے
مناظر کی تصاویر کو دیکھتے ہوئے یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کس میں روشنی
پھیل رہی ہے اور کس میں سمٹ رہی ہے؟لیکن حقیقت کی نظر اگتے سورج کے شفق میں
زندگی کی دھمک اور ڈوبنے والے کے افق میں موت کا سایہ دیکھ لیتی ہے۔ صدر
براک وابامہ کے مشرق وسطیٰ کے گزشتہ اور حالیہ دوروں کے درمیان یہی فرق ہے
۔ ویسے تو صدر بننے کے بعد یہ ان اولین اسرائیلی دورہ ہے لیکن منصبِ صدارت
کا انتخاب لڑنے سے قبل انہوں نے یہودی رائے دہندگان کی خوشامد کے پیشِ نظر
اسرائیل کا دورہ ضرور کیا تھا ۔وہ ان کی ایک سیاسی ضرورت تھی جس کو کوئی
خاص اہمیت نہیں ہے۔ صدر بن جانے کے بعداپنی پہلی مدتِ کار میں انہوں نے
پچاس سے زائد ممالک کے دورے کئے لیکن اسرائیل کی باری نہیں آئی۔ اور جب
دوسری مدتِ کار کی ابتداء ہوئی تو سب سے پہلے اسرائیل کانمبر آگیا۔ ایسا
کیوں ہوا ؟
اوبامہ کے اپنے الفاظ میں اس سوال کا جواب یہ ہےکہ میرے دوسری مدّتِ صدارت
میں اسرائیل سے میرے غیرملکی دوروں کا آغاز کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔اس
خطے میں چلنی والی تبدیلی کی ہوائیں بشارت اور خطرات کی پیغامبر ہیں ۔ اس
لئے میں اس موقع پر ان دونوں ممالک کے درمیان ناقابلِ تنسیخ رشتے کی تصدیق
کرنے کیلئے یہاں آیا ہوں ۔ اسرائیل کے تحفظ کی خاطر غیر متزلزل امریکی
یقین دہانی کا میں اعادہ کرنا چاہتا ہوں اور براہ راست اسرائیلی عوام اور
ان کے ہمسایوں سے خطاب کرنا چاہتا ہوں ۔ اسرائیل و امریکی مفادات کو عرب
بہار سے لاحق تشویش اور خطرات کا برملا اعتراف سے بلی تھیلے سے باہر آگئی
اور دورے کی ضرورت و اہمیت واضح ہوگئی ۔ اس کے باوجود اوبامہ نے اپنے دورے
کے دوران کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے خطرات میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔
اسرائیل کے علاوہ اوبامہ ازراہِ تکلف مغربی کنارے میں راملہ بھی گئے اور
صدر محمود عباس سے ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کی ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے جائے پیدائش
بیت اللحم کی زیارت کا شرف حاصل کاا اور اردن میں پیٹرا کی سیر و تفریح سے
لطف اندوز ہو کر واپس لوٹ آئے ۔ اس بیچ انہوں نے اسرائیل اوراردن دونوں
میں سے ہر ایک کو ۲۰ کروڈ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ۔اسرائیل کو دی جانے
والی مدد فوج پر خرچ ہوگی اور اردن کو دی جانے والی اعانت شامی پناہ گزینوں
پر صرف ہوگی ۔ غزہ کا دورہ کرنے کی جرأت صدر وابامہ اپنے اندر نہیں
رکھتے۔غزہ کی جانب سے یہ ضرور ہوا کہ دورے والے دن سدراۃ نامی شہر پر راکٹ
ضرور داغےگئے تاکہ کروڈوں ڈالر کے خرچ سے اسرائیل کو فراہم کی جانے والی
نام نہادآہنی گنبدکےناقص ہونے کا احساس صدر وابامہ کو کرایا جاسکے ۔
اوبامہ نے ۲۰۰۸ میں اسی شہر کا دورہ کیا تھا ۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے بارے میں بجا طور پریہ بات کہی جاتی ہے کہ اس پر
یہودیوں کا غلبہ ہے اس کے باوجود میڈیا میں صدر وابامہ کے حالیہ دورے کی
پذیرائی ۲۰۰۹میں کئے جانے والے اولین مشرقی وسطیٰ کےسفر کے بالقا بل عشرِ
عشیر بھی نہیں تھی حالانکہ انہوں نے یہودیوں کو ناراض کرنے والی نہ کوئی
بات کہی نہ کام کیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اول تو یہ کے اسرائیل کی حیثیت
براعظم امریکہ سے با ہراور مشرق وسطیٰ کے اند ر موجود ایک امریکی ریاست کی
ہے ۔اس لئے یہ دورہ غیرملکی نہیں اندورن ملک سفر جیسا تھا۔ اس حقیقت کا
اعتراف کرتے ہوئے اوبامہ نے کہا’ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے کیونکہ یہ
ہماری بنیادی سکیورٹی کے مفاد میں ہے کہ ہم اسرائیل کا ساتھ دیں۔ ہمارا
اتحاد دائمی اور ہمیشہ کے لیے ہے۔‘ کسی غیر ملک کا ساتھ دینا امریکہ کے
بنیادی تحفظ کے مفاد میں کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ اور اتحاد دائمی اس لئے ہے کہ
اسرائیل کے وجود کا دوام امریکی سرپرستی پر منحصرہے ۔جب وہ ختم ہوجائیگی تو
اپنے آپ نہ دوست رہے گا ور نہ دوستی رہیگی ۔
چار سال قبل براک اوبامہ کو ساری دنیا کے لوگوں نے مختلف وجوہات کی بناء
پرتبدیلی کی علامت سمجھا تھا مثلاًان کے والد کاتعلق نہ صرف کینیاسے بلکہ
مذہب اسلام تھا۔انہوں نے اپنی زندگی طویل عرصہ بیرونِ ملک گزارہ تھا لیکن
وقت کے ساتھ ان سے وابستہ توقعات پر بیجا ثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ امریکہ کا
نظام جبر تبدیلی کی ہر کوشش کو بڑی سختی سے کچل دیتا تھا ان کے اندر خطرات
سے ٹکرانے کا حوصلہ نہیں تھا اس لئے اوبامہ کو اپنے تمام تر بلند بانگ
دعووں کے باوجود مصالحت کا راستہ اختیار کرنے مجبور ہونا پڑا۔ انہوںنے
ازخودقاہرہ خطاب کے نام سے اپنی شہرہ آفاق تقریر کو بھول گئے۔ گوکہ گزشتہ
دورے کی ابتداء اسرائیل کے بجائے سعودی عرب سے ہوئی تھی لیکن سعودی عرب سے
بھی امریکہ کا رشتہ دائمی اور اٹوٹ ہے ۔ سعودی عرب کے بعد وہ مصر گئے
تھےجہاں اس وقت امریکہ کے پٹھو حسنی مبارک کی حکومت جن کی حالت محمود عباس
سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ واپس ہوتے ہوئے اوبامہ نے یہودیوں کو بہلانے
کی خاطر جرمنی میں ایک نازی کیمپ کا دورہ کیا تھا۔اس بار اردن کا دورہ کرکے
مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کا مذاق کیا گیاحالانکہ یہ دونوں نمائشی اقدامات
تھے ۔
قاہرہ کے خطاب میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے
انہیںاسلامی دنیا کو یہودیوں کے غم سے روشناس کرانے پر زیادہ زور صرف کیا
گیا تھا۔ اسی کے ساتھ اوبامہ نے بہت زور دے کر اسرائیل کو نئی تعمیرات
روکنے کی تلقین بھی کی تھی لیکن گزشتہ چارسالوں کے اندرنئی آبادیوں کی
مقدار میں پہلے کی بنسبت تین گنااضافہ ہو گیا اور اب یہ حال ہے کہ اوبامہ
نے اسے کم اہم مسئلہ قراردے دیا۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے ترجیحات کا
بیان کچھ اس طرح سے کیا کہ فی الحال بنیادی مسائل یہ ہیں فلسطینیوں کا حق
خوارادیت کیسے بحال کی جائے اور اسرائیلی عوام کے تحفظ کو کیسے یقینی
بنایاجا ئے؟اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نئی آبادیوں کے قیا م کا مسئلہ اہم
نہیں ہے بلکہ اگر مذکورہ دو مسائل حل ہو جائیں تو یہ مسئلہ ازخود حل ہو
جائیگا۔ گویا اب وہ اسرائیل کو اپنی اس جارحانہ کارروائی سے نہیں روکیں گے
۔
اس شاطرانہ بیان میں اول تو فلسطینیوں کے عدم تحفظ سے پوری طرح صرفِ نظر
کیا گیا ہے جب کہ یہودیوں کے مقابلے فلسطینی کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
اوبامہ کے مطابق جن دو مسائل کے حل ہونے سے تیسرا مسئلہ اپنے آپ حل ہو
جائیگا ان دونوں کا حل وہ نہیں جانتے اس لئے تیسرا مسئلہ کم از کم ان کے
ذریعہ تو حل ہونے سے رہا۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی حکومت
کےترجمان کہا تھا کہ امریکی صدر اپنے ساتھ کوئی امن فارمولا لے کر نہیں
جارہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کو مسئلہ اور اس کے حل کا علم ہے
لیکن بیرونی و اندرونی مفادات کے پیش نظر وہ اس پر عملدرآمد کرنا نہیں
چاہتے۔ نتن یاہو نے گزشتہ انتخاب میں ایران دشمنی کی بنیاد پرکامیابی حاصل
کی ۔اوبامہ یہودیوں کے درمیان اپنی ۱۰ فیصد شہرت میں اضافے کی خاطرایران کو
دھمکی دیتے ہوئے کہا ہم کسی دہشت گرد کو جوہری اسلحہ حاصل کرنے کی اجازت
نہیں دے سکتے ۔حالانکہ امریکہ ہی وہ واحد ملک ہے جس نے بلاجواز ناگاساکی
اور ہیروشیما میں جوہری اسلحہ کا استعمال کیا ہے۔ دوسری دہشت گرد ایٹمی
طاقت اسرائیل ہے جس نے اپنے فلسطین کے ۷۰ فیصد علاقے پر غاصبانہ قبضہ
کرکےمقامی آبادی کوملک چھوڑنے پر مجبور کررہا ہے۔
اسرائیلی دورے کے دوران اپنے منافقانہ طرز فکر کا اظہار کرتے ہوئے براک
اوبامہ نے سب سے پہلے یہ کہا اس مقدس سرزمین پر امن قائم ہونا چاہئے لیکن
پھر اس کی شرائط یوں بیان کیں اسرائیلی کی سلامتی ایک فرض ہے، مشرقِ وسطیٰ
میں پائیدار امن کے لیے ایک مضبوط اورمحفوظ یہودی ریاست کا قیام ضروری ہے
جس کے ساتھ ساتھ ایک خودمختار فلسطینی ریاست بھی موجود ہو۔گویا امن کی اصل
ضمانت یہودی ریاست کا قیام ہے۔ فلسطینی ریاست کا وجود ایک ضمیمے کے طور پر
کیا توگیا لیکن اسرائیل کے تحفظ کی دہائی دینے کے بعدفلسطین کے حفاظت کو
نظر انداز کردیا گیا۔ یہی وہ بنیادکا پتھر ہےجس نے امن عالم کو غارت کررکھا
ہے ۔اسی کے سبب امریکہ کو اپنے جڑواں ٹاور گنوانے پڑے ۔ امن وآشتی کا قیام
ظلم زیادتی کے نہیں عدل و انصاف کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر امریکی حکام ظلم
کی بنیاد پر امن کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کریں گے تو ایک دن اسرائیل
سمیت خود اس کے تلے دفن ہو جائیں گے۔
اسرائیلی مظالم کاتازہ ثبوت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کاؤنسل سے کا
بائیکاٹ ہے۔ کاؤنسل نے اسرائیل کی غیر قانونی تعمیرات کے دوران حقوق کی
پامالی کی تفتیش کا اعلان کیا تھا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے اس تنظیم سے
سارے رشتے توڑ لئے ہیں اس لئے وہ نہیں چاہتا اس کے مظالم کا پردہ کسی بین
الاقوامی تنظیم کے ذریعہ فاش ہو۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں اسرائیل وہ پہلا
ملک ہے جس ایسی مذموم حرکت کی ہے ۔ اسرائیل کی اس حرکت پر کاونسل کے کے صدر
ہنکزل نے ایک ایسی قراداد منظور کرنے پر زور دیا جس سے اسرائیل کو کاؤنسل
کے ساتھ تعاون کیلئے مجبور کیا جاسکے۔ اس تجویز کے جواب میں مصر کے نمائندے
نے کہا کاؤنسل کے سامنے حقیقت کو اجاگر کرنے والا لمحہ آگیا اور تنبیہ کی
اس معاملے میں نرمی ان تمام لوگوں کیلئے ایک نذیر بن جائیگی جو انسانی حقوق
کو پامال کرتے ہیں اور ان کے عدم تعاون کا دروازہ کھول دے گی ۔ اس موقع پر
امریکی سفارتکار ڈوناہو نے اسرائیل کا نام لئے بغیر اس پر تنقید کی انسانی
حقوق کی جائزے کے نظام کو مؤثر بنانے مشترکہ زمین تلاش کرنے پر زور دیا ۔
برطانوی ترجمان نے متوازن اور متناسب فیصلہ کرنے کی بات کہی اور آئرش رکن
نے اتفاق رائے کی تلقین کی ۔ ان مناظر دیکھ حیرت زدہ پاکستانی نمائندے نے
اسرائیل کی بھرپور تنقید کی اور کہا اگر اسی طرح کا عدم تعاون کسی ایسے ملک
کی جانب سے سامنے آتا جس کے کسی عظیم طاقت(مراد امریکہ) سے قریبی تعلق نہ
ہو تو کیا اس کے تئیں ابھی اسی طرح کے تعاون کے جذبے کا مظاہرہ کیا جاتا۔
مغرب کا یہی دوغلا پن ہے جس کی وجہ سے اس نے ساری دنیا کا اعتماد گنوا دیا
ہے ۔
امریکی صدر براک اوباما ک اس دورے کا واحدامتیاز ترکی سے اسرائیل کا معافی
مانگنا ہے ۔اوبامہ نے اول تو اسرائیل کو تنبیہ کی کہ وہ ایک ایسے موڑ پر آ
چکا ہے جہاں اسے عالمی تنہائی سے بچنے کے لیے اپنی پرانی نہج کو چھوڑنا
ہوگااوراس کے بعد اپنی موجودگی میں بن یامنو نتن یاہوکو مجبور کیا کہ وہ
مئی ۲۰۱۰ میں صہیونی کمانڈوز کے ذریعہ ترکی کے امدادی قافلے پر حملے کی
معافی مانگے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دے کر ترکی کے ساتھ سفارتی
تعلقات بحال کرے۔ صہیونی وزیراعظم نے اس حکم کے آگے سر ِخم تسلیم کرتے
ہوئے وزیراعظم رجب طیب ایردوآن سے ٹیلی فون پر فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی
معافی مانگی ۔ صدر براک اوباما ٹیلی فون لائن پر ثالث کا کردار ادا کررہے
تھے۔نتن یاہو نے اپنی معافی میں اسرائیل کے بحری کمانڈوز کی ''آپریشنل
غلطیوں'' کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ ''واقعے کا الم ناک نتیجہ ارادی
نہیں تھا اور اسرائیل کو انسانی زندگیوں کے ضیاع پر افسوس ہے''۔ نتن یاہو
نے غزہ سمیت تمام فلسطینی علاقوں میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کے داخلے پر
عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس واقعہ کویہودی قوم پرستوں نے اپنی
زبردست ہزیمت سے تعبیر کیا ہے جبکہ مبصرین نےاسے شام کے اندرجاری کشکمش میں
امریہو کی ضرورت قراردیا ہے ۔
اس دورے کے دوران او بامہ کی حالت نہ خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم جیسی تھی
کہ یہودیوں نےجوناتھن پولارڈ کی رہائی کی خاطر مظاہرہ کیا جو جاسوسی کے
الزام میں ۱۹۸۷ سےامریکہ کے اندرسزا کاٹ رہا ہے ۔ فلسطینیوں نے بھی نہ صرف
غزہ بلکہ مغربی کنارے میں بھی ان کے خلاف مظاہرہ کیا ۔اوبامہ کوسب سے زیادہ
خجالت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب مغربی بیت المقدس میں ان کے خطاب کے
دوران ربیع عید نامی فلسطینی نوجوان نے کھڑے ہو صدائے احتجاج بلند کردی ۔
ربیع نے سوال کیا ‘‘امن کے لےک آپ نے کیا کیا؟ آپ فلسطینیوں کے قتل کے لئے
اسرائیل کو مزید اسلحہ ہی فراہم کئے جا رہے ہیں؟کیا آپ نے غرب اردن جاتے
ہوئے اپنے راستے میں دیوار فاصل دیکھی؟’’ ربیع عید عیلبون میں 'بلد' تحریک
کے سرگرم کارکن ہیں۔ عید نے غصے میں چلاکرکہا ‘‘ریچل کوری کو کس نے قتل کیا؟
ریچل آپ کی دولت اور اسلحے کی بھینٹ چڑھی’’تیئس سالہ امریکی رضاکار دوشیزہ
ریچل کوری کو سولہ مارچ ۲۰۰۳ میں اس وقت ایک اسرائیلی بلڈوزر نے کچل ڈالا
تھا کہ جب وہ غزہ کی پٹی کے علاقے رفح میں فلسطینی مہاجرین کیمپ میں
فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری روکنے کے حق میں مظاہرہ کر رہی تھی۔
فلسطینی طالب علم کی صدائے احتجاج کو کچلنے کی خاطر متعدد صہیونی اہلکار اس
پر ٹوٹ پڑے اور اس کے ہاتھ کمر پر باندھ کر اسے گھسیٹے ہوئے ہال سے باہر لے
گئے، تاہم موقع پر صحافیوں کی بڑی تعداد کوموجوددیکھ کر اسرائیلی حکام نے ا
سے واجبی پوچھ تاچھ کے بعد رہا کر دیا ۔فلسطینی طالب علم کی مداخلت کا
حوالہ دیتے ہوئے صدر براک اوباما نے کہا کہ یہی وہ آزاد تبادلہ خیال ہے جس
کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس پر حاضرین نے زوردار تالیوں سے ان کے اس نکتے پر
انہیں خود داد دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہ سب کرنے کو تیار ہیں جس کا ذکر
نوجوان نے کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ میں امریکا میں ہی
ہوں۔ اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو شاید مجھے اتنا سکون نہ ملتا۔اس
مناقفانہ موقف کے جواب میں دلیر فلسطینی طالب علم ربیع عید نے ہال سے باہر
واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے صدر اوباما کی تقریر کا بائیکاٹ کرنے
پر ندامت نہیں کیونکہ اپنےجذبات ان تک پہنچانے کا یہی واحد طریقہ بچا تھا ۔
صدر اوبامہ فلمی انداز کا ڈائیلاگ مارکر خوب دادِ تحسین تووصول کرلی اور یہ
غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ و اسرائیل میں اظہارِ رائے کی بڑی
آزادی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اوبامہ کی تقریر سننے کے لئے اسرائیل کی متعدد
یونیورسٹیوں اور کالجز سے طلبہ کا چناؤ انتہائی عیاری سے کیا گیا تھا۔
طلباء کو ڈرانے دھمکانے کی خاطر ہال میں موجود طلبہ کو باقاعدہ تحریری طور
پرعہد پر دستخط کرنے کیلئے مجبورکیا گیا تاکہ وہ دورانِ تقریب وہ اپنی زبان
پر قفل لگائے رہیں اور لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے رکھیں ۔ اس مجمع میں
ربیع عید نے کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا احتجاج بلند کرکے
اسرائیلی و امریکی بہیمیت کو بے نقاب کردیا اور فیض احمد فیض کی تیس سالہ
پرانی نظم ‘‘ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے’’کو زندہ کردیا ؎
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زہق الباطل
فرمودہ ربِ اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایہ رحمت سر پہ ہے
پھر کیا ڈر ہے؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے |